Al-Quran-al-Kareem - Al-Qasas : 43
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآئِرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا : اور تحقیق ہم نے عطا کی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب (توریت مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَآ اَهْلَكْنَا : کہ ہلاک کیں ہم نے الْقُرُوْنَ : امتیں الْاُوْلٰى : پہلی بَصَآئِرَ : (جمع) بصیرت لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور بلاشبہ یقینا ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، اس کے بعد کہ ہم نے پہلی نسلوں کو ہلاک کردیا، جو لوگوں کے لیے دلائل اور ہدایت اور رحمت تھی، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَهْلَكْنَا۔۔ : یہاں سے رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے دلائل اور اس پر اعتراضات کا جواب شروع ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک اعتراض یہ تھا کہ ہم نے یہ بات پہلے آبا و اجداد میں نہیں سنی، جیسا کہ فرمایا : (مَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِي الْمِلَّةِ الْاٰخِرَةِ ښ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ) [ ص : 7 ] ”ہم نے یہ بات آخری ملت میں نہیں سنی، یہ تو محض بنائی ہوئی بات ہے۔“ زیر تفسیر آیت سے پہلے آیت (36) میں گزرا ہے کہ یہی اعتراض فرعون اور اس کے سرداروں نے موسیٰ ؑ پر کیا تھا : (وَّمَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِيْٓ اٰبَاۗىِٕنَا الْاَوَّلِيْنَ) ”اور ہم نے یہ بات اپنے پہلے باپ دادا میں نہیں سنی۔“ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کی پیدائش سے لے کر فرعون کی ہلاکت تک کا واقعہ بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ ہم نے پہلی نسلوں قوم نوح، عاد، ثمود اور قوم لوط وغیرہ کو ہلاک کرنے کے بعد جب ہر طرف گمراہی اور ظلمت کا دور دورہ تھا، موسیٰ ؑ کو کتاب دی جو اس وقت کے لوگوں کے لیے ایسے دلائل لیے ہوئے تھی جن سے دل کی آنکھ روشن ہوتی ہے اور جو گمراہی سے نکال کر ہدایت میں لانے والی اور عذاب سے بچا کر رحمت کا مستحق بنانے والی تھی۔ اور یہ اعتراض بےکار تھا کہ ہم نے اپنے پہلے باپ دادا میں یہ بات نہیں سنی، کیونکہ اسی لیے تو موسیٰ ؑ کو مبعوث کیا گیا تھا کہ مدت دراز تک رسول نہ آنے کی وجہ سے لوگوں کو ہدایت اور روشنی کی ضرورت تھی۔ اسی طرح بنی اسماعیل میں ابراہیم اور اسماعیل ؑ کے بعد ہزاروں سال کا وقفہ واقع ہوجانے کی وجہ سے ان کی طرف رسول بھیجنے کی ضرورت تھی۔ بنی اسرائیل کی طرف آنے والے آخری رسول عیسیٰ ؑ کو بھی ایک عرصہ گزر چکا تھا۔ اس لیے نبی کریم ﷺ کو مبعوث کیا گیا، تاکہ بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل میں سے کسی کے پاس یہ عذر نہ رہے کہ ہمارے پاس کوئی آگاہ کرنے والا نہیں آیا۔ یہی بات آگے آیت (47) میں آرہی ہے اور اس سے پہلے سورة مائدہ میں بھی گزر چکی ہے، فرمایا : (يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلٰي فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَاۗءَنَا مِنْۢ بَشِيْرٍ وَّلَا نَذِيْرٍ ۡ فَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَشِيْرٌ وَّنَذِيْرٌ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) [ المائدۃ : 19 ]”اے اہل کتاب ! بیشک تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے، جو تمہارے لیے کھول کر بیان کرتا ہے، رسولوں کے ایک وقفے کے بعد، تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس نہ کوئی خوش خبری دینے والا آیا اور نہ ڈرانے والا، تو یقیناً تمہارے پاس ایک خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا آچکا ہے اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔“
Top