Al-Quran-al-Kareem - At-Taghaabun : 14
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ١ۚ وَ اِنْ تَعْفُوْا وَ تَصْفَحُوْا وَ تَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : لوگو جو ایمان لائے ہو اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ : بیشک تمہاری بیویوں میں سے وَاَوْلَادِكُمْ : اور تمہارے بچوں میں سے عَدُوًّا : دشمن ہیں لَّكُمْ : تمہارے لیے فَاحْذَرُوْهُمْ : پس بچو ان سے وَاِنْ تَعْفُوْا : اور اگر تم معاف کردو گے وَتَصْفَحُوْا : اور درگزر کرو گے وَتَغْفِرُوْا : اور بخش دو گے فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ تعالیٰ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : غفور رحیم ہے
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! بیشک تمہاری بیویوں اور تمہارے بچوں میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں، سو ان سے ہوشیار رہو اور اگر تم معاف کرو اور درگزر کرو اور بخش دو تو بیشک اللہ بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ۔۔۔۔:”عدوا“ ”فعول“ کا وزن ہے : واحد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے :”فاحذروھم“ سے ظاہر ہے کہ یہاں جمع کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ”من ازواجکم“ میں ”من“ تبعیض کے لیے ہے ، یعنی بعض بیویاں اور اولادیں دشمن ہوتی ہیں سب نہیں ، بلکہ بعض دین میں مدد گار اور آنکھوں کی ٹھنڈک بھی ہوتی ہیں۔ اس سے پہلی آیات میں اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے ، اب ایک ایسی چیز سے ہوشیار رہنے کا حکم دیا جو عموماً اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے اور وہ آدمی کی بیوی اور اس کی اولاد ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی صورت گوارا نہیں کہ اس کا مومن بندہ اس سے بڑھ کر اور اس کے رسول سے بڑھ کر کسی سے محبت کرے ، یا کسی عزیز سے عزیز شخص کے تقاضے کو اللہ اور اس کے رسول کے تقاضے پر ترجیح دے۔ (دیکھئے توبہ : 24) یہاں خاص طور پر بعض بیویوں اور بعض اولاد کا ذکر فرمایا، کیونکہ آدمی ہر وقت ان کے ساتھ رہتا ہے اور طبعی طور پر ان سے محبت ہوتی ہے ، اس لیے بعض اوقات وہ ان کی محبت میں آکر اللہ اور اس کے رسول کے احکام کو پس پشت پھینک دیتا ہے اور ان کے آرام و آسائش کی خاطر حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتا۔ ان کے اصرار پر کئی فرائض ترک کردیتا ہے ، کئی ناجائز کاموں کا ارتکاب کرلیتا ہے اور اسی طرح اپنی آخرت تباہ کرلیتا ہے ، ظاہر ہے جو اہل و عیال آخرت کی بربادی کا باعث بنیں ان سے بڑھ کر آدمی ان سے بڑھ کر آدمی کا کوئی دشمن نہیں ہوسکتا۔ بعض بیویاں اور اولاد نا موافقت یا سرکشی کی وجہ سے فی الواقع بھی اپنے خاوند یا باپ کے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں ، مگر یہ ایسے دشمن ہیں کہ آدمی ان سے مسلسل دشمنی نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی ان سے علیحدگی اختیار کرسکتا ہے ، بلکہ ان کے ساتھ گزارا ہی کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ ان کی دشمنی کا یہ علاج نہیں کہ انہیں مارو پیٹو ، خرچہ بند کر دو یا ان سے علیحدگی اختیار کرلو ، بلکہ مارنے پیٹنے اور سختی کرنے کی بجائے اگر انہیں معاف کر دو ، ان سے در گزر کرو اور ان کی غلطیوں پر پردہ ڈال دو تو تمہارے لیے بہتر اور اللہ کو پسند ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ بےحد پردہ ڈالنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔ البتہ اس عفو و در گزر کے باوجود جتنی طاقت ہے اللہ کے تقویٰ پر قائم رہو اور انہیں اس کی تلقین کرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم میں یقینا بہت سی حکمتیں ہیں ، کیونکہ بعض اوقات آدمی کی سختی کی وجہ سے اولاد بغاوت پر اتر آتی ہے ، جب کہ عفو و در گزر ، مسلسل نصیحت اور خود تقویٰ پر قائم رہنے سے ان کی اصلاح کی توقع زیادہ ہوتی ہے۔ عکرمہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے ابن عباس ؓ سے اس آیت ”یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْہُمْ“ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا :”یہ اہل مکہ میں سے کچھ لوگ تھے جو مسلمان ہوگئے اور انہوں نے نبی ﷺ کے پاس آنے کا ارادہ کرلیا (یاد رہے کہ ان دنوں ہر مسلمان ہونے کے لیے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا فرض تھا) مگر انہیں ان کی بیویوں اور بچوں نے نہیں چھوڑا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے۔ پھر جب وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو انہوں نے دوسرے لوگوں کو دیکھا کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کرچکے تھے تو انہوں نے ارادہ کیا کہ اپنے بیوی بچوں کو سزا دیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔”(ترمذی ، التفسیر ، سورة التغابن : 3317 وقال الالبانی حسن)۔
Top