Urwatul-Wusqaa - Ar-Rahmaan : 76
مُتَّكِئِیْنَ عَلٰى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّ عَبْقَرِیٍّ حِسَانٍۚ
مُتَّكِئِيْنَ : تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے عَلٰي رَفْرَفٍ : مسندوں پر خُضْرٍ : سبز وَّعَبْقَرِيٍّ : اور نادر حِسَانٍ : نفیس
یہ (لوگ) نادر اور نفیس سبز مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے
یہ لوگ نادر اور نفیس سبز مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے 27۔ (متکین) اسم فاعل جمع مذکر منصوب (مت کی) واحد اتکاء مصدر تکیہ لگائے ہوئے ، پیچھے کو گائو تکیہ سے سہارا لگائے ہوئے۔ مراد مرد اور عورتیں سب ہیں جو جنت میں رہ رہے ہوں گے اور تکیہ لگا کر بیٹھنے سے مراد دراصل آرام و سکون کے ساتھ بیٹھنا ہے جیسے انسان کو کسی طرح کا کوئی غم وفکر نہ ہو ، گویا بیٹھ گئے تو بس بیٹھ ہی گئے۔ (رفرف) قالین ، چاندنیاں ، تکیے ، چناچہ علامہ زمخشری الفائق میں لکھتے ہیں : الرفرف ماکان میں الدیباج وغیرہ رقیقا حسن الصبغۃ ” زخرف دیباج وغیرہ کا باریک خوش رنگ کپڑا ہے “ علامہ موصوف نے اس کی جامع تعریف کی ہے اور چونکہ اس کپڑے کے گدے ، تکیے ، چاندنیاں ، خیمے اور فرش وفروش تیار ہوتے ہیں اس لیے ان سب معافی میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔ چناچہ امام راغب تحریر کرتے ہیں اس کا واحد رفرف ہے اور جمع الجمع رفارف اور بعض نے گدے اور فرش کو رفرف بتایا ہے۔ حسن بصری مقاتل اور قرطبی کا یہی قول ہے۔ عوفی ابن عباس سے مروی ہے کہ رفرف فرشوں اور گدوں کا زائد حصہ ہے غالباً ھالر یا کپڑے کا کنارہ مراد ہے جو تخت کے چاروں طرف لٹکا رہتا ہے۔ (راغب ، معالم التنزیل ج 7 ص 21) عبقرق قیمتی ، نادر ، عجیب و غریب ، خوبصورت بچھونے۔ امام محمد بن عزیز تجستانی نزہۃ القلوب میں رقم طراز ہیں کہ عبقری موٹے فرش ہیں۔ ابوعبیدہ نے کہا ہے کہ اہل عرب ہر بچھونے اور فرش کو عبقری کہتے ہیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عبقر ایک خطہ ہے کہ جہاں منقش کپڑا تیار ہوتا تھا۔ چناچہ ہر عمدہ چیزوں کو اس کی طرف منسوب کیا جانے لگا۔ نیز کہا جاتا ہے کہ عبقری ہر اس مرد اور ہر اس بچھونے کو کہتے ہیں جو قابل تعریف ہو اور اس معنی میں ایک حدیث بھی ہے کہ عمر ؓ کے لیے حدیث میں آیا ہے۔ : (فلم ارعبقر یایفری فریہ) ” پھر میں نے ایسا عجیب و غریب کسی کو نہیں دیکھا کہ جو ان کی طرح کام کرنے والا ہو۔ “ امام راغب لکھتے ہیں کہ : عبقر جنوں کی ایک بستی ہے جس کی طرف ہر نادر چیز کو انسان ہو یا حیوان یا کپڑا منسوب کردیا جاتا ہے اور اسی لیے عمر ؓ کے بارے میں بھی فرمایا گیا ہے۔ فلم ارعبقر یا مثلہ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بچھونوں کی ایک خاص قسم ہے جو بہت ہی قیمتی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جنت کو بچھونوں پر یہ لفظ بولا ہے۔ “ اس کے مفہوم میں اور بھی بہت کچھ کہا گیا ہے قاموس میں عبقری کے حسب ذیل معافی لکھے گئے ہیں : (1) ہر وہ چیز جس میں کمال ہو۔ (2) سردار لوگ (3) وہ شخص جو سب پر فوقیت رکھتا ہو۔ (4) مضبوط اور قوی۔ (5) خاص قسم کے فرش اور بچھونے۔ (حسان) خوبصورت ، عمدہ ، حسین و نفیس ، مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جنت میں بچھے ہوئے پلنگوں پر جن کے بچھونے اور گدے بہت ہی قیمتی ہوں گے نہایت آرام و سکون کے ساتھ مع اپنی ازدواج کے بیٹھے ہوں گے اس طرح کہ ان کو کوئی غم واندوہ نہیں ہوگا اور جب بھی اور جس وقت بھی کسی پھل کا وہ خیال کریں گے تو وہ پھل ان کے اوپر جھک آئیں گے اور اشارہ کرنے کی دیر ہوگی کہ وہ پھل ان کے ہاتھوں میں ہوں گے اور اس طرح گویا وہ جنت میں نہایت ہی آرام و سکون کے ساتھ رہ رہے ہوں گے جس کا تصور بھی اس جگہ کرنا نہایت مشکل ہے اس لیے جو کچھ بھی کہا جائے گا وہ غیب میں پتھر مارنے کے مترادف ہوگا۔
Top