Tafseer-e-Jalalain - Al-Qasas : 43
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآئِرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا : اور تحقیق ہم نے عطا کی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب (توریت مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَآ اَهْلَكْنَا : کہ ہلاک کیں ہم نے الْقُرُوْنَ : امتیں الْاُوْلٰى : پہلی بَصَآئِرَ : (جمع) بصیرت لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم نے پہلی امتوں کے ہلاک کرنے کے بعد موسیٰ کو کتاب دی جو لوگوں کے لئے بصیرت اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں
آیت نمبر 43 تا 50 ترجمہ : اور ہم نے پہلی امتوں (مثلاً ) قوم نوح و عاد وثمود وغیرہ کو ہلاک کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب تورات عطا کی تھی جو لوگوں کے لئے بصیرت اور ہدایت تھی گمراہی سے اس شخص کے لئے جو اس پر عمل کرے اور رحمت تھی اس کے لئے جو اس پر ایمان لائے تاکہ نصیحت حاصل کریں ان نصیحتوں سے جو اس میں ہیں بصَائر للناسً ، الکتاب سے حال ہے اور بَصَائر بصِیٌرَۃ کی جمع ہے اور بصیرت نور قلبی کو کہتے ہیں اور بصائر کا مطلب ہے انوار القلوب اور اے محمد تم مناجات کے وقت موسیٰ (علیہ السلام) کی مغربی پہاڑ کی جانب یا غربی وادی کی جانب یا غربی مکان کی جانب موجود نہیں تھے جب ہم نے فرعون اور اس کی قوم کی جانب پیغام پہنچانے کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی بھیجی تھی اور نہ تم اس واقعہ کو دیکھنے والوں میں تھے کہ اس واقعہ سے باخبر ہوتے اور اس کی خبر دیتے لیکن ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بہت سی امتیں پیدا کیں پھر ان پر زمانہ دراز گزر گیا یعنی ان کی عمریں طویل ہوئیں عہد و پیمان کو بھول گئے اور علوم مٹ گئے اور وحی (کا سلسلہ) منقطع ہوگیا تو ہم نے تم کو رسول بنا کر بھیجا اور تمہاری طرف موسیٰ (علیہ السلام) وغیرہ کے واقعہ کی وحی بھیجی اور تم اہل مدین میں بھی قیام پذیر نہیں تھے کہ تم ان لوگوں کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہوں (تَتْلُوْا عَلَیْھِمْ ) مَا کُنْتَ کی خبر ثانی ہے بلکہ ہم ہی تم کو رسول بنا کر بھیجنے والے اور گذشتہ لوگوں کے (واقعات) کی خبروں کو بھیجنے والے ہیں اور جب ہم نے موسیٰ کو ندا دی کہ کتاب کو مضبوطی سے تھام لو تو (تب بھی) تم جبل طور کی جانب میں موجود نہیں تھے بلکہ ہم نے تم کو تمہارے رب کی جانب سے رحمت بنا کر بھیجا تاکہ تم اس قوم کو ڈراؤ کہ جس کے پاس تم سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا اور وہ اہل مکہ ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ان کے ہاتھوں کے کرتوتوں کفر وغیرہ کی بدولت ان کو مصیبت یعنی عقوبت پہنچی تو یہ کہہ اٹھتے کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا ؟ کہ ہم تیری بھیجی ہوئی آیتوں کی تابعداری کرتے اور ایمان والوں میں ہوجاتے اور لولا (اول) کا جواب محذوف ہے اور اس کا ما بعد مبتداء ہے، اور معنی یہ ہیں اگر مصیبت کا پہنچنا جو کہ ان (کافروں) کے قول لو لا ارسلتَ الَیْنَا رسولاً کا سبب ہے، نہ ہوتا تو ہم ان کو سزا دینے میں جلدی کرتے، یا اگر ان کا قول ربنا لو لا ارسَلْتَ الینا رسولاً الخ جو کہ مسبب ہے اصابت مصیبت کا نہ ہوتا تو ہم آپ کو ان کی طرف رسول بنا کر نہ بھیجتے پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق محمد ﷺ آپہنچا تو (اہل مکہ) کہنے لگے ان کو ایسی نشانی کیوں نہ ملی ؟ جیسی موسیٰ کو ملی تھی مثلاً یدبیضاء اور عصاء یا یکبارگی پوری کتاب، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا یہ لوگ منکر نہیں ہوئے اس کے جو موسیٰ کو اس سے پہلے دی گئی تھی انہوں نے موسیٰ اور محمد ﷺ کے بارے میں کہا دونوں جادو گر ہیں اور ایک قرأۃ میں سحرانِ ہے یعنی تورات اور قرآن جو ایک دوسرے کے معاون ہیں اور وہ یوں بھی کہتے ہیں کہ ہم دونوں نبیوں یا دونوں کتابوں میں سے کسی کو نہیں مانتے آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اچھا تو تم اور کوئی کتاب اللہ کے پاس سے لے آؤ جو ہدایت کرنے میں ان دونوں کتابوں سے بہتر ہو میں اس کی اتباع کروں گا اگر تم اپنی بات میں سچے ہو پھر اگر یہ لوگ کتاب لانے میں آپ کی بات نہ مانیں تو آپ سمجھ لیجئے کہ یہ کفر میں محض اپنی خواہشات کے پیچھے چل رہے ہیں اور ایسے شخص سے کون زیادہ گمراہ ہوگا ؟ جو اپنی خواہشات کے پیچھے چلتا ہو بغیر اس کے کہ منجانب اللہ کوئی دلیل ہو یعنی اس سے زیادہ کوئی گمراہ نہیں، اللہ تعالیٰ ایسے ظالم کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد قولہ : وَعَادَ اس کا عطف قوم پر ہے نہ کہ نوح پر اس لئے کہ اگر نوح پر عطف ہو تو عاد کے لئے قوم کا ہونا لازم آئے گا حالانکہ عاد خود ایک قوم ہے تقدیر عبارت یہ ہے مِنْ بعد ما اَھْلکنا قوم نوحٍ وعاد وثمود بعد اس کے کہ ہم نے ہلاک کردیا قوم نوح اور عاد کو اور ثمود کو، لہٰذا مناسب تھا کہ عاد کو الف کے ساتھ لکھتے تاکہ نوح پر عطف کا اشتباہ نہ ہوتا۔ قولہ : بصائرَ یہ حذف مضاف کے ساتھ کتاب سے حال ہے ای ذا بصائرَ اگر مضاف محذوف نہ مانیں تو مبالغۃً بھی حال ہوسکتا ہے اور بصائر کتاب سے مفعول لہ بھی ہوسکتا ہے اسی طرح ھُدًی اور رحمۃً میں بھی مذکورہ تینوں ترکیبیں ہوسکتی ہیں۔ قولہ : بجانب الجبل اوع الوادی او المکان اس عبارت کے اضافہ کا مقصد بصریین کے مذہب کے مطابق ہونے والے اعتراض کو دفع کرنا ہے، اعتراض یہ ہے کہ جانب کی اضافت الغربی کی طرف اضافت موصوف الی الصفت کے قبیل سے ہے اور یہ بصریین کے یہاں جائز نہیں ہے اس لئے کہ موصوف اور صفت ایک ہی شئ ہوتی ہے لہٰذا اس سے اضافت الشئ الی نفسہٖ لازم آتی ہے اور یہاں ایسا ہی ہے اس لئے کہ جانب اور غربی ایک ہی شئ ہیں، اس اعتراض کو دفع کرنے کے لئے غربی کا موصوف الجبل محذوف مان لیا تاکہ جانب کی اضافت جبل کی جانب ہو نہ کہ الغربی کی جانب، مفسر علام نے تین لفظ محذوف مانے ہیں ان تینوں میں سے کسی کو بھی جانب کا مضاف الیہ قرار دے سکتے ہیں، کو فیین کے مذہب کے مطابق مذکورہ اعتراض واقع نہیں ہوتا، اس قسم کی تعبیرات قرآنی اور حدیث میں بکثرت موجود ہیں۔ قولہ : وَمَا کنت منَ الشَّاھدین لِذٰلکَ اور آپ ان حالات و واقعات وغیرہ کو دیکھنے والے نہیں تھے، یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماقبل میں کہا گیا ہے کہ پہاڑ کی غربی جانب میں موجود نہیں تھے، اس سے مشاہدہ کی خود بخود نفی ہوجاتی ہے تو پھر وما کنت من الشاھدین کہنے سے کیا فائدہ۔ جواب کا ماحصل یہ ہے کہ حاضر ہونے کے لئے مشاہدہ ضروری نہیں ہے بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان موجود تو ہوتا ہے مگر مشاہدہ نہیں کر پاتا، اسی وجہ سے ابن عباس نے فرمیا ا لم تحضر ذٰلک الموضع ولو حضرتہٗ ما شاھدتُ ما وقع فیہ۔ قولہ : تتلوا علیہم آیاتنَا جملہ ہو کر کنت کی خبر ثانی اور کنت کی ضمیر سے جملہ ہو کر حال بھی ہوسکتا ہے ھم ضمیر کا مرجع اہل مکہ ہیں، یعنی جب آپ اہل مکہ کو اہل مدین کے واقعات سنا رہے تھے تو آپ اہل مدین میں موجود نہیں تھے کہ ان کے حالات و واقعات کو دیکھ کر اپنی قوم کو سنا رہے ہوں، بلکہ ہزار ہا سال ما قبل کے ان تمام حالات و واقعات کی خبر آپ کو بذریعہ وحی دی جا رہی تھی جو کہ آپ کے نبی ہونے کی پختہ اور واضح دلیل ہے۔ قولہ : اَن خُذِ الکِتَاب بقوۃٍ میں ان تفسیر یہ یعنی نداء کی تفسیر ہے، مفسر علام نے ان خُذِ الکتابَ کو ایتاء تورات سے متعلق کیا ہے اور سابقہ آیت ومَا کنت بجانب الغربی کو نفس ارسال سے متعلق کیا ہے حالانکہ نفس ارسال اور ایتاء تورات کے درمیان تیس سال کا فاصلہ ہے، اور بعض حضرات نے اس کا عکس بھی کہا ہے۔ قولہ : ‏ لَوْلاَ اَنْ تصیبھُمْ مُصِیْبَۃٌ، لولا امتناعیہ ہے جو وجود اول کی وجہ سے انتقاء ثانی پر دلالت کرتا ہے، اَن تصبَھم میں أن مصدریہ ہے اور لولا اصابۃُ المصیبَۃ لھم کے معنی میں ہو کر مبتداء ہے اور مبتداء کی خبر موجودٌ محذوف ہے اور لولا کا جواب مَا اَرْسلْنَاک محذوف ہے دوسرا لَوْلاَ تحضیضیہ ہے اس کا جواب فَنَتَّبِعَ آیَاتِکَ مذکور ہے تقدیر عبارت یہ ہے لَوْلاَ قولُھُمْ ھٰذا اذا اَصَابَتْھُمْ مصِیبۃٌ لَمَا اَرْسلنَاکَ اِلَیھِمْ رسُولاً (خلاصہ) اصابۃِ عقوبۃ سبب ہے قول کا اور قول سبب ہے ارسال کا چونکہ سبب کا سبب سبب ہوتا ہے لہٰذا اصابۃِ مصیبۃ بواسطہ قول سبب ہوا اردال کا، اسی وجہ سے لولا کو اصابۃ پر داخل کردیا اور فاسببیہ کے ذریعہ فیقولوا کا اصابۃ پر عطف کردیا، یعنی آپ ﷺ کے ارسال کا سبب اہل مکہ کا یہ قول ہے، اگر اہل مکہ کا یہ قول نہ ہوتا تو ہم آپ کو رسول بنا کر نہ بھیجتے، یعنی عدم ارسال کے انتقاء (ارسال) کا سبب اہل مکہ کا قول لولا اَرْسلتَ الینا رسولاً ہے اور اس قول کا سبب اصابت مصیبت ہے۔ تنبیہ : عدم ارسال کا انتفاء نفی النفی اثبات کے معنی ہونے کی وجہ سے ارسال کے معنی میں ہے۔ قولہ : اَوْ لَوْلا قولھم المسبَّب عنھَا الخ یعنی اصابۃ مصیبۃ کے وقت ان کا قول انتقاء عدم رسالت کا سبب نہ ہوتا تو ہم ان کے عذاب میں جلد کرتے اور آپ کو رسول بنا کر نہ بھیجتے یہ تعبیر حاصل معنی کے اعتبار سے ہے، جس کا حاصل یہ ہے لولا کے جواب کے انتفاء کا سبب ان کا قول مذکور ہے، اسی وجہ سے المسبَّبُ عنھا قولھم کہا ہے۔ قولہ : ما ارسالناکَ یہ جواب منفی ہے یہ وجود شرط کی وجہ سے انتفاء جواب پر دلالت کر رہا ہے، فالمعنی انتفی عدم ارسالت الیھم لقولھم المذکور تاکہ نزول عذاب کے وقت ان کے عذر کو ختم کردیا جائے، ورنہ تو نزول عذاب کے وقت یہ عذر بیان کرسکتے تھے کہ اگر ہمارے پاس بھی سابقہ امتوں کے مانند انبیاء آتے تو ہم بھی ایمان لاتے اور آج عذاب کی اس مصیبت میں مبتلا نہ ہوتے، آپ ﷺ کو مبعوث فرما کر ان کے اس عذر کو ختم کردیا، اگر کوئی شخص اعتراض کرے کہ اصابت مصیبت اور مذکورہ مقولہ تو آئندہ روز قیامت میں واقع ہوں گے اور لَوْلاَ کے وجود واقعی کی وجہ سے انتفاء ثانی پر دلالت کرتا ہے حالانکہ یہاں ایسا نہیں ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ مانع کبھی موجود ہوتا ہے اور کبھی مفروض یہاں ثانی صورت مراد ہے یعنی علی سبیل الفرض والتقدیر (جمل ملخصاً ) ۔ قولہ : او الکتاب سے مثل ما اوتی کی دوسری تفسیر کی طرف اشارہ ہے اور او الکتاب کا عطف الآیات پر ہے۔ قولہ : ساحران یہ مبتداء محذوف ھُمَا کی خبر ہے۔ تفسیر و تشریح ترجمہ : ولقد اتینا۔۔۔۔۔ للناس قرون اولیٰ سے اقوام نوح وہود و صالح ولوط (علیہم السلام) مراد ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے اپنی سرکشی کی وجہ سے ہلاک کی گئی تھیں، بصائر بصیرۃٌ کی جمع ہے جس کے لفظی دانش و بینش کے ہیں اور مراد اس سے وہ نور ہے جو اللہ تعالیٰ انسانوں کے قلوب میں پیدا فرماتے ہیں، جس سے وہ حقائق اشیاء کا ادراک کرسکیں اور حق و باطل کا امتیاز کرسکیں۔ بَصَائر للناس اگر ناس سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تورات ان کے لئے مجموعہ بصائر تھی، اور اگر ناس سے تمام انسان مراد ہیں جن میں امت محمدیہ بھی داخل ہے تو یہاں سوال پیدا ہوگا کہ امت محمدیہ کے زمانہ میں جو تورات موجود ہے وہ تحریفات کے ذریعہ مسخ ہوچکی ہے تو ان کے لئے بصائر کہنا کس طرح درست ہوگا اور یہ کہ اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ مسلمانوں کو بھی تورات سے استفادہ کرنا چاہیے حالانکہ حدیث میں حضرت عمر ؓ کا واقعہ مشہور ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ سے اجازت طلب کی کہ وہ تورات میں جو نصائح وغیرہ ہیں ان کو پڑھیں تاکہ ان کے علم میں ترقی ہو، اس پر رسول اللہ ﷺ نے غضبناک ہو کر فرمایا کہ اگر اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) بھی زندہ ہوتے تو ان کو بھی میرا ہی اتباع لازم ہوتا۔ اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تورات کا جو نسخہ اس وقت لوگوں کے پاس موجود تھا وہ محرف اور مسخ شدہ تھا اور اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا، نزول قرآن کا سلسلہ بھی جاری تھا، اس وقت آپ ﷺ نے قرآن کی مکمل حفاظت اور خلط ملط سے محفوظ رکھنے کے لئے اپنی احادیث کو بھی لکھنے سے بھی بعض حضرات کو منع فرما دیا تھا، ان حالات میں کسی دوسری مسخ شدہ آسمانی کتاب کا پڑھنا پڑھانا ظاہر ہے کہ احتیاط کے خلاف تھا، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ تورات کا مطلقاً پڑھنا اور مطالعہ کرنا منع ہے ان کتابوں کے وہ حصے جو رسول اللہ ﷺ سے متعلق پیشین گوئیوں پر مشتمل ہیں ان کا مطالعہ کرنا اور نقل کرنا صحابہ کرام سے ثابت ہے، حضرت عبد اللہ بن سلام اور کعب احبار اس معاملہ میں سب سے زیادہ معروف ہیں، اس لئے حاصل آیت یہ ہوگا کہ توریت اور انجیل میں غیر محرف مضامین اب بھی موجود ہیں اور بلاشبہ بصائر ہیں ان سے استفادہ درست ہے مگر یہ استفادہ صرف ایسے لوگ ہی کرسکتے ہیں جو محرف اور غیر محرف میں فرق کرسکیں، عوام کو اس سے اجتناب اس لئے ضروری ہے کہ کہیں وہ کسی مغالطہ میں نہ پڑجائیں، یہی حکم ان تمام کتابوں کا ہے جن میں حق و باطل کی آمیزش ہو کہ عوام کو ان کے مطالعہ سے پرہیز کرنا چاہیے، علماء ماہرین کے لئے کوئی مضائقہ نہیں (معارف) لتنذر۔۔۔ نذیر یہاں اس قوم سے عرب مراد ہیں جو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں ہیں، اور ان کے بعد سے خاتم الانبیاء ﷺ کے زمانہ تک ان میں کوئی پیغمبر مبعوث نہیں ہوا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ دوسری جگہ قرآن کا یہ ارشاد کہ اِنْ مِنْ اُمَّۃٍ اِلاَّ خَلاَفِیْھَا نَذِیْرٌّ کوئی امت ایسی نہیں کہ جس میں اللہ کا پیغمبر نہ آیا ہو، اس آیت کے منافی نہیں ہے کیونکہ اس آیت کی مراد یہ ہے کہ زمانہ دراز سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد ان میں کوئی نبی نہیں آیا، مگر رسول اور نبی آنے سے خالی یہ امت بھی نہیں رہی۔ وما کنت بجانب الغربی یعنی کوہ طور پر جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم کلامی کا شرف بخشا اور اسے وحی رسالت سے نوازا تو اے محمد ﷺ آپ وہاں موجود نہیں تھے اور نہ یہ منظر دیکھنے والوں میں تھے، بلکہ یہ غیب کی وہ باتیں ہیں کہ جو وحی کے ذریعہ آپ کو بتلا رہے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ پیغمبر برحق ہیں، اس لئے کہ نہ تو آپ نے یہ باتیں کسی سے سیکھی ہیں اور نہ خود ان کا مشاہدہ کیا ولولا ان تصیبھم مصیبۃ بما قدمت ایدیھم یعنی ان کے اس عذر کو ختم کرنے کے لئے آپ کو ہم نے رسول بنا کر بھیجا ہے کیونکہ طول زمانی کی وجہ سے گزشتہ انبیاء کی تعلیمات مسخ اور ان کی دعوت فراموش ہوچکی ہے اور ایسے ہی حالات کسی نبی کی ضرورت کے متقاضی ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی تعلیمات (قرآن و حدیث) کو مسخ ہونے سے محفوظ رکھا ہے، اور ایسا تکوینی نظام فرما دیا ہے کہ جس کی وجہ سے آپ کی دعوت دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی ہے اور مسلسل پہنچ رہی ہے تاکہ کسی نبی کی ضرورت باقی نہ رہے۔ قالوا ساحر ان تظاھران مشرکین مکہ نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب اپنا ایک وفد مدینہ کے علماء یہود کے پاس آپ ﷺ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے بھیجا تھا چناچہ ان لوگوں نے آپ ﷺ کے حالات اور علامات کے بارے میں علماء یہود سے معلوم کیا تو علماء یہود نے جواب دیا کہ ہم تورات میں ان کی علامات اور صفات پاتے ہیں، چناچہ وقف نے مکہ آکر لوگوں کو اس کی خبر دی تو اس وقت ان لوگوں نے کہا ساحران تظاھران یا سحران تظاھران یہ دونوں جادوگر یا جادو ہیں جو ایک دوسرے کی موافقت کرتے ہیں۔ (جمل ملخصا)
Top