Anwar-ul-Bayan - At-Taghaabun : 14
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ١ۚ وَ اِنْ تَعْفُوْا وَ تَصْفَحُوْا وَ تَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : لوگو جو ایمان لائے ہو اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ : بیشک تمہاری بیویوں میں سے وَاَوْلَادِكُمْ : اور تمہارے بچوں میں سے عَدُوًّا : دشمن ہیں لَّكُمْ : تمہارے لیے فَاحْذَرُوْهُمْ : پس بچو ان سے وَاِنْ تَعْفُوْا : اور اگر تم معاف کردو گے وَتَصْفَحُوْا : اور درگزر کرو گے وَتَغْفِرُوْا : اور بخش دو گے فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ تعالیٰ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : غفور رحیم ہے
اے ایمان والو ! بیشک تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے تمہارے دشمن ہیں سو ان سے ہوشیار رہو، اور اگر تم معاف کرو اور درگزر کرو اور بخش دو سو بلاشبہ اللہ غفور ہے رحیم ہے
بعض ازواج اور اولاد تمہارے دشمن ہیں : چوتھی نصیحت یہ فرمائی کہ تمہاری بیویوں اور اولاد میں ایسے (بھی) ہیں جو تمہارے دشمن ہیں لہٰذا تم ان سے ہوشیار رہو۔ فطری اور طبعی طور پر انسان کو نکاح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جب نکاح ہوجاتا ہے تو اولاد بھی ہوتی ہے۔ میاں بیوی کی آپس میں محبت ہوتی ہے اور اولاد سے محبت ہونا امر طبعی ہے، اسلام نے بھی ان محبتوں کو باقی رکھا ہے لیکن اس کے لئے ایک حد بندی بھی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا حق سب پر مقدم ہے، بیوی ہو یا شوہر بیٹا ہو یا بیٹی ہر ایک سے اتنی ہی محبت کی جاسکتی ہے جس کی وجہ سے اسلامی احکام پر چلنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ شریعت اسلامیہ کے مطابق چلتے رہیں۔ معالم التنزیل میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ مکہ معظمہ میں کچھ لوگ مسلمان ہوگئے تھے جب انہوں نے مدینہ منورہ کے لئے ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کی ازواج اور اولاد نے انہیں ہجرت سے روک دیا اور یوں کہا کہ ہم نے تمہارے مسلمان ہونے پر صبر کرلیا لیکن تمہاری جدائی پر صبر نہیں کرسکتے ان کی یہ بات سن کر انہوں نے ہجرت کا ارادہ چھوڑ دیا۔ اس پر آیت کریمہ : ﴿ اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ 1ۚ ﴾ نازل ہوئی اور دوسرا سبب نزول یہ لکھا کہ حضرت عوف بن مالک الاشجعی ؓ بال بچہ دار تھے وہ جب جہاد کے لئے جانے کا ارادہ کرتے تو یہ لوگ رونے لگتے اور یوں کہتے کہ آپ ہمیں کس پر چھوڑے جارہے ہیں ؟ یہ سن کر انہیں ترس آجاتا تھا اور جہاد کی شرکت سے رہ جاتے تھے اس پر آیت بالا نازل ہوئی جس میں یہ بتادیا کہ بیوی بچے تمہیں نیک کام کرنے سے روکتے ہیں ان کی طرف سے ہوشیار رہو اور ان کی بات نہ مانو، دونوں روایتوں میں کوئی منافات نہیں ہے۔ لفظ ازواج جمع ہے زوج کی، یہ لفظ شوہر اور بیوی دونوں کے لئے بولا جاتا ہے لہٰذا آیت کریمہ کے عموم الفاظ سے معلوم ہوگیا کہ ہر شخص اس کا اہتمام کرے بیوی ہو یا شوہر آپس میں ایک دوسرے کی وجہ سے یا اولاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے نافرمان نہ ہوجائیں۔ بیوی بچوں کی محبت میں اپنی جان کو ہلاکت میں نہ ڈالیں : بیوی اور شوہر اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق چلیں اور اولاد کو بھی اسی پر چلائیں، اللہ کی نافرمانی نہ شوہر کرے نہ بیوی کرے اور نہ اولاد کو کرنے دیں، اگر ازواج اور اولاد سے اتنی محبت کی کہ اللہ کے فرائض اور واجبات چھوٹنے لگے تو ان لوگوں کی محبت خود اپنے حق میں دشمن بن جائے گی پھر اس دشمنی کا مظاہرہ میدان حشر میں ہوگا ان کی وجہ سے جو گناہ كئے ان پر مواخذہ اور عذاب ہوگا۔ یہ انسان کی بیوقوفی ہے کہ بیوی بچوں کے لئے كمائے اور انہیں کھلائے پلائے لیکن اس میں حلال و حرام کا خیال نہ رکھے۔ حرام کمانے کا بھی گناہ اپنے سرلے اور حرام کھانے اور کھلانے کا بھی اور ان کی وجہ سے قیامت کے دن عذاب میں مبتلا ہوجائے۔ دنیا میں دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ بیوی بچوں کی خواہش اور ضد کی وجہ سے گناہ کرلیتے ہیں سود پر قرض بھی لیتے ہیں دوسروں کے اموال میں خیانت بھی کرلیتے ہیں فضول خرچی بھی کرتے ہیں ہر تقریب میں بیوی کو نیا جوڑا پہنانے کے لئے ادھار بھی لیتے ہیں اور رشوت لے کر بھی گھر والوں کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ اور ان سب کا وبال اپنے سرلیتے ہیں، بیوی بچوں کو اس سے بحث نہیں کہ ہمارے ذمہ دار کا آخرت میں کیا بنے گا۔ انہیں تو اپنے نفس کے تقاضے پورے کرنا ہے، اگر اللہ کے قانون کو نہ دیکھا اور بیوی بچوں کی فرمائشیں پوری کردیں جن میں گناہوں کا ارتکاب کیا، پھر قیامت کے دن عذاب میں مبتلا ہوئے تو یہ کہاں کی سمجھداری ہے اس وقت یہ بیوی بچے دشمن نظر آئیں گے اور یہ سمجھ میں آجائے گا کہ انہوں نے میرے ساتھ دشمنوں والا برتاؤ کیا یہ مجھے نصیحت کر کے اللہ تعالیٰ کے دین پر چلنے کی تاکید کرتے اور حرام چیزوں سے اور حرام کاموں سے روکتے انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنی خواہشوں کو پورا کرنے میں مجھے رگڑ دیا اور مجھے حرام کاموں میں لگا دیا : (قال صاحب الروح قال غیر واحد ان عداوتھم من حیث انھم یحولون بینھم و بین الطاعات والامور النافعة لھم فی آخر تھم وقد یحملونھم علی السعی فی اکتساب الحرام و ارتکاب الاثم لمنفعة انفسھم ) ۔ یہ بیوی بچوں کی عام حالت ہے اور بہت سے اولاد اور ازدواج ایسے بھی ہوتے ہیں جو خیر کی دعوت دیتے ہیں اور خیر پر چلاتے ہیں اس لئے ﴿ اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ ﴾ فرمایا کہ تمہارے ازواج اور اولاد میں سے تمہارے دشمن (بھی) ہیں تو تم ان سے ہوشیار رہو۔ یہ نہیں فرمایا کہ سب ہی اولاد اور ازواج دشمن ہیں۔ معاف اور درگزر کرنے کی تلقین : ﴿وَ اِنْ تَعْفُوْا وَ تَصْفَحُوْا وَ تَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ0014﴾ اور اگر تم معاف کرو اور درگزر کرو اور بخش دو سو اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔ بعض مرتبہ بیویوں کی اور اولاد کی فرمائشیں ایسی ہوتی ہیں کہ کبھی تو نفس کو فرمائش ہی ناگوار گزرتی ہے اور کبھی ان کو پورا کرنے کا موقع نہیں ہوتا ایسی صورت میں بھی طبیعت کونا گواری ہوتی ہے ارشاد فرمایا کہ اگر تم انہیں معاف کردو اور درگزر کردو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے مہربان ہے تم ان کو معاف کردو گے تو یہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہارے گناہ معاف کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔ اللہ غفور ہے رحیم ہے اس کی مغفرت اور رحمت کے امید وار رہو۔
Top