Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 4
وَ كَمْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا فَجَآءَهَا بَاْسُنَا بَیَاتًا اَوْ هُمْ قَآئِلُوْنَ
وَكَمْ : اور کتنی ہی مِّنْ : سے قَرْيَةٍ : بستیاں اَهْلَكْنٰهَا : ہم نے ہلاک کیں فَجَآءَهَا : پس ان پر آیا بَاْسُنَا : ہمارا عذاب بَيَاتًا : رات میں سوتے اَوْ هُمْ : یا وہ قَآئِلُوْنَ : قیلولہ کرتے (دوپہر کو آرام کرتے)
اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کر ڈالیں جن پر ہمارا عذاب (یا تو رات کو) آتا تھا جبکہ وہ سوتے تھے یا (دن کو) جبکہ وہ قیلولہ (یعنی دوپہر کو آرام) کرتے تھے۔
آیت نمبر : 4۔ 5 قولہ تعالیٰ : آیت : وکم من قریۃ اھلکنٰھا اس میں کم تکثیر کے لیے ہے، جس طرح کہ رب تقلیل کے لیے ہوتا ہے۔ اور کم مبتدا ہونے کی وجہ سے محل رفع میں ہے، اور اھلکنٰھا اس کی خبر ہے، یعنی بہت سے بستیاں تھیں۔ قری بہت سے لوگوں کے اکٹھا رہنے کی جگہوں کو کہتے ہیں۔ ہم نے انہیں ہلاک و برباد کردیا۔ اور کم کو اس بنا پر محل نصب میں قرار دینا بھی جائز ہے کہ اس کے بعد فعل مضمر ہو اور اس سے پہلے فعل مقدر نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ استفہام اپنے سے ما قبل میں عمل نہیں کرتا۔ اور پہلے قول کو یہ قول تقویت دیتا ہے : آیت : وکم اھلکنا من القرون من بعد نوح (الاسراء : 17) ( اور کتنی قومیں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا نوح کے بعد) اگر اھلکنھا ضمیر کے ساتھ مشغول نہ ہوتا تو اس کے ساتھ کم کا محل یقینا منصوب ہوتا۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ اھلکنھا، قریۃ کی صفت اور کم معنی میں ھی القریۃ ہو اور جب تو نے القریۃ کی صفت لگائی تو گویا تو نے کم کی صفت لگائی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے : آیت : وکم من ملک فی السموٰت لا تغنی شفاعتھم شیئا ( النجم : 26) ( اور کتنے فرشتے ہیں آسمانوں میں جن کی شفاعت کسی کام نہیں آسکتی) ہپس ضمیر معنی کے اعتبار سے کم کی طرف لوٹ رہی ہے، کیونکہ معنی میں ملائکہ ہیں۔ پس اس تقدیر پر یہ صحیح ہے کہ کم محل نصب میں ہو اس فعل کے سبب جو اس کے بعد مضمر ہو۔ فجآء ھا باسنا اس میں اشکال ہے فا کے ساتھ عطف ہونے کی وجہ سے۔ پس فراء نے کہا ہے : فا بمعنی واؤ ہے، پس ترتیب لازم نہ ہوگی اور یہ بھی کہا گیا ہے : ( کہ اصل عبارت ہے) وکم من قریۃ اردنا اھلا کھا فجاء ھا باسنا ( اور کتنی بستیاں تھیں جنہیں ہم نے برباد کرنے کا ارادہ کیا پس ہمارا عذاب ان پر آیا ( جیسے یہ قول باری تعالیٰ ہے : آیت : فاذا قرأت القران فاستعذ باللہ من الشیطن الرجیم (النحل) ( سو جب تم قرآن کی تلاوت کرنے لگو تو پناہ مانگو اللہ تعالیٰ سے اس شیطان ( کی وسوسہ اندازیوں) سے جو مردود ہے) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک ہلاکت اور بربادی بعض قوم پر واقع ہوئی، پس تقدیر کلام ہوگی : وکم من قریۃ اھلکنا بعضھا فجائھا باسنا فاھلکنا الجمعی ( اور کتنی بستیاں تھیں ان میں سے بعض کو ہم نے برباد کردیا پھر ہمارا عذاب ان پر آیا تو ہم نے تمام کو ہلاک کردیا) ۔ اور یہ قول بھی ہے : اس کا معنی ہے اور کتنی بستیاں تھیں ہم نے انہیں اپنے حکم اور فیصلے میں برباد کرد یا، پس ہمارا عذاب ان پر آیا، اور یہ بھی کہا گیا ہے : ہم نے انہیں اپنی طرف سے ملائکہ عذاب ان کی طرف بھیج کر برباد کرد یا، پس ہمارا عذاب ان پر آیا اور باس سے مراد تباہ ور برباد کردینا، جڑ سے اکھیڑ دینا ہے۔ اور الباس کا معنی آدمی پر آنے والا عذاب ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی ہے : اھلنا ھا فکان اھلا کنا ایاھم فی وقت کذا، فمحی الباس علی ھذا ھوالا ھلاک ( ہم نے انہیں ہلاک کردیا اور ہمارا انہیں ہلاک کرنا فلان وقت میں تھا، پس اس بنا پر عذاب آنے کا معنی ہلاک و برباد کرنا ہے) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ باس ( عذاب) اھلاک ( ہلاک کرنا) کے علاوہ ہے، جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا ہے اور فراء نے بھی بیان کیا ہے کہ جب دو فعلوں کا معنی ایک ہو یا ایک کی طرح ہو تو ان میں سے جسے چاہے پہلے ذکر کردیے، پس معنی یہ ہے وکم من قریۃ جاء ھا باسنا فاھلکنا ھا، جیسے دنا فقرب اور قرب فدنا ( دونوں کا معنی قریب ہونا ہے) اور شتمنی فاساء اور اساء فشتمی، کیونکہ الاساۃ اور الشتم ( برا بھلا کہنا) دونوں ایک شی ہیں۔ (معانی القرآن للفرائ، جلد 1، صفحہ 371) اور اسی طرح قول باری تعالیٰ ہے : آیت : اقتربت الساعۃ وانشق القمر (القمر : 1) اس کا حقیقی معنی تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اور انشق القمر فاقتربت الساعۃ دونوں کا معنی ایک ہے ( قیامت قریب ہوئی اور چاند پھٹ گیا) بیاتا اس کا معنی ہے۔ لیلا ( رات کے وقت) اور اسی سے البیت ہے، کیونکہ اس میں رات گزاری جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے : بات یبیت بیتا وبیاتا ( رات گزارنا) اوھم قآئلون یعنی یا اس ھال میں کہ وہ دوپہر کو سو رہے تھے۔ اوھم قآئلون پس انہوں نے ثقیل سمجھا تو انہوں نے واو کو حذف کردیا، یہ فراء نے کہا ہے۔ اور زجاج نے کہا ہے : یہ خطا ہے، کیونکہ جب ذکر دوبارہ ہو تو واو کی ضرورت نہیں ہوتی، آپ کہتے ہیں : جآءنی زید راکبا اوھو ماش اس میں واو کی ضرورت نہیں ( اور وھو ماش نہیں کہا جائے گا) مہدوی نے کہا : یہ نہیں کہا بیاتا او وھم قائلون کیونکہ جملہ میں ایک ضمیر ہے جو اول کی طرف لوٹ رہی ہے پس وہ واو سے مستغنی ہے۔ اور یہ معنی میں زجاج کے قول کے ساتھ برابر ہے اور یہاں اوشک کے لیے نہیں ہے بلکہ تفصیل کے لیے ہے، جیسے آپ کے اس قول میں : لاکرمنک منصفا لی او ظالما ( میں ضرور بضرور تیری عزت و تکریم کروں گا تو میرے ساتھ انصاف کرے یا ظلم) اور نحویوں کے نزدیک اس واؤ کو واو الوقت کا نام دیا جاتا ہے۔ اور قائلون یہ قائلۃ سے ہے اور اس کا معنی ہے قیلولہ کرنا۔ اور اس کا معنی ہے دوپہر کے وقت سونا۔ اور یہ بھی کہا ہے : الاستراحۃ نصف النھار اذا اشتد الحروان لم یکن معھانوم ( دوپہر کے وقت آرام کرنا جب گرمی شدیدی ہو اگرچہ اس کے ساتھ نیند نہ بھی ہو) اور آیت کا معنی یہ ہوا : ہمارا عذاب ان پر آیا اس حال میں کہ وہ غافل تھے یا تورات کے وقت یا دن کے وقت۔ اور الدعوٰ اس کا معنی دعا ( پکارنا) ہے اور اسی سے یہ قول ہے : آیت : واخردعوھم ( یونس : 10) ( اور ان کی آخری پکار یہ ہوگی) اور نحویوں نے بیان کیا ہے : اللھم اشرکنا فی صالح دعوی من دعا ک ( اے اللہ ! ہمیں اس اچھی اور صالح دعا میں شریک کرنا جو کوئی تجھ سے مانگے) اور کبھی دعوی بمعنی ادعاء ( دعوی کرنا) بھی ہوتا ہے۔ اور معنی یہ ہے : بیشک وہ بربادی اور ہلاکت کے وقت اس اقرار میں مخلص تھے کہ وہ ظالم لوگ تھے۔ اور دعوٰھم کان کی خبر ہونے کی وجہ سے محل نصب میں ہے اور اس کا اسم الا ان قالوا ہے اور اس کی نظیر آیت : فماکان جواب قومہ الا ان قالوا ( النمل : 56) ہے۔ اوعر یہ بھی جائز ہے کہ الدعوی محل رفع میں اور ان قالوا محل نصب میں، جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : آیت : لیس البر ان تولوا ( البقرہ : 177) اس میں البر رفع کے ساتھ ہے۔ اور قول باری تعالیٰ ہے : آیت : ثم کان عاقبۃ الذین اسآء وا السوآٰی ان کذبوا ( الروم : 10) اس میں عاقبۃ رفع کے ساتھ ہے۔
Top