Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 4
وَ كَمْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا فَجَآءَهَا بَاْسُنَا بَیَاتًا اَوْ هُمْ قَآئِلُوْنَ
وَكَمْ : اور کتنی ہی مِّنْ : سے قَرْيَةٍ : بستیاں اَهْلَكْنٰهَا : ہم نے ہلاک کیں فَجَآءَهَا : پس ان پر آیا بَاْسُنَا : ہمارا عذاب بَيَاتًا : رات میں سوتے اَوْ هُمْ : یا وہ قَآئِلُوْنَ : قیلولہ کرتے (دوپہر کو آرام کرتے)
اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کر ڈالیں جن پر ہمارا عذاب (یا تو رات کو) آتا تھا جبکہ وہ سوتے تھے یا (دن کو) جبکہ وہ قیلولہ (یعنی دوپہر کو آرام) کرتے تھے۔
(4 ۔ 7) ۔ اوپر کی فہمائش کے بعد ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو یوں ڈرایا ہے کہ جب تم سے پچھلے لوگوں نے کفر وشرک نہ چھوڑا اور خدا تعالیٰ کے حکموں اور رسولوں کی فرمانبرداری نہ کی تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رسولوں کی مخالفت کے سبب سے ان نافرمانوں کی بہت سی بستیاں تباہ کردی گئیں دونوں جہان کی ذلت ان کو حاصل ہوئی تم لوگ بھی الگ اللہ کے رسول کی نافرمانی سے باز نہ آئے تو تمہارا بھی یہی انجام ہونے والا ہے قوم لوط (علیہ السلام) پر رات کے وقت اور قوم شعیب (علیہ السلام) پر دوپہر کے وقت عذاب الٰہی نازل ہوا تھا یہ دونوں وقت نہایت آرام و غفلت کے ہوتے ہیں ایسے ہی وقت میں خدا کا عذاب یکایک اترا اور اس واسطے ان دونوں وقتوں کا نام اس آیت میں لیا گیا کہ آرام کے وقت مصیبت کا آجانا انسان کو بہت شاق گذرتا ہے اہل مکہ اپنے عیش و آرام میں ڈوبے ہوئے تھے اس لئے ان کو جتلایا کہ ان سے پہلے لوگ بھی عیش کے بندے تھے لیکن راحت کے وقتوں میں جب ان پر عذاب آگیا تو سب راحت خاک میں مل گئی پھر فرمایا جن وقتوں میں عذاب آیا تھا وہ اس وقت سوائے اپنے گناہوں کے اقرار کے اور کچھ نہ کہہ سکے یہی کہتے کہ بیشک ہم اسی لائق ہیں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ قیامت کے روز پروردگار پچھلی سب امتوں سے جھڑکی اور ان کو قائل کرنے کے طور پر یہ پوچھے گا کہ تم نے ہمارے رسولوں سے یہ دریافت فرماوے گا کہ تم نے ہمارے پیغام ان کو پہنچاوئے یا نہیں سورة قصص میں آویگا۔ وَمَا کَانَ رْبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبُعَثَ فِیْ امہَا رَسُوْلًا یَّتْلُوا عَلَیْہِمْ ایٰاتِنَا وَمَاکُنَّا مُہْلِکیَ الُقُرٰی اِلَّاوَاَھْلُہَا ظَالِمُوْنَ (28: 59) اور سورة مومن میں آوے گا فَلَماَ رَاوَبْاَ ْسَنَآ قَالُوْا اٰمَنَّا بِاْللّٰہِ وَحْدَہٗ وَکَفَرْنَا بِمَا کُنَّابِہٖ مُشْر کِیْنَ فَلَمْ یکُ یَنْفَعُہُمْ اِیْمَا نُہئمْ لَمَّارَاُوُبَاْ سَنَآ سَنَۃَ اللّٰہِ الَّتیِ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِہٖ (40: 84۔ 85) مطلب ان دونوں آیتوں کا یہ ہے کہ جتنی بڑی چھوٹی بستیاں پچھلے زمانہ میں طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوئے ہیں ان کی ہلاکت سے پہلے جب تک اللہ تعالیٰ نے ان میں کی بڑی بڑی بستیوں میں آسمانی کتابیں دے کر رسول نہیں بھیج لئے اور رسولوں کے بھیجنے کے بعد پھر جب تک ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کر کے اللہ کے رسولوں سے پوری مخالفت نہیں کی اس وقت تک اللہ تعالیٰ نے بےوقت ناانصافی سے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا پھر جبکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو نیک وبد کے امتحان کے لئے پیدا کیا ہے اور مجبوری کے بعد یہ امتحان کا موقع باقی نہیں رہتا اس لئے اللہ کے عذاب کو آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ان لوگوں نے جو اللہ کی فرمانبرداری اور شرک سے بیزاری کا اقرار کیا ان کے اس بےوقت کے اقرار پر لحاظ کرنا انتظام دنیا کے برخلاف تھا اس واسطے ان کا وہ اقرار ناقابل توجہ قرار پایا۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے مغیرہ بن شعبہ ؓ کی حدیث گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا صاحب عذر کے عذر کو رفع کردینا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اسی واسطے اس نے آسمانی کتابیں دے کر رسول بھیجے تاکہ کسی شخص کو احکام الٰہی کی انجانی کا عذر باقی نہ رہے صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن العاص ؓ کی حدیث بھی گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے دنیا کے پیدا ہونے کے بعد جو کچھ دنیا میں ہونے والا تھا اپنے علم ازلی کے موافق وہ سب اللہ تعالیٰ ان متوں کے رسولوں سے پوچھے گا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے احکام اپنی امتوں کو اچھی طرح سے پہنچادئے تھے اللہ کے رسول جواب دیں گے کہ یا اللہ ہم نے ان لوگوں کو تیرے سب سزا وجزا کے احکام پہنچادیے لیکن ان لوگوں نے ان احکام کو نہیں مانا یہ پچھلی امتوں کے لوگ اللہ کے رسولوں کو جھٹلادیں گیں اور کہیں گے یا اللہ ہم کو کسی نے تیرے احکام نہیں پہنچائے اس پر اللہ تعالیٰ ان رسولوں سے فرمادے گا کہ تم اپنے بیان کی تائید میں کوئی شہادت پیش کرسکتے ہو وہ رسول امت محمد یہ کو اپنا گواہ قرار دیں گے یہ سن کر پہلی امتیں کہیں گی کہ یا اللہ یہ لوگ تو ہم سے پیچھے دنیا میں پیدا ہوئے تھے ان کو ہمارے حال کی کیا خبر ہے۔ امت محمدیہ کے لوگ کہیں گے کہ یا اللہ تو نے ہمارے نبی آخر الزمان پر جو قرآن اتارا ہے اس میں پہلے نبیوں کا اور پہلی امتوں کا سب کا ذکر ہے اس واسطے ہم تیرے کلام کے موافق تیرے رسولوں کے سچے ہونے کی گواہی دیتے ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ اوپر کی آیتیں اور حدیثیں گویا اس آیت کی تفسیر ہیں جس تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ کو ہر ایک فرمانبردار اور نافرمان کا حاصل دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے معلوم تھا لیکن اس نے سزا وجزا کا مدار اپنے انصاف سے اس اپنے ازلی علم پر نہیں رکھا بلکہ دنیا اور عقبے میں نافرمان لوگوں کی سزا کا مدار ظہور جرم پر ثبوت جرم کے بعد رکھا ہے۔ فلنقصن کا مطلب حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ہر شخص کا نامہ اعمال اس کے روبر رکھا جاوے گا جو سب عملوں کا احوال ظاہر کریگا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سب چھوٹے بڑے عملوں کی خبر اپنے بندوں کو دے گا کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے سب کچھ اس کے علم میں ہے مگر نامہ اعمال سے ان لوگوں کو قائل کیا جاویگا۔
Top