Tafheem-ul-Quran - At-Taghaabun : 14
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ١ۚ وَ اِنْ تَعْفُوْا وَ تَصْفَحُوْا وَ تَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : لوگو جو ایمان لائے ہو اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ : بیشک تمہاری بیویوں میں سے وَاَوْلَادِكُمْ : اور تمہارے بچوں میں سے عَدُوًّا : دشمن ہیں لَّكُمْ : تمہارے لیے فَاحْذَرُوْهُمْ : پس بچو ان سے وَاِنْ تَعْفُوْا : اور اگر تم معاف کردو گے وَتَصْفَحُوْا : اور درگزر کرو گے وَتَغْفِرُوْا : اور بخش دو گے فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ تعالیٰ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : غفور رحیم ہے
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو۔ اور اگر تم عفوودرگزر سے کام لو اور معاف کردو تو اللہ غفور و رحیم ہے۔ 29
سورة التَّغَابُن 29 اس آیت کے دو مفہوم ہیں۔ ایک مفہوم کے لحاظ سے اس کا اطلاق ان بہت سی مشکلات پر ہوتا ہے جو خدا کی راہ پر چلنے میں بکثرت اہل ایمان مردوں کو اپنی بیویوں سے اور عورتوں کو اپنے شوہروں سے اور والدین کو اپنی اولاد سے پیش آتی ہیں۔ دنیا میں کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ ایک مرد کو ایسی بیوی اور ایک عورت کو ایسا شوہر ملے جو ایمان اور راست روی میں پوری طرح ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہوں، اور پھر دونوں کو اولاد بھی ایسی میسر ہو جو عقیدہ و عمل اور اخلاق و کردار کے اعتبار سے ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بنے۔ ورنہ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ شوہر اگر نیک اور ایماندار ہے تو بیوی اور اولاد اسے ایسی ملتی ہے جو اس کی دیانت و امانت اور راست بازی کو اپنے حق میں بد قسمتی سمجھتی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ شوہر اور باپ ان کی خاطر جہنم مول لے اور ان کے لیے حرام و حلال کی تمیز چھوڑ کر ہر طریقے سے عیش و طرب اور فسق و فجور کے سامان فراہم کرے۔ اور اس کے برعکس بسا اوقات ایک نیک مومن عورت کو ایسے شوہر سے سابقہ پیش آتا ہے جسے اس کی پابندی شریعت ایک آنکھ نہیں بھاتی، اور اولاد بھی باپ کے نقش قدم پر چل کر اپنی گمراہی اور بد کرداری سے ماں کی زندگی اجیرن کردیتی ہے۔ پھر خصوصیت کے ساتھ جب کفر و دین کی کشمکش میں ایک انسان کے ایمان کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے دین کی خاطر نقصانات برداشت کرے، طرح طرح کے خطرات مول لے، ملک چھوڑ کر ہجرت کر جائے، یا جہاد میں جا کر اپنی جان تک جوکھوں میں ڈال دے، تو سب سے بڑھ کر اس کی راہ میں اس کے اہل و عیال ہی رکاوٹ بنتے ہیں۔ دوسرے مفہوم کا تعلق ان مخصوص حالات سے ہے جو ان آیات کے نزول کے زمانہ میں بکثرت مسلمانوں کو پیش آرہے تھے اور آج بھی ہر اس شخص کو پیش آتے ہیں جو کسی غیر مسلم معاشرے میں اسلام قبول کرتا ہے۔ اس وقت مکہ معظمہ میں اور عرب کے دوسرے حصوں میں عموماً یہ سورت پیش آتی تھی کہ ایک مرد ایمان لے آیا ہے، مگر بیوی بچے نہ صرف اسلام قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، بلکہ خود اس کو اسلام سے پھیر دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ اور ایسے ہی حالات سے ان خواتین کو سابقہ پیش آتا تھا جو اپنے خاندان میں اکیلی اسلام قبول کرتی تھیں۔ یہ دونوں قسم کے حالات جن اہل ایمان کو در پیش ہوں انہیں خطاب کرتے ہوئے تین باتیں فرمائی گئی ہیں سب سے پہلے انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ دنیوی رشتے کے لحاظ سے اگرچہ یہ لوگ وہ ہیں جو انسان کو سب سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں، لیکن دین کے لحاظ سے یہ تمہارے " دشمن " ہیں۔ یہ دشمنی خواہ اس حیثیت سے ہو کہ وہ تمہیں نیکی سے روکتے اور بدی کی طرف مائل کرتے ہوں یا اس حیثیت سے کہ وہ تمہیں ایمان سے روکتے اور کفر کی طرف کھینچتے ہوں، یا اس حیثیت سے کہ ان کی ہمدردیاں کفار کے ساتھ ہوں اور تمہارے ذریعہ سے اگر کوئی بات بھی مسلمانوں کے جنگی رازوں کے متعلق ان کے علم میں آجائے تو اسے اسلام کے دشمنوں تک پہنچا دیتے ہوں، اس سے دشمنی کی نوعیت و کیفیت میں تو فرق ہوسکتا ہے، لیکن بہر حال یہ ہے دشمنی ہی، اور اگر تمہیں ایمان عزیز ہو تو اس لحاظ سے تمہیں ان کو دشمن ہی سمجھنا چاہیے، ان کی محبت میں گرفتار ہو کر کبھی اس بات کو نہ بھولنا چاہیے کہ تمہارے اور ان کے درمیان ایمان و کفر، یا طاعت و معصیت کی دیوار حائل ہے۔ اس کے بعد فرمایا گیا کہ ان سے ہوشیار رہو۔ یعنی ان کی دنیا بنانے کے لیے اپنی عاقبت برباد نہ کرلو۔ ان کی محبت کو کبھی اپنے دل میں اس حد تک نہ بڑھنے دو کہ وہ اللہ و رسول کے ساتھ تمہارے تعلق اور اسلام کے ساتھ تمہاری وفاداری میں حائل ہوجائیں۔ ان پر کبھی اتنا اعتماد نہ کرو کہ تمہاری بےاحتیاطی سے مسلمانوں کی جماعت کے اسرار انہیں معلوم ہوجائیں اور وہ دشمنوں تک پہنچیں۔ یہ وہی بات ہے جس سے رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث میں مسلمانوں کو خبر دار کیا ہے کہ یُؤْتیٰ برجلٍ یوم القیٰمۃ فیقال اکل عیالہ حَسَنا تِہٖ۔ " ایک شخص قیامت کے روز لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس کے بال بچے اس کی ساری نیکیاں کھا گئے "۔ آخر میں فرمایا گیا کہ " اگر تم عفو و در گزر سے کام لو اور معاف کردو تو اللہ غفور و رحیم ہے "۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی دشمنی سے تمہیں صرف اس لیے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ تم ان سے ہوشیار رہو اور اپنے دین کو ان سے بچنے کی فکر کرو۔ اس سے آگے بڑھ کر اس تنبیہ کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ بیوی بچوں کو مارنے پیٹنے لگو، یا ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ، یا ان کے ساتھ تعلقات میں ایسی بد مزگی پیدا کرلو کہ تمہاری اور ان کی گھریلو زندگی عذاب بن کر رہ جائے۔ یہ اس لیے کہ ایسا کرنے کے دو نقصانات بالکل واضح ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے بیوی بچوں کی اصلاح کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوجانے کا خطرہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اس سے معاشرے میں اسلام کے خلاف الٹی بدگمانیاں پیدا ہو سکتی ہیں اور گرد و پیش کے لوگوں کی نگاہ میں مسلمان کے اخلاق و کر دار کی یہ تصویر بنتی ہے کہ اسلام قبول کرتے ہی وہ خود اپنے گھر میں اپنے بال بچوں تک کے لیے سخت گیر اور بد مزاج بن جاتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ابتدائے اسلام میں جب لوگ نئے نئے مسلمان ہوتے تھے، تو ان کو ایک مشکل اس وقت پیش آتی تھی جب ان کے والدین کافر ہوتے تھے اور وہ ان پر دباؤ ڈالتے تھے کہ اس نئے دین سے پھرجائیں۔ اور دوسری مشکل اس وقت پیش آتی جب ان کے بیوی بچے (یا عورتوں کے معاملہ میں ان کے شوہر اور بچے) کفر پر قائم رہتے اور دین حق کی راہ سے انہیں پھیرنے کی کوشش کرتے تھے۔ پہلی صورت کے متعلق سورة عنکبوت (آیت 8) اور سورة لقمان (آیات 14۔ 15) میں یہ ہدایت فرمائی گئی کہ دین کے معاملہ میں والدین کی بات ہرگز نہ مانو، البتہ دنیا کے معاملات میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہو۔ دوسری صورت کا حکم یہاں بیان کیا گیا ہے کہ اپنے دین کو تو اپنے بال بچوں سے بچانے کی فکر ضرور کرو، مگر ان کے ساتھ سخت گیری کا برتاؤ نہ کرو، بلکہ نرمی اور عفو و در گزر سے کام لو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، التوبہ، آیات 23۔ 24۔ جلد پنجم، المجادلہ، حاشیہ 37۔ الممتحنہ، حواشی 1 تا 3۔ المنافقون، حاشیہ 18
Top