Tafseer-e-Madani - At-Taghaabun : 5
اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ١٘ فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اَلَمْ يَاْتِكُمْ : کیا نہیں آئی تمہارے پاس نَبَؤُا الَّذِيْنَ : خبر ان لوگوں کی كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے فَذَاقُوْا : تو انہوں نے چکھا وَبَالَ اَمْرِهِمْ : وبال اپنے کام کا وَلَهُمْ عَذَابٌ : اور ان کے لیے عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
کیا تم لوگوں کو خبر نہیں پہنچی ان لوگوں کی جنہوں نے کفر کیا تم سے پہلے پھر چکھنا پڑا ان کو وبال اپنے کئے کا (اسی دنیا میں) اور ان کے لئے ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے (آخرت میں)
6 ۔ تاریخ سے درس عبرت لینے کی تعلیم و تلقین : سو ارشاد فرمایا گیا اور بطور تخصیص و استفہام ارشاد فرمایا گیا کہ کیا تمہارے اپس اے لوگو پہلے منکروں کی خبر نہیں پہنچی ؟ یعنی جیسے قوم نوح، قوم ھود اور قوم صالح وغیرہ کی کہ وہ لوگ اپنے کفر اور انکار اور بغاوت و سرکشی کے نتیجے میں آخر کار کس انجام سے دو چار ہوئے ؟ سو کفر و انکار اور تکذیب حق کا آخری انجام اور نتیجہ بہرحال تباہی اور ہولناک تباہی ہے، پس اس پر ملنے والی مہلت اور ڈھیل سے کبھی کسی کو دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے، والعیاذ باللہ۔ سو اس سے تاریخ سے درس عبرت و بصیرت لینے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے، کہ تاریخ کو صرف معلومات میں اضافے کے لیے نہیں دیکھو، بلکہ اس پر نگاہ عبرت و بصیرت ڈال کر اس سے درس عبرت لو کہ کون تھے یہ لوگ ؟ اور کہاں سے کہاں پہنچ گئے ؟ کیا جرم اور بگاڑ تھا ان کا ؟ اور کس کے نتیجے اور انجام سے دو چار ہوئے یہ ؟ اور کیوں ؟ اور کیا درس ہے ہمارے لیے ان لوگوں کے اس انجام میں ؟ وغیرہ وغیرہ۔ سو تاریخ سے درس عبرت لینا ہی اسل اور اہم مقصود ہے، وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال۔ 7 ۔ کفر و انکار کا مآل و انجام نکالو عذاب، والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ آخر کار چکھنا اور بھگتنا پڑا ان لوگوں کو نتیجہ و انجام اور وبال و نکال اپنے کیے کرائے کا، یعنی آخرت سے پہلے اسی دنیا میں کہ وہ لوگ کس طرح پتھروں کی ہولناک بارش، تباہ کن سیلابوں، اور زمینی زلزلوں، اور قسما قسم کے دوسرے عذابوں سے ہلاکت و تباہی کے دائمی گھاٹ پر اتر گئے، اور ان کا ہمیشہ ہمیش کے لیے صفایا ہوگیا اور وہ اس طرح مٹ مٹا گئے اور ان کو اس طرح تہس نہس کر کے رکھ دیا گیا کہ اب اوراق اور بطون کتب میں ان کی داستانہائے عبرت اور قصہ ہائے پارینہ کے سوا خارج میں ان کا کوئی نام و نشان تک باقی نہیں، سوائے ان کی ان عمارتوں کے کھنڈرات کے جن پر ان کو بڑا فخر و ناز ہوا کرتا تھ اور جو دنیا والوں کو اپنی زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو، سو اس آیت کریمہ میں پایا جانے والا یہ استفہام تنبیہ و تفریع کے لیے ہے جس سے مخاطبوں کو جھنجھوڑا جارہا ہے کہ وہ اپنی کافرانہ اور باغیانہ روش سے باز آجائیں، ورنہ جو حشر کل کے ان منکروں کا ہوا ہے وہ ان کا بھی ہوسکتا ہے، کہ اللہ کا قانون سب کے لیے ایک اور بےلاگ ہے، سبحانہ وتعالی۔ سو اس طرح کے غور و فکر سے انسان کے دل و دماغ سے غفلت کے پردے بنتے ہیں، اس کی آنکھیں کھلتی ہیں، اور ان کے لیے راہ حق روشن ہوتی ہے، وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید۔ 8 ۔ منکروں کے لیے اصل عذاب آخرت ہی میں ہوگا۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر فرمایا گیا کہ آخرت میں ان کے لیے ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے، یعنی اس طرح کے دنیاوی عذابوں سے ان لوگوں کا آخرت کا عذاب ٹل نہیں کیا، بلکہ وہ بدستور باقی رہا اور جو کہ اتنا سخت اور اس قدر ہولناک و دردناک عذاب ہے کہ دنیا میں اس کی کوئی نظیر و مثال بھی ممکن نہیں، " ولعذاب الاخرۃ اشق والعیاذ باللہ العظیم " سو جب ماضی کی ان منکر اور سرکش و باغی قوموں کے یہ عبرتناک مناظر تمہارے سامنے موجود ہیں اور تم ان کے آثار و نشانات کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو، پھر تم لوگ اس بات کو کیوں بعید سمجھتے ہو کہ وہ خالق ومالک مطلق ایک دن ایسا بھی لائے جس میں وہ ساری دنیا کا انصاف کرے، اور اس طرح اس کے کامل عدل اور کامل رحمت کا ظہور ہو۔ ہر کسی کو اس کے زندگی بھر کے کیے کرائے کا پورا صلہ و بدلہ ملے اور اس کائنات کے مقصد وجود و تخلیق کی تکمیل ہوسکے۔ ورنہ یہ سارا کارخانہ ہست و بود عبث و بیکار ہو کر رہ جائے گا جو کہ حضرت خالق حکیم کی شان عدل و حکمت کے خلاف ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اصل فکر آخرت ہی کرنی چاہیے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید۔
Top