Tadabbur-e-Quran - Al-Qasas : 43
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآئِرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا : اور تحقیق ہم نے عطا کی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب (توریت مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَآ اَهْلَكْنَا : کہ ہلاک کیں ہم نے الْقُرُوْنَ : امتیں الْاُوْلٰى : پہلی بَصَآئِرَ : (جمع) بصیرت لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم نے اگلی امتوں کو ہلاک کرنے کے بعدموسیٰ کو کتاب عطا کی لوگوں کے لئے بصیرتیں بخشنے والی اور ہدایت و رحمت بنا کر تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں
مظلوموں پر انعام ظالموں کا انجام واضح کرنے کے بعد یہ اس فضل و انعام کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے مظلوموں پر فرمایا ہے۔ اور جس کی طرف اس سرگزشت کی تمہید ”ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا …الآیۃ کے الفاظ سے اشارہ گزر چکا ہے فرمایا کہ ہم نے پچھلی قوموں کو ہلاک کرنے کے بعد موسیٰ کو کتاب عطا کی۔ اس کتاب کی صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ لوگوں کے لئے بصیرت، ہدایت اور رحمت تھی۔ بصیرت، یعنی دل و دماغ کی صلاحیتیں اور تعقل و تفکر کی قوتیں پیدا کرنے والی اس کو بصورت جمع لانے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ وہ ایسی آیات اور ایسے دلائل پر مشتمل تھی جو آنکھیں کھول دینے والی تھیں۔ ھدی و رحمۃ کی وضاحت ہم کرچکے ہیں کہ یہ دونوں لفظ جب ساتھ ساتھ آتے ہیں تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ آغاز، یعنی اس دنیا کی زندگی میں، ہدایت اور انجام یعنی آخرت کی زندگی میں رحمت۔ یہ واضح رہے کہ کسی قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب و شریعت کا دیا جانا دنیا کی امت و پیشوائی دیئے جانے کے ہم معنی ہے بشرطیکہ وہ اس نعمت کی قدر کرے۔ بنی اسرائیل کو یہ نعمت سب سے پہلے دی گئی۔ یہاں من بعد مآ اھلکنا القرون الاولی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ باقاعدہ کتابی شکل میں، اللہ کی یہ سب سے بڑی نعمت سب سے پہلے حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے بنی اسرائیل ہی کو ملی لیکن انہوں نے اس کتاب کے ساتھ نہایت بےدروانہ سلوک جس کی تفصیل سورة بقرہ کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔
Top