Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 4
وَ كَمْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا فَجَآءَهَا بَاْسُنَا بَیَاتًا اَوْ هُمْ قَآئِلُوْنَ
وَكَمْ : اور کتنی ہی مِّنْ : سے قَرْيَةٍ : بستیاں اَهْلَكْنٰهَا : ہم نے ہلاک کیں فَجَآءَهَا : پس ان پر آیا بَاْسُنَا : ہمارا عذاب بَيَاتًا : رات میں سوتے اَوْ هُمْ : یا وہ قَآئِلُوْنَ : قیلولہ کرتے (دوپہر کو آرام کرتے)
اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کر ڈالیں جن پر ہمارا عذاب (یا تو رات کو) آتا تھا جبکہ وہ سوتے تھے یا (دن کو) جبکہ وہ قیلولہ (یعنی دوپہر کو آرام) کرتے تھے۔
(4) (وکم من قریۃ اھلکنھا) عذاب کے ساتھ ” کم “ کثرت کے معنی دیتا ہے اور ” رب قلت “ کا معنی دیتا ہے۔ (فجآء ھا باسنا بیاتاً رات اوھم قائلون)” فیلولہ “ مصدر سے ہے۔ اصل عبارت ” فجاء ھابأسنا لیلا وھم نائمون اوتھاراً وھم قائلون “ قیلولہ کر رہے ہوں گے۔” اونائمون ظھیرۃ “ ” قیلولۃ “ آدھے دن میں آرام کرنا اگرچہ نیند نہ آئے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس ہمارا عذاب آیا اور ان کو امید نہ تھی، رات کو یا دن کو۔ زجاج (رح) فرماتے ہیں ” او “ عذاب پھیرنے کے لئے ہے یعنی ایک مرتبہ رات کو اور ایک مرتبہ دن کو۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ بعض بستی والوں کو ہم نے رات کو ہلاک کیا اور بعض کو دن کے وقت ہلاک کیا یعنی ان کے ہلاک کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگر یہ اعتراض ہو کہ پہلے کہا ہم نے ان کو ہلاک کردیا، پھر اس کے بعد عذاب آنے کا کیا معنی ؟ تو جواب یہ ہے کہ ” اھلکنا “ کا معنی ہے کہ ان کی ہلاکت کا ہم نے فیصلہ کیا تو ان پر ہمارا عذاب آیا۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ” فجاء ھا بأسنا “ یہ اللہ تعالیٰ کے قول ” اھلکناھا “ کا بیان ہے جیسے کہنے والا کہتا ہے ” اعطیتی فاحسنت الی “ اس قول اور اس کے اس قول ” احسنت الی فاعطیتی “ میں کوئی فرق نہیں ہے ان میں سے ایک دوسرے سے بدل ہے۔
Top