Mualim-ul-Irfan - Al-Qasas : 43
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآئِرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا : اور تحقیق ہم نے عطا کی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب (توریت مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَآ اَهْلَكْنَا : کہ ہلاک کیں ہم نے الْقُرُوْنَ : امتیں الْاُوْلٰى : پہلی بَصَآئِرَ : (جمع) بصیرت لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور البتہ تحقیق دی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب بعد اس کے کہ ہم نے ہلاک کیا پہلی قوموں کو یہ بصیرت کی چیزیں ہیں لوگوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت ہے ، تا کہ لوگ نصیحت حاصل کریں
ربط آیات گزشتہ رکوعات میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بچپن سے لے کر کچھ حالات بیان کیے ہیں اور ان پر آنے والے مشکلات کا ذکر کیا ہے ، ایک قبطی کے قتل کے بعد آپ مدین تشریف لے گئے ، دس سال کے بعد واپس آ رہے تھے کہ راستے میں کوہ طور پر اللہ نے آپ کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا اور عصا اور ید بیضا جیسی عظیم نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے حواریوں کے پاس تبلیغ کے لیے بھیجا ۔ وہ سب مغرور لوگ تھے ، نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے جس کا نتیجہ بالآخر یہ ہوا کہ اللہ نے ان سب سرکشوں کو بحر قلزم کی موجوں میں غرق کردیا ۔ فرمایا یہ لوگ کفر ، شرک اور ظلم و زیادتی کے پیشوا تھے ، دیکھو ان کا کیسا عبرت ناک انجام ہوا۔ دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی گئی ، اور آخرت میں تو عذاب کے طور پر ان کی شکلیں ہی تبدیل ہوجائیں گی اور پھر یہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا کندہ ناتراش بن جائیں گے۔ تورات کا نزول موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت دو اقوام کی طرف تھی ، ایک تو فرعون کی قطبی قوم تھی اور دوسری آپ کی اپنی قوم بنی اسرائیل تھی ۔ اس مقام پر اللہ نے اپنی عظیم الشان کتاب تورات کے نزول کا ذکر کیا ہے جو آپ کی قوم بنی اسرائیل کی رہنمائی کے لیے عطا کی گئی ۔ بنی اسرائیل جب بحرقلزم کو عبور ک کے صحرائے سینا پہنچے تو وہ فرعون کی غلامی سے آزاد ہوچکے تھے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ پہلے تو ہم غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے اور فرعونی قانون کے اسیر تھے ، اب ہم آزاد ہیں لہٰذا ہمارے لیے کوئی قانون ہونا چاہئے جس پر ہم اپنی روز مرہ زندگی میں عمل کریں ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تو حکم ہوا کہ چالیس دن تک کوہ طور پر اعتکاف بیٹھو تو تمہیں کتاب تورات عطا کی جائے گی ۔ تورات کا معنی یہ قانون یعنی لا (LAW) ہوتا ہے۔ اسی کتاب کے متعلق ارشاد ہوتا ہے ولقد اتینا موسیٰ الکتب اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب تورات عطا فرمائی جس کا ذکر قرآن پاک کی بہت سی سورتوں میں آتا ہے۔ آسمانی کتب میں سب سے زیادہ فوقیت اللہ کی آخری کتاب قرآن کریم کو حاصل ہے۔ دوسرے نمبر پر تورات ، تیسرے پر انجیل اور چوتھے پر زبور ہے۔ اس کے بعد چھوٹے چھوٹے صحیفے بھی ہیں جو اللہ نے مختلف انبیاء (علیہم السلام) پر مختلف زمانوں میں نازل فرمائے۔ اس وقت دنیا میں جو مجموعہ بائبل موجود ہے ، اس میں کل انتالیس کتابیں جمع کردی گئی ہیں ، اور اس کے ابتدائی پانچ بڑے ابواب تورات پر مشتمل ہیں ، اللہ نے فرمایا کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطاء فرمائی من بعد ما اھلکنا القرون الاولی بعد اس کے کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک کیا ۔ قرون ، قرن کی جمع ہے جس کا معنی جماعت ، قوم ، گروہ ، سنگت یا ایک دور کے لوگ ہوتے ہیں۔ پہلی اقوام میں سے قوم نوح ، قوم عاد ، قوم ثمود ، قوم لوط اور مدین والوں کو اللہ نے ہلاک کیا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت کا ابھی ذکر ہوا ہے۔ تو فرمایا کہ ہم نے بہت سی جماعتوں کو ہلاک کرنے کے بعد (علیہ السلام) کو تورات دی۔ تورات کی خصوصیات (1) بصیرت کتاب تورات کی حیثیت کو اللہ نے اس طرح بیان فرمایا ہے بصائر للناس اس میں لوگوں کے لیے بصیرت کی چیزیں ہیں ۔ سورة الاعراف میں قرآن پاک کے متعلق بھی یہی لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ بصارت ظاہری آنکھ سے دیکھنے کو کہتے ہیں ۔ جب کہ بصرت سے مراد دل کی روشنی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کے دلوں میں جو روشنی ، نور ، فہم اور فراست پیدا کردیتا ہے ، وہی بصیرت کہلاتی ہے ۔ اور جس فرد یا قوم میں یہ چیزنہ پائی جاتی ہو ، وہ ظاہری آنکھیں رکھنے کے باوجود اندھی ہے ۔ اس لیے اللہ نے پوری قوم نوح کو ( ماسوائے اہل ایمان کے) انھم کنوا قوما عمین ( الاعراف : 46) اندھی قوم کہا ہے۔ انہوں نے دل کی آنکھوں سے اللہ کے جلیل القدر بنی نوح (علیہ السلام) کو نہ پہچانا ، اس لیے ناکام ہوئے۔ اللہ نے سورة الحج میں مزید وضاحت فرمائی ہے۔ فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰـکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ (آیت : 64) ایسے لوگوں کی ظاہر ی آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ ان کے سینوں میں پڑے ہوئے دل بینائی سے محروم ہوتے ہیں ۔ تو فرمایا تورات میں بصیرت کی باتیں جنہیں دل کی آنکھوں کے ساتھ دیکھ کر ان پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ (2) ہدایت فرمایا تورات کی دوسری خصوصیت وھدی یعنی ہدایت ہے۔ جب انسان میں فہم و فراست پیدا ہوجائے عقل و شعور آجائے ، حق و باطل کو پہچان ہونے لگے تو پھر اس کو ہدایت میسر آتی ہے جس کے مطابق و ہ عمل کرتا ہے۔ قرآن پاک بھی اہل ایمان کے لیے بصیرت اور ہدایت ہے منافق آدمی فہم و فراست سے محروم ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ دین کی سمجھ سے بھی عاری ہوتا ہے ۔ حضور ﷺ کا فرمان 1 ؎ ہے ۔ من یرد اللہ بہ خیراً یفقھہ فی الدین اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے سے بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسے دین میں فہم و فراست فقاہت اور سمجھ عطا کرتا ہے ، مگر منافق اس سے محروم رہتے ہیں ۔ کفار و مشرکین کے دلوں پر بھی کفر و شرک کے اندھیرے چھائے رہتے ہیں ۔ بد عتی لوگ بھی ہدایت کی روشنی سے بےبہرہ ہوتے ہیں ۔ ان کے دلوں پر بھی حجاب پڑے ہوتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے انہیں ہدایت میسر نہیں آتی ۔ ہدایت تو جب ملے گی جب عقیدہ عمل اور اخلاق درست ہوگا ۔ (3) رحمت تورات کی تیسری خصوصیت فرمایا ورحمۃ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے جب انسان کے دل میں صحیح سمجھ اور فہم پیدا ہوجائے اور وہ صحیح راستے پر گامزن ہوجائے ۔ اپنا عقیدہ ، اخلاق اور عمل درست کرلے تو و ہ خدا تعالیٰ کی رحمت کا مستحق بن جاتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ کی قربت اور اس کی مقبولیت حاصل ہوجاتی ہے اور اس کی مہربانیاں اور نوازشیں شامل حال کا مقصد یہ ہے لعلھم یتذکرون تا کہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ 1 ؎۔ بخاری ص 61 ج 1 (فیاض) ختم المرسلین کا تذکرہ قرآن پاک اور تورات کے محاسن اگلی آیات میں بھی آرہے ہیں ۔ تا ہم درمیان میں اللہ تعالیٰ نے حضور خاتم النبیین ﷺ کی رسالت و نبوت کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور حضور خاتم النبین ﷺ میں بہت سی قدریں مشترک ہیں ۔ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو عظیم دشمنوں کا سامنا تھا۔ اسی طرح حضور ﷺ کے جانی دشمن بھی موجود تھے جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) پر کڑی آزمائشیں آئیں اسی طرح حضور ﷺ پر بھی آئیں۔ اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک عظیم کتاب عطا فرمائی تو حضور سرور کائنات کو بھی عظیم المرتبت کتاب دی دونوں امتوں کے حالات بھی تھوڑے بہت ملتے جلتے ہیں۔ تو یہاں پر اللہ نے حضور ﷺ کی نبوت رسالت کی حقانیت کو بیان فرمایا ہے اور وہ اس طرح کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے جو واقعات بیان کیے ہیں اور آپ نے انہیں آگے امت کو سنایا ہے ، یہ بالکل سو فیصدی صحیح ہیں جن میں غلطی کا کوئی امکان نہیں۔ آپ نے نہ تدریس پڑھی ہے اور نہ کسی اور ذریعے سے آپ کو ان واقعات کا علم ہوا ہے تو ان کو …امت کے سامنے بیان کردینا ہی آپ کی نبوت و رسالت کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سارے واقعات آپ کو بذریعہ وحی بتلا دیے۔ مسند حاضر و ……دوعلم غیب اگلی آیات اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی نبوت و رسالت کی صداقت اور وحی الٰہی کی حقانیت کے طور پر بیان فرمائی ہیں ۔ ان آیات سے آنحضرت (علیہ السلام) کے حاضر و ناظر اور عالم الغیب ہونے کی صراحتاً نفی ہوتی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے وما کنت بجانب لغربی اذ قضینا الی موسیٰ الامر آپ اس وقت مغربی جانب تو نہیں تھے ۔ جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے معاملے کا فیصلہ کیا ۔ اس مغربی جانب سے صحرائے سینا کا وہ پہاڑ مراد ہے ، جہاں سلسلہ کوہ عبور بھی ہے اور جہاں پر موسیٰ (علیہ السلام) کو احکام شریعت عطا ہوئے تھے۔ یہ علاقہ حجاز سے مغربی جانب ہے ، اسی لیے فرمایا کہ آپ اس وقت مغربی جانب تو نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے معاملے کا فیصلہ کیا تھا وما کنت من السمع دین اور آپ وہاں موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات کو دیکھنے والوں میں بھی شامل نہیں تھے ۔ جو یہ واقعات دیکھ کر بیان کیے ہوں ۔ گویا آپ کے حاظر و ناظر ہونے کی صراحت کے ساتھ نفی کی گئی ہے۔ آگے سورة کے آخر میں بھی آ رہا ہے کہ ہم نے اپنی رحمت سے یہ کتاب آپ کی طرف نازل فرمائی ہے جس میں یہ سارے واقعات آ رہے ہیں وگرنہ آپ کو ان کا کیا علم تھا۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ آج لوگوں نے بلاوجہ حاضر و ناظر اور علم غیب کا عقیدہ گھڑ لیا ہے ، حالانکہ یہ دونوں صفات اللہ تعالیٰ کی صفات مختصر میں شامل ہیں اور ان میں کوئی دوسری ہستی شریک نہیں ۔ صفت خلق ، تدبیر اختیار یہ سب صفات مختصر ہیں ۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) اپنی کتاب تفہیمات الٰہیہ میں فرماتے ہیں کہ اللہ کی صفات مختصہ کی نبیوں سے نفی کرنا واجب ہے مثلاً قدرت علی الخلق ہے علم غیب ہے ، نہ تو کسی کو پیدا کرنے کی قدرت ہے اور نہ ہی کوئی غیب جانتا ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے مطلع کردیتا ہے تو نبی کو علم ہوجاتا ہے۔ غیب تو وہ ہے جو بغیر کسی واسطے کے خود بخود ہو اور یہ خاصہ خداوندی ہے ، انبیاء صلحا یا اولیاء سے علم غیب کی نفی ان کی قطعاً توہین نہیں ہے۔ بہر حال فرمایا کہ جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مغربی جانب نبوت فرمائی تو آپ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے ولکنا انشا ا قرونا ً فتطاولی علیھم العمر مگر ہم نے بہت ہی قوموں کو پیدا کیا ، پھر ان پر زندگی دراز ہوگئی ، وہ سر کشی ، ظلم و زیادتی کے مرتک ہوئے تو اللہ نے ان کو تباہ و برباد کردیا ۔ گزشتہ آیات میں فرعون اور اس کی قوم کا حال بیان کیا گیا ہے۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا وما کنت ثاویا ً فی اھل مدین آپ مدین والوں میں بھی مقیم نہیں تھے تتلو علیم اتینا کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سناتے ۔ مدین کے واقعات بھی موسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے ہم نے ہی آپ کو بتلائے ہیں ۔ آپ کوئی عام الغیب تو نہیں ہیں ۔ ولکنا کنا مرسلین بلکہ رسولوں کو بھیجنے والے ہیں ۔ ہم ان پر وحی نازل کر کے سابقہ واقعات سے آگاہ کرتے ہیں ، آئندہ حالات سے مطلع کرتے ہیں اور پھر انہیں ایک لائحہ عمل عطا کر کے تبلیغ کا حکم دیتے ہیں۔ حضور ﷺ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے ۔ ایک یہودی نے تخلیق کے بارے میں سوال کیا ۔ آپ نے قدرے سکوت کے بعد سوال کا جواب دیا اور یہودی چلا گیا ۔ حضور ﷺ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ جب یہودی نے مجھ سے مذکورہ سوال کیا تو مجھے جواب معلوم نہیں تھا ، اللہ نے فوراً جبرائیل کو نازل فرما کر سوال کا جواب بھیج دیا جو یہودی کے علم کے مطابق بھی درست تھا لہٰذا وہ مطمئن ہو کر چلا گیا۔ اس سے بھی آپ کے عالم الغیب ہونے کی نفی ہوتی ہے۔ آگے فرمایا وماکنت بجانب الطور اذ نا دینا اور آپ طور کے کنارے پر بھی نہیں تھے جب ہم نے آواز دی تھی کہ اے موسیٰ ! آپ وادی مقدس میں ہیں ، اپنے جوتے اتار دیں ، میں نے تجھے نبوت و رسالت کے لیے منتخب کیا ہے اب تم میرا پیغام فرعون اور اس کے سرداروں کو جا کر پہنچائو ، فرمایا ولکن رحمتہ من ربک یہ تو تیرے پروردگار کی مہربانی اور رحمت ہے جو تمہیں ان حالات سے مقطع کر رہا ہے ، وگرنہ تم تو وہاں حاضر و ناظر نہیں تھے۔ قومی اور بین الاقوامی نبی فرمایا : یہ رحمت ہے تیرے پروردگار کی طرف سے لتنذر قوما ً ما اتھم من نذیر من قبلک تا کہ آپ ڈر میں ان لوگوں کو جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پوری دنیا میں کوئی ڈرنے والا نہیں آیا بلکہ اس سے اہل عرب مراد ہیں کہ ان کے پاس حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد طویل عرصہ تک کوئی نبی نہیں آیا اور پھر اللہ نے آخر میں حضور خاتم النبیین کو مبعوث فرمایا ۔ عرب بھی ابتداء میں صحیح دین ابراہیمی پہ تھے مگر حضور ﷺ سے تقریباً پانچ سو سال پہلے قصی ابن کلاب کے زمانے میں یہاں شرک کی ابتداء ہوئی۔ لوگوں کی اکثریت مشرک ہوگئی اور اس دوران حضور ﷺ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا۔ یہاں پر قوما ً کا لفظ خاص طور پر توجہ طلب ہے ۔ آپ کی پہلی حیثیت تو قومی نبی کی ہے کہ آپ سر زمین عرب میں عربوں میں مبعوث ہوئے اور تبلیغ کی ابتداء بھی یہیں سے ہوئی ۔ مگر اللہ نے آپ کی زبان سے یہ بھی کہلوایا یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا ً ( الاعراف : 85) اے لوگو ! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ لتنذر ام القری ومن حولھا ( انعام : 39) تا کہ مکہ اور ارد گرد والوں کو ڈرائوں ۔ ومن بلغ ( الانعام : 91) اور ان کو بھی جہاں تک یہ قرآن پہنچے ۔ مطلب یہ کہ دنیا کے کونے کونے تک خدا کا یہ پیغام پہنچے گا اور میں ان سب کے لیے ڈرانے والا یعنی نبی اور رسول ہوں۔ تو گویا اس لحا ظ سے آپ بین الاقوامی نبی بھی ہیں ۔ قریش اور عربوں کی سعادت بھی آپ کے ساتھ وابستہ ہے۔ جب کہ تمام اقوام عالم کی سعادت کی وابستگی بھی آپ ہی کے ساتھ ہے ، خدا کا فرمان ہے کہ آپ عربوں کے معلمہ میں در میر یہ پیغام ان کے ذریعے اقوام عالم تک پہنچے گا ۔ چناچہ قرآنی مشن کو پوری دنیا میں پھیلانے کا ذریعہ حضور ﷺ کے صحابہ کرام ؓ بھی ہے۔ فرمایا میں نے آپ کو اقوام عام کو ……لعلھم یتذکرون تا کہ یہ لوگ نصیحت حاصل کرلیں اس میں انہی کی بہتری ہے کہ خدا کی گرفت سے بچ جائیں گے۔
Top