Mufradat-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 76
مُتَّكِئِیْنَ عَلٰى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّ عَبْقَرِیٍّ حِسَانٍۚ
مُتَّكِئِيْنَ : تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے عَلٰي رَفْرَفٍ : مسندوں پر خُضْرٍ : سبز وَّعَبْقَرِيٍّ : اور نادر حِسَانٍ : نفیس
سبز قالینوں اور نفیس مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے
مُتَّكِــــِٕيْنَ عَلٰي رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ۝ 76 ۚ تكأ المُتَّكَأ : المکان الذي يتكأ عليه، والمخدّة : المتکأ عليها، وقوله تعالی: وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، أي : أترجا «1» . وقیل : طعاما متناولا، من قولک : اتكأ علی كذا فأكله، ( ت ک ء ) التکاء ( اسم مکان سہارہ لگانے کی جگہ ۔ تکیہ جس پر ٹیک لگائی جائے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں متکاء کے معنی ترنج کے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ مراد کھانا ۔ رَفْرَفٍ والرَّفْرَفُ : المنتشر من الأوراق، وقوله تعالی: عَلى رَفْرَفٍ خُضْرٍ [ الرحمن/ 76] ، فضرب من الثّياب مشبّه بالرّياض، وقیل : الرَّفْرَفُ : طرف الفسطاط، والخباء الواقع علی الأرض دون الأطناب والأوتاد، وذکر عن الحسن أنها المخادّ. ( رف ) رفیف الشجر ۔ درخت کی شاخوں کا ہوا سے لہلہانا اور منتشر ہونا کہا جا تا ہے ۔ رف الطیر جناحیہ پرند کا اپنے بچے کی حفاظت کے لئے دونوں بازو پھیلانا ۔ یہ باب رف یرف ( ن) سے ہے اور استعارہ کے طور پر رف کا لفظ کسی چیز کی دیکھ بھال کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے عام محاورہ میں کہا جاتا ہے ۔ ما لفلان حاف ولا راف یعنی اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ اس پر کوئی شفقت کرنے والا نہیں رہا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) من حفنا اور فنا فلیقتصد : جو ہم پر شفقت کرے اسے چاہیے کہ اعتدال سے کام لے ۔ الرفرف : کے معنی درخت کے منتشر پتوں کے ہیں ۔ اور قرآن کی آیت : عَلى رَفْرَفٍ خُضْرٍ [ الرحمن/ 76] وہ سبز قالینوں پر ( تکیہ لگائے ) رفرف سے خاص قسم کے کپڑے مراد ہیں ۔ جو مرغزار کے مشابہ ہوتے ہیں ۔ اور بعض کا قول ہے ۔ کہ رفرف سے خیمے کا کنارہ مراد ہے ۔ جو زمین پر پڑا رہتا ہے اور حسن ( بصری ) سے مروی ہے کہ اس سے گاؤتکئے مراد ہیں ۔ خضر قال تعالی: فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج/ 63] ، وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ [ الكهف/ 31] ، فَخُضْرٌ جمع أخضر، والخُضْرَة : أحد الألوان بين البیاض والسّواد، وهو إلى السّواد أقرب، ولهذا سمّي الأسود أخضر، والأخضر أسود قال الشاعر : قد أعسف النازح المجهول معسفه ... في ظلّ أخضر يدعو هامه البوم«2» وقیل : سواد العراق للموضع الذي يكثر فيه الخضرة، وسمّيت الخضرة بالدّهمة في قوله سبحانه : مُدْهامَّتانِ [ الرحمن/ 64] ، أي : خضراوان، وقوله عليه السلام : «إيّاكم وخَضْرَاء الدّمن» «3» فقد فسّره عليه السلام حيث قال :«المرأة الحسناء في منبت السّوء» ، والمخاضرة : المبایعة علی الخَضْرِ والثمار قبل بلوغها، والخضیرة : نخلة ينتثر بسرها أخضر . ( خ ض ر ) قرآن میں ہے : فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج/ 63] تو زمین سر سبز ہوجاتی ہے۔ وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ [ الكهف/ 31] سبز رنگ کے کپڑے ۔ خضرا کا واحد اخضر ہے اور الخضرۃ ایک قسم کا دنگ ہوتا ہے جو سفیدی اور سیاہی کے بین بین ہوتا ہے مگر سیاہی غالب ہوتی ہے یہی وجہ ہے ک اسور ( سیاہ ) اور اخضر ( سبز) کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( البسیط) (136) قد اعسف النازح المجھود مسفۃ فی ظل اخضر یدعوھا مہ الیوم میں تاریک اور بھیانک راتوں میں دور دراز راستوں میں سفر کرتا ہوں جو بےنشان ہوتے ہیں ۔ اور سبزی اور شادابی کی وجہ سے عراق کے ایک حصہ کو سواد العراق کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ مُدْهامَّتانِ [ الرحمن/ 64] کے معنی سر سبز کے ہیں اور خضرۃ کی جگہ دھمۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی سیاہی کے ہیں ۔ حدیث میں ہے :۔ (114) ایاکم وخضواء الدمن تم کوڑی کی سر سبزی سے بچو۔ اور خضراء الدمن کی تفسیر بیان کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا المرآۃ الحسنۃ فی منبت السوء یعنی خوبصورت عورت جو بدطنت ہو ۔ المخاضرۃ سبزیوں اور کچے پھلوں کی بیع کرنا ۔ الخضیرۃ کھجور کا درخت جس کی سبزا در نیم پختہ کھجوریں جھڑجائیں عبقر عَبْقَرٌ قيل : هو موضعٌ للجنّ ينسب إليه كلّ نادر من إنسان، وحیوان، وثوب، ولهذا قيل في عمر : «لم أر عَبْقَرِيّاً مثله» ، قال تعالی: وَعَبْقَرِيٍّ حِسانٍ [ الرحمن/ 76] ، وهو ضرب من الفرش فيما قيل، جعله اللہ مثلا لفرش الجنّة . ( ع ب ق ر ) عبقر بعض نے کہا ہے کہ جنوں کی آبادی کا نام ہے ۔ عرب لوگ جب کسی انسان حیوان یا کپڑے وغیرہ میں نادرہ کاری دیکھتے تو اسے اسکی طرف نسبت کردیتے اسی بنا حضرت عمرؓ کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے ایک خواب بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔ لم ارعبقریامثلہ کہ میں نے اس جیسا نادر المثال شخص نہیں دیکھا ۔ اور ایت کریمہ : ۔ وَعَبْقَرِيٍّ حِسانٍ [ الرحمن/ 76] اور نفس مسندوں پر میں عبقری کے معنی ایک قسم کے عمدہ فرش کے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے جنت کے فروش کے لئے ضرب المثل کے طور پر بیان فرمایا ہے ۔
Top