Al-Qurtubi - Ar-Rahmaan : 76
مُتَّكِئِیْنَ عَلٰى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّ عَبْقَرِیٍّ حِسَانٍۚ
مُتَّكِئِيْنَ : تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے عَلٰي رَفْرَفٍ : مسندوں پر خُضْرٍ : سبز وَّعَبْقَرِيٍّ : اور نادر حِسَانٍ : نفیس
سبز قالینوں اور نفیس مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے
متکین علی رفرف خضر، رفرف سے مراد وہ چادر ہے جو اس بستر پر بچھائی جاتی ہے جس کو سونے کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا، رفر سے مراد بستروں اور قالینوں سے زائد چیز ہے (1) ان سے یہ بھی مروی ہے : رفرف سے مراد وہ چادریں ہیں (2) جن کے زائد حصہ پر وہ ٹیک لگاتے ہیں، یہ قتادہ کا قول ہے۔ حضتر حسن بصری اور قرظی نے کہا، اس سے مراد قالین ہیں۔ ابن عینیہ نے کہا، اس سے مراد تکیے ہیں۔ ابن کیسان نے کہا، اس سے مراد چھوٹے تکیے ہیں، یہ حضرت حسن بصری کا بھی قول ہے۔ ابوعبیدہ نے کہا : یہ کپڑے کی ایک طرف ہے۔ لیث نے کہا، اس سے مراد سب کپڑوں کی ایک قسم ہے جسے بچھایا جاتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد بلند بستر ہیں (3) ایک قول یہ کیا گیا ہے : عربوں کے ہاں کپڑے کے جوڑے کو رفرف کہتے ہیں۔ یہ تمام اقوال قریب قریب ہیں۔ صحاح میں ہے : رفرف سے مراد سبز کپڑے ہیں جن سے چادریں بنائی جاتی ہیں اس کا واحد رفرفہ ہے۔ سعید بن جبیر اور حضرت ابن عباس نے کہا، رفرف سے مراد جنت کے باغات ہیں (4) رفرف یہ ان یرف سے مشتق ہے وہ بلند ہو اسی سے رفرۃ الطیر ہے کیونکہ وہ ہوا میں اپنے دونوں پروں کو حرکت دیتا ہے بعض اوقات نرشتر مرغ کو اسی وجہ سے رفرف کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے پروں کو حرکت دیتا ہے پھر بھگا جاتا ہے۔ رفرف الطائر جب وہ کسی چیز کے اردگرد اپنے پروں کو حرکت دیتا ہے تاکہ وہ اس پر گرے۔ رفرف سے مراد خیمہ کا نچلا حصہ، قمیص کی جانب اور اس میں سے جو چیز لٹک رہی ہو، اس کا واحد رفرفہ ہے۔ نیب کریم ﷺ کے وصال کے بارے میں حدیث میں ہے : فرفع الرفرف فراینا وجھہ کا نہ و رقۃ یعنی خیمہ کی ایک جانب الٹائی گئی تو ہم نے آپ کا چہرہ دیکھا گویا وہ چاندی تھا۔ ایکق ول یہ کیا گیا : رفرف کا اصل رف النبت یرف ہے جب وہ ترو تازہ ہو، یہ ثعلبی نے حکایت بیان کی ہے۔ فتبی نے کہا، یہ لفظ کسی شی کے لئے اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب اس کا پانی زیادہ ہو یہاں تک کہ وہ جھومنے لگے۔ رف یرف رفیفا یہ مہروی نے بیان کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، رفرف ایسی چیز کو کتے ہیں جب اس کا مالک اس پر بیٹھے تو وہ دائیں بائیں اوپر نیچے حرکت کرے وہ اس کے ساتھ لذت حاصلک رے جس طرح جھولا جھولتا ہے، یہ قول ترمذی حکیم نے نو اور الاصول میں بیان کیا ہے ہم نے اس کا ذکر تذکرہ میں کیا ہے۔ ترمذی حکیم نے کہا، رفرف فرش سے متربہ میں بلند ہے پہلے دو باغوں کے بارے میں فرمایا : متکین علی فرش بطآء بنھا من استمرق جب کہ یہاں فرمایا : متکین علی رفرف خضر، رفرف ایسی شی ہے جب ولی اس پر متکن ہوتا ہے تو وہ اس کے ساتھ حرکت کرتی ہے، یعنی اسے یہاں اڑ کرلے جاتا ہے اور یہاں اڑا لے جاتا ہے جہاں اس کا ارادہ ہوتا ہے جس طرح جھولا ہوتا ہے اس کی اصل رفرف بین یدی اللہ عزوجل ہے۔ حدیث معراج میں مہارے سامنے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سدرۃ المنتہی تک پہنچے تو رفرف آپ کے پاس آیا آپ نے اسے جبریل امین سے لیا اور اس کے ساتھ مسند عرش کی طرف اڑ گئے۔ اس میں آپ نے ذکر کیا کہ وہ ’ ’ مجھے لے کر اڑا کبھی مجھے نیچے لے جاتا اور کبھی اوپر لے جاتا یہاں تک کہ مجھے میرے رب کے سامنے کھڑا کردیا۔ پھر جب واپسی کا وقت ہوا آپ نے اسے پکڑا تو وہ آپ کو لے کر اڑا کبھی نیچے ہوتا اور کبھی اوپر جاتا یہاں تک کہ اس نے آپ کو جبریل امین تک پہنچا دیا جب کہ جبریل امین رو رہے تھے اور حمد کے ساتھ اپنی آواز بلند کر رہے تھے “ رفرف ایک خادم ہے جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر رہتا ہے دنو اور قرب کے محل میں اس کے خاص امور ہیں جس طرح براق ایک جانور ہے جس پر انبیاء سواری کرتے ہیں وہ اس کی زمین میں خاص ہے یہ زفرف ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دو جنت والوں کے لیے مسخر کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کا قرب رکھتی ہیں یہ یہ رفرف ان کا تکیہ اور بستر ہے وہ ولی کو ان نہروں کے کناروں پر لے کر اڑتا رہتا ہے جہاں وہ جنتی چاہتا ہے جہاں ان کی بیویاں خیرات حسان کے خیمے میں ہوتی ہیں پھر فرمایا :” وعبقری حسان۔ عبقری “ ان کپڑوں کو کہتے ہیں جن پر نقش و نگار ہوتے ہیں جن کو پھیلایا جاتا ہے جب ان نقوس کا خالق کہے کہ یہ حسان ہیں تو ان عباقر کے بارے میں تیرا کیا گمان ہوگا۔ حضرت عثمان ؓ حجدری، حضرت حسن بصری اور دوسرے علماء نے متکئین علی رفارف پڑھا ہے یہ جمع ہے غیر منصرف ہے، اسی طرح و عباقری حسان بھی ہے یہ رفرف اور عبقری کی جمع ہے رفرف اسم جمع ہے عبقری واحد ہے جو جمع پر دلالت کرتی ہے جو عبقری کی طرف منسوب ہے۔ جس میں کپڑے پر نقش و نگار بنائے جاتے ہیں، اس کی طرف ہر اس نقش کو منسوب کیا جاتا ہے جس کو مضبوط نقش کہا جاتا۔ یہ کہا جاتا ہے : عبقریمن کی ایک جانب ایسی بستی ہے جس میں منقش قالین بنے جاتے۔ ابن انباری نے کہا : اس میں اصل یہ ہے کہ عبقر ایک بستی ہے جس میں جن رہتے اس کی طرف ہر عمدہ چیز منسوب کی جاتی ہے۔ خلیل نے کہا : مردوں، عورتوں اور اس کے علاوہ جو بھی عمدہ چیز ہو عربوں کے ہاں اسے عقبری کہتے ہیں : اسی معنی میں نبی کریم ﷺ کا حضرت عمر ؓ کے بارے میں فرمان ہے : فلم ارعیقریا من الناس یفری فریۃ (1) ابو عمرو نے کہا جب کہ ان سے رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو فرمایا : عقبری سے مراد قوم کا رئیس اور بزرگ ہے۔ جوہری نے کہا : عقبری ایسی جگہ ہے عرب یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ جنوں کا علاقہ ہے۔ لبید نے کہا : کھول و شبان کجنۃ عبقر عبقر کے جنوں کی طرح ادھیڑ عمر اور جوان ہیں۔ پھر عربوں نے اس کی طرف ہر ایسی چیز کی منسوب کیا جس کی قوت اور عمدہ 1 ؎۔ صحیح بخاری، کتاب المناقب، علامات النبوۃ فی الاسلام اطراطہ، جلد 1، صفحہ 513 صنعت سے وہ متعجب ہوتے انہوں نے کہا : عبقری۔ یہ واحد اور جمع ہے حدیث میں ہے : انہ کان یسجد علی عبقری (1) وہ عبقری پر سجدہ کرتا ہے۔ اس سے مراد ایسی قالین ہے جس میں رنگ ہوں اور نقوش ہوں یہاں تک کہ انہوں نے کہا ظلم عبقری : ھدا عبقری، ھذا عبقری قوم۔ یہ جملہ اس آدمی کے لیے بولتے جو قوم میں سے قومی ہوتا۔ حدیث طیبہ میں ہے : فلم ارعبقریا یفری فریۃ میں نے قوم کو سردار کو نہیں دیکھا جو جھوٹ بولتا ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے ایسی چیز کے ساتھ خطاب کیا جس سے وہ متعارف تھے اور فرمایا : عبقری حسان۔ بعض قاریوں نے اسے عباقری پڑھا ہے۔ یہ غلط ہے کیونکہ اسم منصوب کے جمع یاء نسبت کو باقی رکھتے ہوئے نہیں بنائی جاتی۔ قطرب نے کہا : یہ منسوب نہیں یہ کرسی کر اسی، بختی اور بخاتی کی طرح ہے۔ ابوبکر نے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے یوں پڑھا متکئین علی رفارف خضر و عباقر حسان ثعلبی نے اسے ذکر کیا ہے (2) خضر کے ضاء کو مضمو پڑھنا بہت ہی قلیل ہے۔
Top