Al-Quran-al-Kareem - Ar-Rahmaan : 76
مُتَّكِئِیْنَ عَلٰى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّ عَبْقَرِیٍّ حِسَانٍۚ
مُتَّكِئِيْنَ : تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے عَلٰي رَفْرَفٍ : مسندوں پر خُضْرٍ : سبز وَّعَبْقَرِيٍّ : اور نادر حِسَانٍ : نفیس
وہ ایسے قالینوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہیں جو سبز ہیں اور نادر، نفیس ہیں۔
مُتَّکِئِیْنَ عَلٰی رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِیٍّ حِسَانٍ :”زفرف“ اس جنس یا اسم جمع ہے ، مفردم اس کا ”رفرفۃ“ ہے ، منقش قالین جو بستر پر بچھایا جائے۔ ’ ’ عقبری“ کوئی بھی چیز جو اپنی جنس میں سب سے فائق اور نادر الوجودہو۔ اس کی نسبت ”عبقر“ کی طرف ہے جو جاہلیت کے افسانوں میں جنوں کا شہر تھا۔ جسے اردو میں پرستان کہتے ہیں۔ عرب میں فوق العادت خوبصورت یا کمال چیز کی نسبت اس کی طرف کردیتے تھے ، گویا یہ انسانوں کی سر زمین کی نہیں بلکہ جنوں اور پریوں کی سرزمین کی چیز ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے کنویں سے پانی کھینچنے والے خواب کے ذکر میں فرمایا :(ثم اخذھا عمر ، فاستحالت بیدہ غربا ، فلم ار عبقربا فی الناس یفری فریۃ) (بخاری ، المناقب ، باب علامات النبوۃ فی الاسلام : 3634)”پھر وہ ڈول عمر ؓ نے پکڑا تو وہ ایک بڑے ڈول کی شکل میں بدل گیا۔ تو میں نے کوئی نادر قوت والا شخص نہیں دیکھا جو اس جیسی کاٹ کاٹتا ہو۔“ اس لیے اس کا ترجمہ شاہ رفیع الدین ؒ تعالیٰ نے ”نادر“ کیا ہے اور ”حسان“ کا ترجمہ ”نفیس“ کیا ہے۔ ”زفرف ‘ ‘ کا لفظ منفرد ہے ، اس کے مطابق ”عبقری“ صفت مفرد لائی گئی ہے اور اسم جنس یا اسم جمع ہونے کی وجہ سے اس میں جمع کا مفہوم پایا جاتا ہے ، اس لیے اس کی صفات ”خضر“ اور ”حسان“ جمع لائی گئی ہیں۔
Top