Mualim-ul-Irfan - At-Taghaabun : 5
اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ١٘ فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اَلَمْ يَاْتِكُمْ : کیا نہیں آئی تمہارے پاس نَبَؤُا الَّذِيْنَ : خبر ان لوگوں کی كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے فَذَاقُوْا : تو انہوں نے چکھا وَبَالَ اَمْرِهِمْ : وبال اپنے کام کا وَلَهُمْ عَذَابٌ : اور ان کے لیے عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
کیا نہیں آئی تمہارے پاس خبر ان لوگوں کی جنہوں نے کفر کیا اس سے پہلے۔ پھر چکھا انہوں نے وبال اپنے معاملے کا۔ اور ان کے لئے عذاب ہے درد ناک
ربط آیات : سورۃ کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے توحید کا مسئلہ بیان فرمایا جو دین کی اصل اور بنیاد ہے۔ پھر اللہ کی صفت بادشاہی ، صفت خلق اور صفت علم کا ذکر کیا۔ اب آج کی آیات میں اللہ نے دو بنیادی باتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ پہلے رسالت کا ذکر ہے۔ اور پھر قیامت کا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانا ضروری ہے ، اسی طرح تمام انبیاء کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا بھی ضروری ہے اور پھر سب سے آخر میں حضور خالم النبیین (علیہ السلام) کی نبوت پر ایمان لانا بھی ضروری ہے ۔ نبوت اور قیامت کے بارے میں کافر اور مشرک شکوک و شبہات کا اظہار کرتے تھے۔ جن کا اللہ نے رد فرمایا ہے۔ اور اس انکار پر سخت سرزنش کی ہے۔ انکار رسالت پر سزا : پہلے رسالت کے بارے میں فرمایا الم یاتکم نبوا لذین کفروا من قبل کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جنہوں نے کفر کیا اس سے پہلے یہ نزول قرآن کے زمانہ کے کافروں اور مشرکوں کو بات سمجھائی جارہی ہے کہ کیا تمہیں سابقہ کافروں کی خبر نہیں پہنچی ؟ جس طرح آج تم رسالت کا انکار کر رہے ہو اس طرح پہلے لوگوں نے بھی اپنے نبیوں کا انکار کیا۔ پھر اس کا نتیجہ یہ ہوا فذاقواوبال امرھم ، کہ انہوں نے اپنے کام کی سزا کا مزہ چکھ لیا۔ اس قسم کی سزا کا ذکر اللہ نے قرآن کی مختلف سورتوں میں کیا ہے۔ قوم عاد ، ثمود ، قوم ابراہیم ، قوم لوط ، اور قوم صالح اور قوم فرعون نے توحید و رسالت کا انکار کیا تو ان کا کیا حشر ہوا ؟ اللہ نے انہیں صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹادیا۔ ولھم عذاب الیم ، اللہ نے ان نافرمان قوموں کو درد ناک عذاب میں مبتلا کیا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر سابقہ اقوام انکار کی وجہ سے ہلاک ہوسکتی ہیں تو تم اس جرم کی سزا سے کیسے بچ سکتے ہو ؟ بشریت رسل پر اعتراض : فرمایا ذلک بانہ کانت تاتیھم رسلھم بالبینت ، یہ سزا ان کو اس وجہ سے ملی کہ ان کے رسول ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے۔ بینات میں نشانیاں معجزات ، دلائل اور احکام سبھی چیزیں شامل ہیں۔ اللہ کے نبی یہ ساری چیزیں لے کر ان کی ہدایت کے لئے آتے رہے۔ فقالوا ابشر یھدوننا تو وہ کہنے لگے کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے ؟ انہوں نے گویا رسول کی بشریت پر اعتراض کیا کہ جو شخص رسالت ونبوت کا دعویٰ کررہا ہے وہ تو ہماری طرح کا انسان ہے بھلا ہمارے جیسا انسان ہمیں کیا ہدایت دیگا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں نے کہا ما نرئک الا بشرا مثلنا (ھود 27) ہم تو تجھے اپنے جیسا بشر خیال کرتے ہیں۔ ہود (علیہ السلام) کی قوم نے بھی کہا کہ یہ شخص تمہارے جیسا انسان ہی ہے۔ جو تم کھاتے ہو ، وہی وہ کھاتا ہی اور جو کچھ تم پیتے ہو ، وہ بھی وہی کچھ پیتا ہے۔ اگر تم نے اپنے جیسے انسان کی پیروی کی انکم اذا لخسرون (المومنون 34) تو نقصان میں پڑ جائو گے خود حضور ﷺ کے متعلق کفار مکہ نے کہا مال ھذا……………… ……سواق (الفرقان 7) یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے۔ اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ مطلب یہ کہ سابقہ اقوام نے بھی نبی کے انسان ہونے کا انکار کیا۔ وہ کہتے تھے کہ اگر خدا نے کوئی نبی ہی بھیجنا تھا تو کسی فرشتے کو بھیج دیتا ، جو نہ کھاتا نہ پیتا اور نہ اس کے بیوی بچے ہوتے۔ وہ مالدار ہوتا ، اس کے سونے چاندی کے محلات ہوتے ، فوج اور پہریدار ہوتے۔ اس کا تو ہمارے جیسا ٹوٹا پھوٹا مکان ہے ، ہم اس کو کیسے نبی مان لیں ؟ اللہ نے اس بات کو قرآن میں مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ انسانوں کی ہدایت کے لئے انسان ہی بطور نبی مناسب ہو سکتا ہے۔ سورة الانعام میں ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا۔ فرمایا اگر ہم فرشتے کو نازل کردیتے تو ان کا معاملہ ختم ہوجاتا اور پھر ان کو مہلت بھی نہ ملتی۔ اور فرشتے کو انسانی شکل میں بھیجتے للبسانا لیھم ما یلبسون (آیت 9) تو پھر بھی اسی ضد پر قائم رہتے اور کہتے کہ یہ فرشتہ نہیں بلکہ انسان ہے اور ان کی پھر بھی تسلی نہ ہوتی اور نہ وہ رسالت کو تسلیم کرتے۔ بہرحال فرمایا کہ نوع انسانی کی طرف انسان ہی نبی بن کر آسکتا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ نبی کا انسان ہونا کوئی عجیب بات نہیں ، دیکھو ! وما ارسلنا……………………الاسواق (الفرقان 20) آپ سے پہلے ہم نے جتنے بھی رسول بھیجے ہیں ، وہ کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔ مطلب یہ کہ وہ بھی انسان تھے۔ اور تمام انسانی لوازمات ان میں پائے جاتے تھے لہٰذا انسان ہونا نبوت کے ہرگز منافی نہیں ہے۔ اللہ نے حضور خاتم النبیین ﷺ کی زبان سے بھی کہلوایا۔ قل انما ………………یوحی الی (الکہف 110) اے پیغمبر ! آپ ان سے کہہ دیں کہ میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں البتہ مجھ پر وحی کا نزول ہوتا ہے۔ شان نبوت : جس انسان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے۔ وہ منصب نبوت پر فائز ہوتا ہے۔ جو کہ انسانیت کا اعلیٰ ترین مرتبہ ہے۔ اللہ کا نبی معصوم ہوتا ہے…اور اسے گناہوں سے پاک ہونے کی گارنٹی حاصل ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی باقاعدہ حفاظت کا انتظام ہوتا ہے۔ اس کا اخلاق ، کردار ، اور عمل نہایت ہی شاندار اور امت کے لئے نمونہ ہوتا ہے۔ تاہم ہوتا وہ انسان ہی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر نبی کو بشر یا انسان کہہ دیا تو نعوذ باللہ نبی کی توہین ہوگئی۔ یہ تو حماقت کی بات ہے ، حقیقت یہ ہے کہ انسان ہونا تو فخر کی بات ہے اللہ نے فرشتوں کو مخاطب کرکے فرمایا۔ انی خالق………………طین (ص ٓ 71) اور ساتھ فرشتوں کو حکم دیا کہ جب میں آدم کو تیار کرلوں تو اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا ، چناچہ فرشتوں نے اس حکم کی تکمیل کی۔ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ سورة بنی اسرائیل میں ہے ولقد کرمنا بنی ادم (آیت 70) ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی اور اسے شرف عطا کیا۔ غرضیکہ نبی کا بشر ہونا نبوت کے منافی نہیں بلکہ اللہ کا نبی تو افضل البشر ہوتا ہے۔ بزرگان دین بات اس طرح سمجھاتے ہیں کہ دیکھو سارے پتھر یکساں نہیں ہوتے ، اگر چہ وہ پتھر ہی ہوتے ہیں۔ وہ بھی پتھر ہیں جو سڑکوں پر کوٹے جاتے ہیں اور جس کو کوش کرکے اور بجری بنا کر عمارات میں استعمال کیا جاتا ہے اور وہ بھی پتھر ہی ہیں جو ہیروں کی شکل میں زیورات میں لگائے جاتے ہیں۔ اسی طرح سارے انسان بھی ایک جیسے نہیں۔ کہاں نبی کی معصوم اور بلندو برتر ذات اور کہاں ہم گنہگار انسان۔ کوئی احمق آدمی بھی اس لحاظ سے نبی کے برابر ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ اولاد اپنے والدین کی اور شاگرد اپنے استاد کی ہم سری کا دعویٰ نہیں کرسکتے چہ جائیکہ اللہ کے نبی کو عام انسانوں کے برابر سمجھا جائے۔ البتہ انسان ہونے میں نبی اور امتی برابر ہیں۔ کیونکہ دونوں آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں۔ عام آدمی کی طرح نبی بھی عورتوں کے بطن سے پیدا ہوئے اور طبعی لوازمات مثلاً کھانا ، پینا ، سونا جاگنا ، چلنا پھرنا ، بیماری تندرستی وغیرہ میں وہ بھی شریک ہوتے تھے ، مگر درجے کے اعتبار سے اللہ کا نبی بلند ترین ہستی اور عام مخلوق کے لئے معیار ہوتا ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ بھی بشر ہیں لیکن سیدالبشر ، سیدالاولین وآخرین۔ انسان کہنے سے آپ کی توہین کا پہلو نہیں نکلتا۔ جو ایسا سمجھتے ہیں وہ کافروں کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں۔ کافروں نے بھی انسانیت کو نبوت و رسالت کے منافی سمجھا فکفروا پس انہوں نے نبی کی نبوت کا انکار کردیا وتولوا اور اس سے منہ موڑ لیا۔ اور اس طرح جہالت میں مبتلا ہوگئے۔ اللہ نے فرمایا ، اگر انہوں نے یہ روش اختیار کی ہے واستغنی اللہ ، تو اللہ نے بھی ان سے بےپرواہی برتی ہے۔ اس نے کفار کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ واللہ غنی حمید ، اور اللہ تعالیٰ بےپرواہ اور تعریفوں والا ہے کسی کے منہ موڑ لینے سے اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ بہرحال یہ سابقہ اقوام کی بدبختی کی علامت ہے کہ انہوں نے نبی کی نبوت اور اس کی شریعت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ، حالانکہ نبی کی تعلیم کے بغیر کوئی شخص خدا تعالیٰ کی مرضیات اور نامرضیات کو معلوم نہیں کرسکتا ، اور نہ ہی اسے نجات حاصل ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو دنیا میں سزا ملی اور وہ ہلاک ہوگئے۔ بعث بعد الموت کا انکار : دین کے بنیادی مسائل میں سے رسالت کا مسئلہ بیان کرنے کے بعد اللہ نے قیامت کا مسئلہ بیان فرمایا ہے۔ زعم الذین کفروا ، کہا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کا ارتکاب کیا۔ ہم نے زعم کا ترجمہ کہا گیا ہے۔ یہ لفظ یقین اور گمان دونوں معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ حضرت شیخ الہند (رح) نے اس کا ترجمہ ” دعویٰ “ کیا ہے یعنی یقین کے ساتھ کوئی بات کرنا۔ تاہم یہ لفظ مطلق قول…کے معنی میں بھی آتا ہے مثلاً زعم فلان یعنی قال فلان حدیث میں حضور ﷺ نے شک والی بات کی تردید فرمائی ہے بئست المطیۃ زعم غلط پراپیگنڈا کرنے والے لوگ بلا تحقیق یہی لفظ استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں نے یوں کہا ہے یا لوگ یوں کہتے ہیں ……… حضور ﷺ نے فرمایا یہ بری سواری ہے جس پر لوگ سوار ہوتے ہیں اور غلط پراپیگنڈا کرتے ہیں۔ چونکہ کافر لوگ قیامت کا انکار کرتے تھے اس لئیزعم کا معنی دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ بہرحال کافروں نے دعوی کیا یا یوں کہا ان لن یبعثوا کہ مرنے کے بعد ان کو ہرگز نہیں اٹھایا جائے گا۔ بڑی تاکید اور دعویٰ کے ساتھ بعث بعدالموت کا انکار کیا۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ ان سے کہہ دیں بلیٰ کیو نہیں ؟ وربی لتبعثن ، میرے پروردگار کی قسم تم ضرور اٹھائے جائو گے۔ لتبعثن میں ل اور ن دونوں تاکیدی ہیں۔ اللہ نے پورے یقین کے ساتھ فرمایا کہ تم ضروربہ ضروراٹھائے جائو گے۔ ثم لتنبون بما عملتم ، پھر تم کو بتلا دیا جائے گا جو کچھ تم کام کیا کرتے تھے۔ تمہارے تمام اعمال بھی اللہ کے ہاں محفوظ ہیں۔ جو قیامت والے دن تمہارے سامنے رکھ دیے جائیں گے۔ فرمایا وذلک علی اللہ یسیر ، ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے لئے بالکل آسان ہے۔ جس اللہ نے تمہیں پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ، اس کے لئے دوبارہ اٹھانا کیسے مشکل ہوگا ؟ تاہم یہ کام وقت مقررہ پر ہوگا ، جس کے متعلق اللہ کا فرمان ہے وعداعلینا…………فعلین (الانبیائ 104) ہمارا یہ پکا وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا۔ یہ اس اعتراض کا جواب بھی ہوگیا کہ اگر قیامت برحق ہے تو پھر وہ آتی کیوں نہیں ؟ اللہ اور رسول پر ایمان : فرمایا جب قیامت کا وقوع اور جزائے عمل کی منزل لازمی آنے والی ہے ، تو پھر اس کے لئے تیاری کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اے لوگو ! فامنوا باللہ ورسولہ ، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئو۔ اگر خدا کا قرب ، بلند مرتبہ اور نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو کہ اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کو راضی نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے ساتھ اس کے ساتھ ساتھ اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، قیامت اور تقدیر پر ایمان لانا بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ رسالت کے سلسلے میں صرف ایک نبی پر ایمان لانا کافی نہیں بلکہ اللہ کے تمام انبیاء اور رسل پر ایمان لانا ضروری ہے اور اللہ کے ساتھ ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سنت پر عمل کیا جائے۔ جس کام کے کرنے کا حکم دے اسے انجام دیاجائے اور جس کام سے روکے اس سے باز آجائے۔ بہرحال فرمایا کہ اگر آخرت میں کامیابی چاہتے ہو تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو۔ قرآن پر ایمان : آگے فرمایا والنور الذی انزلنا اور اس نور پر بھی ایمان لائو جس کو ہم نے نازل کیا ہے۔ اس سے مراد قرآن حکیم ہے جو اللہ نے اپنے آخری نبی پر بذریعہ وحی نازل فرمایا۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں قیامت کے لئے لائحہ عمل بیان کیا گیا ہے اب اس نبی کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ اس کتاب کے بعد کوئی کتاب آئے گی سورة النساء میں بھی اللہ نے قرآن پاک کو نور سے تعبیر کیا ہے۔ وانزلنا………مبینا (آیت 175) ہم نے تمہاری طرف ایک واضح نور نازل فرمایا ہے۔ اسی طرح سورة المائدہ میں بھی فرمایا ہے قدجاء کم……………مبین (آیت 15) اللہ کی طرف سے تمہارے پاس ایک نور اور کتاب مبین یعنی قرآن پاک آگیا ہے۔ اس قرآن کی وجہ سے انسانوں کے دلوں میں روشنی پیدا ہوتی ہے ، گویا یہاں پر نور سے ظاہری روشنی مراد نہیں بلکہ نور بصیرت مراد ہے ، انسان کے اندر ایسا فہم پیدا ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ حق و باطل ، جائز وناجائز اور حلال و حرام میں امتیار کرسکتا ہے اللہ نے کفر کو تاریکی کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ جب کہ ایمان اور اطاعت نور ہے فرمایا اس نور پر ایمان لائو اور پھر اس کے پروگرام کو اختیار کرو جو کہ ایمان لانے کا لازمی تقاضا ہے۔ قرآن پاک کو اپنی زندگی کا لابحہ عمل بنالو کہ اس میں تمہاری کامیابی کا راز ہے واللہ بما تعملون خبیر اور تمہارے تمام کاموں کو اللہ تعالیٰ نگاہ میں رکھنے والا ہے۔ وہ تمہارے چھوٹے سے چھوٹے اور ہر اچھے برے عمل کو دیکھ رہا ہے اور قیامت والے دن انہی کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ یوم التغابن : آگے قیامت والے دن کا ذکر فرمایا ہے یوم یجمعکم لیوم الجمع ، جن دن کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اکٹھا ہونے والے دن اکٹھا کرے گا۔ اس سے مراد قیامت کا دن ہے جب تمام اولین اور آخرین میدان حشر میں جمع ہوں گے اور حساب کتاب کی منزل آئے گی۔ اس دن کے متعلق فرمایا ذلک یوم التغابن یہ ہار جیت کا دن ہوگا اس دن بعض لوگ ہار جائیں گے اور بعض جیت جائیں گے۔ امام بیضاوی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین اس کا مفہوم اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ہر شخص کے دو دو ٹھکانے ہیں ایک جنت میں اور دوسرا جہنم میں۔ ایک کافر آدمی کا ٹھکانا دوزخ کے علاوہ جنت میں بھی ہے اگر وہ ایمان لے آتا تو اس کو جنت والا ٹھکانا مل جاتا۔ لیکن ایمان نہ لانے کی وجہ سے ان کا جنت والا ٹھکانا مومن کو مل جائے گا۔ مومن کا اپنا ٹھکانہ بھی جنت میں ہوگا اور اس طرح اس کو دو ٹھکانے مل جائیں گے تو گویا کافر ہار گیا ، اور مومن جیت گیا۔ اس لئے اس کو ہار جیت کا دن کہا گیا ہے۔ سورة آل عمران میں اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے۔ فمن………………فقد فاز (آیت 185) جو دوزخ سے بچا کر جنت میں داخل کردیا گیا۔ وہ کامیاب ہوگیا۔ اصل کامیابی یہی ہے ، جو لوگ دنیا کی کامیابی کو کامیابی سمجھتے ہیں وہ دھوکے میں ہیں کیونکہ یہ تو عارضی چیز ہے ، ہمیشہ رہنے والا تو آخرت کا گھر ہی ہے۔ ایمان اور اعمال صالحہ : ارشاد ہوتا ہے۔ ومن یومن باللہ ویعمل صالحا ، اور جو شخص اللہ پر ایمان لایا اور اس نے نیک عمل انجام دیا۔ یکفرعنہ سیاتہ اللہ تعالیٰ اس کی کوتاہیوں سے درگزر فرمائے گا۔ ایمان اور نیکی کی وجہ سے انسان کو چھوٹی موٹی خطائیں خود بخود معاف ہوتی رہتی ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ وضو ا کی نیک عمل ہے جس کی وجہ سے انسان کی بہت سی کوتاہیاں معاف ہوتی رہتی ہیں۔ مثلاً جب کوئی آدمی وضو کی نیت سے ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ، جب منہ دھوتا ہے تو منہ کی خطائیں معاف ہوجاتی ہیں اور جب پائوں دھوتا ہے تو پائوں کے صغائر معاف ہوجاتے ہیں حتیٰ کہ جب وضو کے پانی کا آخری قطرہ زمین پر گرتا ہے تو انسان تمام صغیرے گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔ دوسری جگہ ہے ان الحسنت یذھبن السیات (ہود 114) بیشک انسان کی نیکیاں اس کی برائیوں کو مٹاتی رہتی ہیں۔ پھر جب آدمی نماز پڑھتا ہے تو اس کے بہت سے گناہ دھل جاتے ہیں۔ یہ صغیر گناہوں کے متعلق ہے ، البتہ کبائر بغیر توہ اور حق ادا کیے معاف نہیں ہوتے۔ فرمایا ، اللہ تعالیٰ اس کی تقصیروں کو معاف فرمادے گا ویدخلہ جنت تجری من تحتھا الانھر اور اسے بہشتوں میں داخل کرے گا جس کے سامنے نہریں بہتی ہیں۔ خلدین فیھا ابدا ایسے لوگ ان بہشتوں میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے اور وہاں سے کبھی نکالے نہیں جائیں گے اور نہ ہی وہاں کی نعمتیں کم ہوں گی ذلک الفوز العظیم یہ بہت بڑی کامیابی ہے جس کو نصیب ہوجائے۔ جب انسان اللہ کی رحمت کے مقام جنت میں پہنچ جائے گا تو اسے وہاں ہر قسم کی مراد حاصل ہوگی ، لہٰذا اس سے بڑھ کر کونسی کامیابی ہوسکتی ہے ؟ کفر کا انجام : پھر فرمایا والذین کفروا وکذبو بایتنا ، جن لوگوں نے کفر کیا ، یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید ، اس کی ذات ، اس کی صات ، رسالت ، کتب سماویہ ، ملائکہ اور بعث بعدالموت کا انکار کیا اور خدا تعالیٰ کی آیتوں کی تکذیب کی فرمایا اولئک اصحب النار یہی دوزخ میں جانے والے لوگ ہیں۔ خلدین فیھا ، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ کافر اور مشرک کو دوزخ سے کبھی رہائی نصیب نہیں ہوگی۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ وبئس المصیر اور یہ لوٹ کر جانے کی بہت ہی بری جگہ ہے اس سے برا کوئی مقام نہیں ہوسکتا ، اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔
Top