Al-Quran-al-Kareem - Al-Haaqqa : 40
اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍۚۙ
اِنَّهٗ : بیشک وہ لَقَوْلُ : البتہ ایک بات ہے رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ : معزز فرشتے کی
بلاشبہ یہ (قرآن) یقینا ایک معزز پیغام لانے والے کا قول ہے۔
(1) انہ لقول رسول کریم …: یہ چار آیات جواب قسم ہیں، پہلی یہ کہ یہ قرآن ایک معزز پیغام لانے والے کا قول ہے، دوسری یہ کہ یہ کسی شاعر کا قول نہیں، تیسری یہ کہ یہ کسی کا ہن کا قول بھی نہیں اور چوتھی یہ کہ یہ رب العالمین کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ اس قسم اور جواب قسم میں مناسب یہ ہے کہ جو کچھ تم دیکھ رہے ہو وہ انچ اورں چیزوں کے حق ہونے کی شہادت دے رہا ہے اور جو کچھ تم نہیں دیکھ رہے اس کی شہادت بھی یہی ہے۔ جو کچھ وہ دیکھ رہے تھے وہ یہ بات جاننے کے لئے کافی تھا کہ یہ قرآن جس شخص کی زبان سے ادا ہو رہا ہے وہ نہ شاعر ہے نہ کاہن، نہ جھوٹا ہے نہ اپنے پاس سے بات گھڑنے والا اور نہ کسی ذاتی مفاد یا عہدے کا طالب، بلکہ وہ اللہ کا معزز رسول ہے۔ یہی بات ہرقل نے کہی تھی، جب اس نے ابوسفیان سے آپ کے متعلق سوال کئے اور ابوسفیان کو آپ کے اوصاف حمیدہ کی شہادت دینا پڑی۔ (دیکھیے بخاری : 7) اور یہی بات آپ نے اللہ کے حکم سے اہل مکہ سے کہی تھی :(فقد لبثت فیکم عمر ا من قبلہ افلا تعقلون) (یونس : 16) (فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون) (یونس : 16)”اعلان نبوت سے پہلے میں نے (چالیس سال کی) ایک عمر تم میں گزاری ہے، کیا تم عقل نہیں کرتے ؟“ وہ رسول اللہ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق، صدق و امانت، ایفائے عہد اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی کو بھی دیکھ رہے تھے اور شاعروں کے جھوٹ ، مبالغے قول و فعل کے تضاد اور خوشامد و تملق جیسی کمینگیوں کو بھی جانتے تھے۔ (2) انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی کہی ہوئی باتوں کا بھی مشاہدہ کیا تھا کہ نہ مضای کے متعلق آپ کی بتائی ہوئی کوئی بات خلاف واقعہ نلکی نہ آئندہ کے متعلق آپ کی کوئی پیش گوئی غلط ثابت ہوئی اور کاہنوں کی غیب کے متعلق بتائی باتوں کا بھی تجربہ کیا تھا کہ ان کی ملا اعلیٰ سے چرئیا ہوئی کوئی ایک بات اگر درست نکلتی ہے تو سو باتیں جھوٹ بھی نکلتی ہیں۔ شاعروں اور کاہنوں کے مقابلے میں آپ کے احوال کا مشاہدہ اس بات کے یقین کے لئے کافی تھا کہ آپ نہ شاعر ہیں نہ کاہن۔ انہیں اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز تھا، مگر وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ قرآن مجید کے چیلنج کے باوجود وہ اس کے مقابلے میں ایک چھوٹی سی سورت بھی نہیں لاسکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کچھ تم دیکھتے ہو وہ بھی شادت دے رہا ہے کہ یہ قرآن ایک معزز رسول کی زبان سے پہنچایا جا رہا ہے۔ یہ نہ کسی شاعر کا کلام ہے، نہ کاہن کا اور جو کچھ تم نہیں دیکھتے خواہ وہ عقل سے سمجھ میں آنے والی چیزیں ہوں، جو حواس خمسہ کی دسترس سے باہر ہیں یا عقل سے بھی ماورا ہوں، سب کی شہادت وہی ہے جو تمہاری دیکھی ہوئی چیزوں کی ہے۔ میں ہر چیز کو پیدا کرنے والا اس بات پر تمہاری دیکھی ہوئی اور تمہاری نہ دیکھی ہوئی تمام چیزوں کی قسم اٹھاتا ہوں۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس مقام پر قرآن کو رسول اللہ ﷺ کا قول قرار دیا گیا ہے، جب کہ سورة مدثر (25) جواب یہ ہے کہ سورة مدثر میں جہنم کی وعید اس لئے سنئای گئی کہ اس شخص نے قرآن کو بشر کا اپنا قول قرار دیا تھا، جب کہ زیر تفسیر آیت میں اسے بشر کا یا انسان کا اپنا قول نہیں کہا گیا بلکہ اسے رسول کریم ، یعنی ایک معزز پیغام لانے والے کا قول کہا گیا ہے۔ ظاہر ہے پیغام لانے والے کی بات اپنی نہیں ہوتی بلکہ اسے جو پیغام دے کر بھیجا جاتا ہے وہ اسے آگے پہنچا دیتا ہے۔ اگر وہ اپنی بات کرتا ہے تو وہ رسول نہیں۔ اس کی ایک اور دلیل بعد میں آنے والی آیت ”تنزیل من رب العلمین“ (یہ رب العالمین کی طرف سے اتارا گیا ہے) بھی ہے۔ بشر کی اپنی بات میں اور قاصد نہ ہونے کی حیثیت سے پہنچائی ہوئی بات میں جو فرق ہے وہ بالکل واضح ہے۔ سورة تکویر میں جو قرآن مجید کو ”رسول کریم“ کا قول قرار دیا گیا ہے، وہاں اس سے مراد جبریل ؑ ہیں۔ کیونکہ وہاں انھی کی صفتیں بیان ہوئی ہیں، مثلاً (ذی قوۃ عند ذی العرش مکین ، مطلع ثم امین) (التکویر : 20، 21)”بڑی قوت والا ہے، عرش والے کے ہاں بہت متر بےوالا ہے۔ وہاں اس کی بات مانی ہوئی ہے، امانت دار ہے۔“ بعض مفسرین نیی ہاں بھی جبریل ؑ مراد لیء ہیں مگر یہاں نبی ﷺ مرادل ینا زیادہ مناسب ہے، کیونکہ یہاں قرآن کو رسول کریم کا قول قرار دینے کے بعد فرمایا، یہ کسی شاعر یا کاہن کا قول نہیں۔ ظاہر ہے کہ کفار مکہ جبریل ؑ کو نہیں بلہ نبی کریم ﷺ کو شاعر و کاہن قرار یدتے تھے۔ بہرحال اسے جبریل ؑ کا قول قرار دیا جائے یا رسول اللہ ﷺ کا، دونوں صورتوں میں ان کا قول اس حیثیت سے ہے کہ وہ رسول تھے اور انہوں نے وہی آگے پہنچایا جو دے کر انہیں بھیجا گیا تھا۔ ”کا ھن“ ستاروں وغیرہ کا حساب لگا کر یاج نوں سے سن کر غیب کی خبریں بتانے والا۔
Top