Ahsan-ut-Tafaseer - At-Taghaabun : 5
اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ١٘ فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اَلَمْ يَاْتِكُمْ : کیا نہیں آئی تمہارے پاس نَبَؤُا الَّذِيْنَ : خبر ان لوگوں کی كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے فَذَاقُوْا : تو انہوں نے چکھا وَبَالَ اَمْرِهِمْ : وبال اپنے کام کا وَلَهُمْ عَذَابٌ : اور ان کے لیے عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
کیا تم کو ان لوگوں کے حال کی خبر نہیں پہنچی جو پہلے کافر ہوئے تھے ؟ تو انہوں نے اپنے کاموں کی سزا کا مزا چکھ لیا اور (ابھی) دکھ دینے والا عذاب (اور) ہونا ہے۔
5۔ 6۔ اوپر حشر کا ذکر تھا ان آیتوں میں حشر کے منکروں کو ایک اور طرح قائل کرنے کو فرمایا کہ یہ مکہ کے مشرک لوگ حشر کو اور حشر کے سامان کے لئے نیک کام کرنے کو ان سے کہا جاتا ہے اس کو ہر وقت جھٹلاتے ہیں تو کیا شام کے ملک کی طرف تجارت کے سفر میں ان کو پچھلی قوموں کی کچھ اجڑی ہوئی بستیاں نظر نہیں آئیں اور ان کو کیا ان لوگوں کو یہ حال معلوم نہیں ہوا کہ جس طرح ان حال کے لوگوں کو حشر کے قائم ہونے اور اس کے لئے سامان کرنے کی نصیحت کرنے کو اللہ کے رسول آئے اسی طرح ان لوگوں کی نصیحت کے لئے بھی اللہ کے رسول ہر ایک زمانے میں آئے تھے اور طرح طرح سے ان کو نصیحت بھی کی لیکن ان لوگوں نے ان عقلی باتوں سے کام لیا کہ بشر ہونے میں سب انسان برابر ہیں۔ اللہ کا رسول کوئی بشر نہیں ہوسکتا اور انہی عقلی باتوں سے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا۔ انجام یہ ہوا کہ دنیا میں تو وہ سب طرح طرح کے عذاب سے ہلاک ہوگئے اور آخرت کا عذاب جدا ان کو بھگتنا پڑے گا اس سے ان اہل مکہ کو اتنا سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ کے رسولوں کو جھٹلانا کتنے بڑے وبال کی بات ہے رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کے جھٹلانے والوں کو رسول کی صداقت پر مجبور کیوں نہیں کیا اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے جو دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انتظام کے موافق دنیا نیک و بد کے امتحان کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ اس لئے کسی کے مجبوری کے ایمان و اسلام کی اللہ کو کچھ پروا نہیں اس کی مخلوقات میں بغیر مجبوری کے اس کی حمد و ثنا کرنے والے تو پیدا ہیں اور اس کی ذات صفات قدیمی جب یہ حمد و ثنا کرنے والے موجود نہ تھے اس وقھ بھی اس کی یہی شان تھی اور جب یہ حمد و ثنا کرنے والے فنا ہوجائیں گے اس وقت بھی اس کی یہی شان رہے گی۔ اس واسطے اس کو کسی کی حمد وثنا اور عبادت کی کچھ پرواہ نہیں ہے۔ صحیح مسلم 1 ؎ وغیرہ کی ابوذر کی حدیث قدسی اوپر گزرچکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمام روئے زمین کے انسان و جنات نیک ہوجائیں تو اس سے اللہ کی بادشاہت میں کچھ بڑھ نہ جائے گا اور اگر یہ سب بد ہوجائیں گے تو اس سے اس کی بادشاہت میں کچھ گھٹ نہ جائے گا یہ حدیث قدسی آیت کے آخری ٹکڑے واللہ غنی حمید کی پوری تفسیر ہے۔
Top