Fahm-ul-Quran - Al-A'raaf : 4
وَ كَمْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا فَجَآءَهَا بَاْسُنَا بَیَاتًا اَوْ هُمْ قَآئِلُوْنَ
وَكَمْ : اور کتنی ہی مِّنْ : سے قَرْيَةٍ : بستیاں اَهْلَكْنٰهَا : ہم نے ہلاک کیں فَجَآءَهَا : پس ان پر آیا بَاْسُنَا : ہمارا عذاب بَيَاتًا : رات میں سوتے اَوْ هُمْ : یا وہ قَآئِلُوْنَ : قیلولہ کرتے (دوپہر کو آرام کرتے)
” اور کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا۔ ان پر ہمارا عذاب رات ہی رات آیا یا وہ دوپہر کو آرام کرنے والے تھے۔ (4)
فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے فرمان نہ ماننے اور اس کی نصیحت قبول نہ کرنے والوں کا انجام۔ سورة کے تعارف میں ہم نے عرض کیا ہے کہ سورة کے پہلے رکوع میں ساری سورة کے مضامین کا خلاصہ ذکرہوا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی اقوام اور امتوں کے پاس اپنے رسول بھیجے جو انکو اللہ تعالیٰ کے احکام بتلاتے اور باربار نصیحت کرتے تھے کہ اے لوگو ! اپنے رب کی ہدایات پر عمل کرو۔ اس میں تمہارا بھلا ہے اور ہم تمہارے خیرخواہ ہیں لیکن لوگوں نے اپنے رب کی ہدایات ماننے اور انبیاء (علیہ السلام) کی پیروی کرنے کے بجائے اپنے آبا کے رسم و رواج، بزرگوں کے اقوال اور ذاتی خیالات کو مقدم جانا۔ اس فکروعمل پر انہیں بار بار تنبیہ کی گئی کہ اگر تم نے اپنی طرزحیات کو نہ بدلا تو اللہ تعالیٰ کا عذاب تمہیں آلے گا لیکن وہ اپنے فکروعمل پر مصر اور انبیاء (علیہ السلام) کی توہین کرتے اور ان سے عذاب الٰہی کا مطالبہ کرتے رہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر حجت تمام ہوئی تو اس کے عذاب نے انہیں ایسے وقت میں آدبوچا جب وہ غفلت کی نیند سوئے ہوئے تھے۔ یعنی ایسی حالت میں عذاب آیا کہ وہ آہ وزاری بھی نہ کرسکے۔ بڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان اور قوم جسے اس کی بداعمالیوں کی وجہ سے آخر وقت میں توبہ نصیب نہ ہو۔ انہوں نے غفلت میں زندگی گزاری اور غفلت کی حالت میں پکڑے گئے اگر کسی کو ہوش آیا بھی تو وہ یہی کہہ رہا تھا کہ واقعی ہم ظالم ہونے کی وجہ سے اس عذاب میں مبتلا ہوئے ہیں۔ مسائل 1۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ایک وقت مقرر ہے۔ 2۔ عذاب عموماً اس وقت آتا ہے جب لوگ غفلت و بےفکری میں پڑے ہوتے ہیں۔ 3۔ عذاب کے وقت سبھی اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہیں۔
Top