Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Qasas : 43
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآئِرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا
: اور تحقیق ہم نے عطا کی
مُوْسَى
: موسیٰ
الْكِتٰبَ
: کتاب (توریت
مِنْۢ بَعْدِ
: اس کے بعد
مَآ اَهْلَكْنَا
: کہ ہلاک کیں ہم نے
الْقُرُوْنَ
: امتیں
الْاُوْلٰى
: پہلی
بَصَآئِرَ
: (جمع) بصیرت
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَهُدًى
: اور ہدایت
وَّرَحْمَةً
: اور رحمت
لَّعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَتَذَكَّرُوْنَ
: نصیحت پکڑیں
اور البتہ تحقیق دی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب بعد اس کے کہ ہم نے ہلاک کیا پہلی قوموں کو یہ بصیرت کی چیزیں ہیں لوگوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت ہے ، تا کہ لوگ نصیحت حاصل کریں
ربط آیات گزشتہ رکوعات میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بچپن سے لے کر کچھ حالات بیان کیے ہیں اور ان پر آنے والے مشکلات کا ذکر کیا ہے ، ایک قبطی کے قتل کے بعد آپ مدین تشریف لے گئے ، دس سال کے بعد واپس آ رہے تھے کہ راستے میں کوہ طور پر اللہ نے آپ کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا اور عصا اور ید بیضا جیسی عظیم نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے حواریوں کے پاس تبلیغ کے لیے بھیجا ۔ وہ سب مغرور لوگ تھے ، نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے جس کا نتیجہ بالآخر یہ ہوا کہ اللہ نے ان سب سرکشوں کو بحر قلزم کی موجوں میں غرق کردیا ۔ فرمایا یہ لوگ کفر ، شرک اور ظلم و زیادتی کے پیشوا تھے ، دیکھو ان کا کیسا عبرت ناک انجام ہوا۔ دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی گئی ، اور آخرت میں تو عذاب کے طور پر ان کی شکلیں ہی تبدیل ہوجائیں گی اور پھر یہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا کندہ ناتراش بن جائیں گے۔ تورات کا نزول موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت دو اقوام کی طرف تھی ، ایک تو فرعون کی قطبی قوم تھی اور دوسری آپ کی اپنی قوم بنی اسرائیل تھی ۔ اس مقام پر اللہ نے اپنی عظیم الشان کتاب تورات کے نزول کا ذکر کیا ہے جو آپ کی قوم بنی اسرائیل کی رہنمائی کے لیے عطا کی گئی ۔ بنی اسرائیل جب بحرقلزم کو عبور ک کے صحرائے سینا پہنچے تو وہ فرعون کی غلامی سے آزاد ہوچکے تھے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ پہلے تو ہم غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے اور فرعونی قانون کے اسیر تھے ، اب ہم آزاد ہیں لہٰذا ہمارے لیے کوئی قانون ہونا چاہئے جس پر ہم اپنی روز مرہ زندگی میں عمل کریں ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تو حکم ہوا کہ چالیس دن تک کوہ طور پر اعتکاف بیٹھو تو تمہیں کتاب تورات عطا کی جائے گی ۔ تورات کا معنی یہ قانون یعنی لا (LAW) ہوتا ہے۔ اسی کتاب کے متعلق ارشاد ہوتا ہے ولقد اتینا موسیٰ الکتب اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب تورات عطا فرمائی جس کا ذکر قرآن پاک کی بہت سی سورتوں میں آتا ہے۔ آسمانی کتب میں سب سے زیادہ فوقیت اللہ کی آخری کتاب قرآن کریم کو حاصل ہے۔ دوسرے نمبر پر تورات ، تیسرے پر انجیل اور چوتھے پر زبور ہے۔ اس کے بعد چھوٹے چھوٹے صحیفے بھی ہیں جو اللہ نے مختلف انبیاء (علیہم السلام) پر مختلف زمانوں میں نازل فرمائے۔ اس وقت دنیا میں جو مجموعہ بائبل موجود ہے ، اس میں کل انتالیس کتابیں جمع کردی گئی ہیں ، اور اس کے ابتدائی پانچ بڑے ابواب تورات پر مشتمل ہیں ، اللہ نے فرمایا کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطاء فرمائی من بعد ما اھلکنا القرون الاولی بعد اس کے کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک کیا ۔ قرون ، قرن کی جمع ہے جس کا معنی جماعت ، قوم ، گروہ ، سنگت یا ایک دور کے لوگ ہوتے ہیں۔ پہلی اقوام میں سے قوم نوح ، قوم عاد ، قوم ثمود ، قوم لوط اور مدین والوں کو اللہ نے ہلاک کیا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت کا ابھی ذکر ہوا ہے۔ تو فرمایا کہ ہم نے بہت سی جماعتوں کو ہلاک کرنے کے بعد (علیہ السلام) کو تورات دی۔ تورات کی خصوصیات (1) بصیرت کتاب تورات کی حیثیت کو اللہ نے اس طرح بیان فرمایا ہے بصائر للناس اس میں لوگوں کے لیے بصیرت کی چیزیں ہیں ۔ سورة الاعراف میں قرآن پاک کے متعلق بھی یہی لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ بصارت ظاہری آنکھ سے دیکھنے کو کہتے ہیں ۔ جب کہ بصرت سے مراد دل کی روشنی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کے دلوں میں جو روشنی ، نور ، فہم اور فراست پیدا کردیتا ہے ، وہی بصیرت کہلاتی ہے ۔ اور جس فرد یا قوم میں یہ چیزنہ پائی جاتی ہو ، وہ ظاہری آنکھیں رکھنے کے باوجود اندھی ہے ۔ اس لیے اللہ نے پوری قوم نوح کو ( ماسوائے اہل ایمان کے) انھم کنوا قوما عمین ( الاعراف : 46) اندھی قوم کہا ہے۔ انہوں نے دل کی آنکھوں سے اللہ کے جلیل القدر بنی نوح (علیہ السلام) کو نہ پہچانا ، اس لیے ناکام ہوئے۔ اللہ نے سورة الحج میں مزید وضاحت فرمائی ہے۔ فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰـکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ (آیت : 64) ایسے لوگوں کی ظاہر ی آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ ان کے سینوں میں پڑے ہوئے دل بینائی سے محروم ہوتے ہیں ۔ تو فرمایا تورات میں بصیرت کی باتیں جنہیں دل کی آنکھوں کے ساتھ دیکھ کر ان پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ (2) ہدایت فرمایا تورات کی دوسری خصوصیت وھدی یعنی ہدایت ہے۔ جب انسان میں فہم و فراست پیدا ہوجائے عقل و شعور آجائے ، حق و باطل کو پہچان ہونے لگے تو پھر اس کو ہدایت میسر آتی ہے جس کے مطابق و ہ عمل کرتا ہے۔ قرآن پاک بھی اہل ایمان کے لیے بصیرت اور ہدایت ہے منافق آدمی فہم و فراست سے محروم ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ دین کی سمجھ سے بھی عاری ہوتا ہے ۔ حضور ﷺ کا فرمان 1 ؎ ہے ۔ من یرد اللہ بہ خیراً یفقھہ فی الدین اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے سے بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسے دین میں فہم و فراست فقاہت اور سمجھ عطا کرتا ہے ، مگر منافق اس سے محروم رہتے ہیں ۔ کفار و مشرکین کے دلوں پر بھی کفر و شرک کے اندھیرے چھائے رہتے ہیں ۔ بد عتی لوگ بھی ہدایت کی روشنی سے بےبہرہ ہوتے ہیں ۔ ان کے دلوں پر بھی حجاب پڑے ہوتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے انہیں ہدایت میسر نہیں آتی ۔ ہدایت تو جب ملے گی جب عقیدہ عمل اور اخلاق درست ہوگا ۔ (3) رحمت تورات کی تیسری خصوصیت فرمایا ورحمۃ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے جب انسان کے دل میں صحیح سمجھ اور فہم پیدا ہوجائے اور وہ صحیح راستے پر گامزن ہوجائے ۔ اپنا عقیدہ ، اخلاق اور عمل درست کرلے تو و ہ خدا تعالیٰ کی رحمت کا مستحق بن جاتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ کی قربت اور اس کی مقبولیت حاصل ہوجاتی ہے اور اس کی مہربانیاں اور نوازشیں شامل حال کا مقصد یہ ہے لعلھم یتذکرون تا کہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ 1 ؎۔ بخاری ص 61 ج 1 (فیاض) ختم المرسلین کا تذکرہ قرآن پاک اور تورات کے محاسن اگلی آیات میں بھی آرہے ہیں ۔ تا ہم درمیان میں اللہ تعالیٰ نے حضور خاتم النبیین ﷺ کی رسالت و نبوت کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور حضور خاتم النبین ﷺ میں بہت سی قدریں مشترک ہیں ۔ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو عظیم دشمنوں کا سامنا تھا۔ اسی طرح حضور ﷺ کے جانی دشمن بھی موجود تھے جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) پر کڑی آزمائشیں آئیں اسی طرح حضور ﷺ پر بھی آئیں۔ اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک عظیم کتاب عطا فرمائی تو حضور سرور کائنات کو بھی عظیم المرتبت کتاب دی دونوں امتوں کے حالات بھی تھوڑے بہت ملتے جلتے ہیں۔ تو یہاں پر اللہ نے حضور ﷺ کی نبوت رسالت کی حقانیت کو بیان فرمایا ہے اور وہ اس طرح کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے جو واقعات بیان کیے ہیں اور آپ نے انہیں آگے امت کو سنایا ہے ، یہ بالکل سو فیصدی صحیح ہیں جن میں غلطی کا کوئی امکان نہیں۔ آپ نے نہ تدریس پڑھی ہے اور نہ کسی اور ذریعے سے آپ کو ان واقعات کا علم ہوا ہے تو ان کو …امت کے سامنے بیان کردینا ہی آپ کی نبوت و رسالت کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سارے واقعات آپ کو بذریعہ وحی بتلا دیے۔ مسند حاضر و ……دوعلم غیب اگلی آیات اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی نبوت و رسالت کی صداقت اور وحی الٰہی کی حقانیت کے طور پر بیان فرمائی ہیں ۔ ان آیات سے آنحضرت (علیہ السلام) کے حاضر و ناظر اور عالم الغیب ہونے کی صراحتاً نفی ہوتی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے وما کنت بجانب لغربی اذ قضینا الی موسیٰ الامر آپ اس وقت مغربی جانب تو نہیں تھے ۔ جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے معاملے کا فیصلہ کیا ۔ اس مغربی جانب سے صحرائے سینا کا وہ پہاڑ مراد ہے ، جہاں سلسلہ کوہ عبور بھی ہے اور جہاں پر موسیٰ (علیہ السلام) کو احکام شریعت عطا ہوئے تھے۔ یہ علاقہ حجاز سے مغربی جانب ہے ، اسی لیے فرمایا کہ آپ اس وقت مغربی جانب تو نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے معاملے کا فیصلہ کیا تھا وما کنت من السمع دین اور آپ وہاں موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات کو دیکھنے والوں میں بھی شامل نہیں تھے ۔ جو یہ واقعات دیکھ کر بیان کیے ہوں ۔ گویا آپ کے حاظر و ناظر ہونے کی صراحت کے ساتھ نفی کی گئی ہے۔ آگے سورة کے آخر میں بھی آ رہا ہے کہ ہم نے اپنی رحمت سے یہ کتاب آپ کی طرف نازل فرمائی ہے جس میں یہ سارے واقعات آ رہے ہیں وگرنہ آپ کو ان کا کیا علم تھا۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ آج لوگوں نے بلاوجہ حاضر و ناظر اور علم غیب کا عقیدہ گھڑ لیا ہے ، حالانکہ یہ دونوں صفات اللہ تعالیٰ کی صفات مختصر میں شامل ہیں اور ان میں کوئی دوسری ہستی شریک نہیں ۔ صفت خلق ، تدبیر اختیار یہ سب صفات مختصر ہیں ۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) اپنی کتاب تفہیمات الٰہیہ میں فرماتے ہیں کہ اللہ کی صفات مختصہ کی نبیوں سے نفی کرنا واجب ہے مثلاً قدرت علی الخلق ہے علم غیب ہے ، نہ تو کسی کو پیدا کرنے کی قدرت ہے اور نہ ہی کوئی غیب جانتا ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے مطلع کردیتا ہے تو نبی کو علم ہوجاتا ہے۔ غیب تو وہ ہے جو بغیر کسی واسطے کے خود بخود ہو اور یہ خاصہ خداوندی ہے ، انبیاء صلحا یا اولیاء سے علم غیب کی نفی ان کی قطعاً توہین نہیں ہے۔ بہر حال فرمایا کہ جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مغربی جانب نبوت فرمائی تو آپ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے ولکنا انشا ا قرونا ً فتطاولی علیھم العمر مگر ہم نے بہت ہی قوموں کو پیدا کیا ، پھر ان پر زندگی دراز ہوگئی ، وہ سر کشی ، ظلم و زیادتی کے مرتک ہوئے تو اللہ نے ان کو تباہ و برباد کردیا ۔ گزشتہ آیات میں فرعون اور اس کی قوم کا حال بیان کیا گیا ہے۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا وما کنت ثاویا ً فی اھل مدین آپ مدین والوں میں بھی مقیم نہیں تھے تتلو علیم اتینا کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سناتے ۔ مدین کے واقعات بھی موسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے ہم نے ہی آپ کو بتلائے ہیں ۔ آپ کوئی عام الغیب تو نہیں ہیں ۔ ولکنا کنا مرسلین بلکہ رسولوں کو بھیجنے والے ہیں ۔ ہم ان پر وحی نازل کر کے سابقہ واقعات سے آگاہ کرتے ہیں ، آئندہ حالات سے مطلع کرتے ہیں اور پھر انہیں ایک لائحہ عمل عطا کر کے تبلیغ کا حکم دیتے ہیں۔ حضور ﷺ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے ۔ ایک یہودی نے تخلیق کے بارے میں سوال کیا ۔ آپ نے قدرے سکوت کے بعد سوال کا جواب دیا اور یہودی چلا گیا ۔ حضور ﷺ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ جب یہودی نے مجھ سے مذکورہ سوال کیا تو مجھے جواب معلوم نہیں تھا ، اللہ نے فوراً جبرائیل کو نازل فرما کر سوال کا جواب بھیج دیا جو یہودی کے علم کے مطابق بھی درست تھا لہٰذا وہ مطمئن ہو کر چلا گیا۔ اس سے بھی آپ کے عالم الغیب ہونے کی نفی ہوتی ہے۔ آگے فرمایا وماکنت بجانب الطور اذ نا دینا اور آپ طور کے کنارے پر بھی نہیں تھے جب ہم نے آواز دی تھی کہ اے موسیٰ ! آپ وادی مقدس میں ہیں ، اپنے جوتے اتار دیں ، میں نے تجھے نبوت و رسالت کے لیے منتخب کیا ہے اب تم میرا پیغام فرعون اور اس کے سرداروں کو جا کر پہنچائو ، فرمایا ولکن رحمتہ من ربک یہ تو تیرے پروردگار کی مہربانی اور رحمت ہے جو تمہیں ان حالات سے مقطع کر رہا ہے ، وگرنہ تم تو وہاں حاضر و ناظر نہیں تھے۔ قومی اور بین الاقوامی نبی فرمایا : یہ رحمت ہے تیرے پروردگار کی طرف سے لتنذر قوما ً ما اتھم من نذیر من قبلک تا کہ آپ ڈر میں ان لوگوں کو جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پوری دنیا میں کوئی ڈرنے والا نہیں آیا بلکہ اس سے اہل عرب مراد ہیں کہ ان کے پاس حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد طویل عرصہ تک کوئی نبی نہیں آیا اور پھر اللہ نے آخر میں حضور خاتم النبیین کو مبعوث فرمایا ۔ عرب بھی ابتداء میں صحیح دین ابراہیمی پہ تھے مگر حضور ﷺ سے تقریباً پانچ سو سال پہلے قصی ابن کلاب کے زمانے میں یہاں شرک کی ابتداء ہوئی۔ لوگوں کی اکثریت مشرک ہوگئی اور اس دوران حضور ﷺ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا۔ یہاں پر قوما ً کا لفظ خاص طور پر توجہ طلب ہے ۔ آپ کی پہلی حیثیت تو قومی نبی کی ہے کہ آپ سر زمین عرب میں عربوں میں مبعوث ہوئے اور تبلیغ کی ابتداء بھی یہیں سے ہوئی ۔ مگر اللہ نے آپ کی زبان سے یہ بھی کہلوایا یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا ً ( الاعراف : 85) اے لوگو ! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ لتنذر ام القری ومن حولھا ( انعام : 39) تا کہ مکہ اور ارد گرد والوں کو ڈرائوں ۔ ومن بلغ ( الانعام : 91) اور ان کو بھی جہاں تک یہ قرآن پہنچے ۔ مطلب یہ کہ دنیا کے کونے کونے تک خدا کا یہ پیغام پہنچے گا اور میں ان سب کے لیے ڈرانے والا یعنی نبی اور رسول ہوں۔ تو گویا اس لحا ظ سے آپ بین الاقوامی نبی بھی ہیں ۔ قریش اور عربوں کی سعادت بھی آپ کے ساتھ وابستہ ہے۔ جب کہ تمام اقوام عالم کی سعادت کی وابستگی بھی آپ ہی کے ساتھ ہے ، خدا کا فرمان ہے کہ آپ عربوں کے معلمہ میں در میر یہ پیغام ان کے ذریعے اقوام عالم تک پہنچے گا ۔ چناچہ قرآنی مشن کو پوری دنیا میں پھیلانے کا ذریعہ حضور ﷺ کے صحابہ کرام ؓ بھی ہے۔ فرمایا میں نے آپ کو اقوام عام کو ……لعلھم یتذکرون تا کہ یہ لوگ نصیحت حاصل کرلیں اس میں انہی کی بہتری ہے کہ خدا کی گرفت سے بچ جائیں گے۔
Top