Tafheem-ul-Quran - Al-Haaqqa : 40
اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍۚۙ
اِنَّهٗ : بیشک وہ لَقَوْلُ : البتہ ایک بات ہے رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ : معزز فرشتے کی
یہ ایک رسولِ کریم کا قول ہے، 22
سورة الْحَآقَّة 22 یہاں رسول کریم سے مراد محمد ﷺ ہیں اور سورة تکویر (آیت 19) میں اس سے مراد جبریل ؑ ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہاں قرآن کو رسول کریم کا قول کہنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ یہ کسی شاعر یا کاہن کا قول نہیں ہے، اور ظاہر ہے کہ کفار مکہ جبریل کو نہیں بلکہ محمد ﷺ کو شاعر اور کاہن کہتے تھے۔ بخلاف اس کے سورة تکویر میں قرآن کو رسول کریم کا قول کہنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ وہ رسول بڑی قوت والا ہے، صاحب عرش کے ہاں بلند مرتبہ رکھتا ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے، وہ امانت دار ہے اور محمد ﷺ نے اس کو روشن افق پر دیکھا ہے۔ قریب قریب یہی مضمون سورة نجم آیات نمبر 5 تا 10 میں جبریل ؑ کے متعلق بیان ہوا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کو محمد ﷺ اور جبریل کا قول کس معنی میں کہا گیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ اس کو حضور ﷺ کی زبان سے اور حضور ﷺ اسے جبریل کی زبان سے سن رہے تھے، اس لیے ایک لحاظ سے یہ حضور ﷺ کا قول تھا اور دوسرے لحاظ سے جبریل کا قول، لیکن آگے چل کر یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ فی الاصل یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے جو محمد ﷺ کے سامنے جبریل ؑ کی زبان سے، اور لوگوں کے سامنے محمد ﷺ کی زبان سے ادا ہو رہا ہے۔ خود رسول کا لفظ بھی اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ان دونوں کا اپنا کلام نہیں ہے بلکہ پیغام بر ہونے کی حیثیت سے انہوں نے اس پیغام بھیجنے والے کی طرف سے پیش کیا ہے۔
Top