Maarif-ul-Quran - Al-Qasas : 43
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآئِرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا : اور تحقیق ہم نے عطا کی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب (توریت مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَآ اَهْلَكْنَا : کہ ہلاک کیں ہم نے الْقُرُوْنَ : امتیں الْاُوْلٰى : پہلی بَصَآئِرَ : (جمع) بصیرت لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم نے پہلی امتوں کے ہلاک کرنے کے بعد موسیٰ کو کتاب دی جو لوگوں کے لئے بصیرت اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں
خاتمہء قصہء مذکورہ برا عطا کتاب ہدایت برائے بصیرت وعبرت و اثبات رسالت محمد یہ مع جوابات از شبہات واھیہ قال اللہ تعالیٰ ولقد اتینا موسیٰ الکتب۔۔۔ الی۔۔۔۔ من قبلک لعلہم یتذکرون۔ (ربط) یہاں تک موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا قصہ ختم ہوا۔ اب اخیر میں قوم کی ہدایت کے لئے نزول تورات کا ذکر فرمایا جو اصل مقصود تھا اب آئندہ آیات میں اثبات رسالت محمدیہ کا مضمون ذکر فرماتے ہیں اور اس کے ضمن میں بعض شبہات کا جواب بھی دیتے ہیں جو محض عناد پر مبنی تھے اور یہ بتلاتے ہیں کہ جس طرح توریت کتاب ہدایت و رحمت تھی اسی طرح یہ قرآن بھی کتاب ہدایت و رحمت ہے اور آپ کی نبوت و رسالت کی دلیل اور حجت ہے جو لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل کی گئی ہے اور اس کتاب کا گزشتہ واقعات پر مشتمل ہونا یہ آپ کی نبوت کی دلیل ہے اس لئے کہ آپ ﷺ نہ جانب غربی میں تھے جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام کیا اور نہ مدین میں تھے۔ اور آپ ﷺ تو امی تھے اگلی کتابوں کو پڑھ نہیں سکتے تھے ان تمام واقعات کا علم آپ کو بذریعہ وحی ہوا۔ خلاصۂ کلام یہ کہ اس واقعہ اور قصہ کا نہ تو آپ ﷺ نے مشاہدہ کیا ہے اور نہ کسی سے سنا ہے اور نہ کسی کتاب میں پڑھا ہے صرف ہماری وحی سے آپ کو اس کا علم ہوا ہے لہٰذا یہ آپ کے مرسل من اللہ ہونے کی واضح دلیل ہے چناچہ فرماتے ہیں اور البتہ تحقیق ہم نے فرعون کو کفر کا امام اور پیشوا اور دوزخ کا داعی بنایا اور دریا میں اس کو غرق کیا اور دنیا اور آخرت میں اس کو مورد لعنت بنایا اس کے بالمقابل ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حق اور ہدایت کا پیشوا اور جنت کا داعی اور دنیا اور آخرت میں ان کو مورد رحمت و کرامت بنایا اور پہلی قوموں یعنی قوم نوح اور قوم عاد اور قوم ثمود کے ہلاک کرنے اور فرعون کے غرق کرنے کے ایک سال (ف 1) سال بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت عطا کی جس کی آیتیں لوگوں کے لئے بصیر تیں تھیں۔ ” بصیرت “ کے معنی دل کے نور کے ہیں جس سے حق اور باطل کا فرق نظر آئے اور ہدایت اور رحمت تھیں شایدان کو پڑھ کر نصیحت پکڑیں کہ اگر ہم نے اللہ کی ہدایتوں کو نہ مانا تو ہمارا بھی وہی حشر ہوگا جو پہلی قوموں کا ہوا اور اب عرصۂ دراز کے بعد آپ کی نبوت و رسالت کا دور آیا ہے اور آپ کے منکرین اور مکذبین فرعون ہامان کے نقش قدم پر جا رہے ہیں ذرا اپنے انجام کو سوچ لیں اور توریت کی طرح آپ کو جو کتاب ہدایت و رحمت دی گئی ہے اس سے نصیحت پکڑیں اور اے نبی اس قرآن کے علاوہ آپ ﷺ کی نبوت کی ایک دلیل یہ ہے کہ آپ اس وقت طور کے مغربی جانب موجود نہ تھے جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کا احکام ہدایت دئیے اور ان کو توریت عطا کی اور نہ آپ اس وقت کے حاضرین میں سے تھے جس سے مشاہدہ اور معائنہ کا احتمال ہو سکے یعنی آپ ﷺ وہاں موجود نہ تھے جو یہ گمان کیا جاسکے کہ آپ ﷺ اپنی آنکھوں کا دیکھا حال بیان کر رہے ہیں لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بہت سے قرن اور بہت سی نسلیں پیدا کیں پس ان کی عمر دراز ہوئی اور ان امتوں پر زمانہ دراز گزر گیا اور سب باتوں کے نام ونشان مٹ گئے اور کوئی ذریعہ ان کے علم کا باقی نہ رہا تب ہم نے آپ کو ہادی اور رسول بنا کر بھیجا اور بذریعہ وحی کے ان واقعات اور حالات سے آگاہ کیا تاکہ لوگ جانیں کہ ایسی باتیں اور ایسی خبریں بغیر وحی خداوندی ممکن نہیں اور آپ ﷺ موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح اہل مدین میں اقامت پذیر نہ تھے کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سناتے ہوں جیسے آج مکہ والوں کو ہماری آیتوں کو پڑھ کر سنا رہے ہو لیکن ہم میں آپ کو پیغمبر بنا کر بھیجنے والے اور بذریعہ وحی کے ان واقعات سے آپ کو خبر دینے والے ہیں۔ (یا یہ معنی ہیں) کہ تو اہل مدین میں سکونت پذیر نہ تھا کہ یہ آیات تو نے ان سے پڑھ کر سیکھی ہوں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی رسالت تجھ کو ان واقعات سے آگاہ کیا۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ نتلوا علیہم میں علیہم کی ضمیر اہل مکہ کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ تو مدین کے باشندوں میں سے نہیں جس نے ان واقعات کا معائنہ اور مشاہدہ کیا ہو اور اہل مکہ کو ان کی خبر دے رہا ہو بلکہ ہماری وحی سے تجھ کو ان باتوں کا علم ہوا جو تو اہل مکہ کو ان سے خبر دے رہا ہے۔ اور اسی طرح آپ کوہ طور کی جانب غربی موجود نہ تھے جبکہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو آواز دی اور ان سے کلام کیا یموسی انی انا اللہ رب العالمین۔ جو ان کو نبوت عطا ہونے کا وقت ہے لیکن تیرے پروردگار کی رحمت اور مہربانی سے تجھ کو ان چیزوں کا علم عطا ہوا تاکہ تو ان آیات کے ذریعہ اس گروہ کو ڈراوے جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی من جانب اللہ ڈرانے والا نہیں آیا شاید وہ نصیحت پکڑیں کیونکہ آپ کی بعثت سے ان پر حجت پوری ہوگئی خلاصۂ کلام یہ کہ یہ واقعات آپ ﷺ لوگوں کو سنا رہے ہیں حالانکہ آپ نہ ان کے ساتھ رہے ہیں اور نہ یہ واقعات آپ کو پڑھ کر سنائے گئے ہیں تو پھر ان امور کی اطلاع آپ کو کیسے ہوئی جواب یہ ہے کہ صرف ہماری رحمت سے ہوئی ہم نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا اور بذریعہ وحی آپ کو ان سے مطلع کیا پس ایک امی شخص کا بغیر دیکھے اور بغیر سنے اور بغیر پڑھے اس طرح کے واقعات کو صحیح صحیح بتلانا اس کی نبوت کی دلیل ہے۔ اللہ کی حجت ان پر پوری ہوگئی اب اپنے انجام کو سوچ لیں۔ 1 فرعون دسویں محرم کو عاشورہ کے دن ہلاک ہوا اور توریت دسویں ذی الحجہ کو عطا ہوئی۔
Top