Tafseer-e-Majidi - Al-Haaqqa : 40
اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍۚۙ
اِنَّهٗ : بیشک وہ لَقَوْلُ : البتہ ایک بات ہے رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ : معزز فرشتے کی
یہ (قرآن) کلام (الہی) ہے ایک معزز فرشتہ کا (لایا ہوا) ،15۔
15۔ یعنی موجودات مرئی وغیر مرئی سب اس پر شاہد ہیں کہ قرآن جس پر آیا وہ حق تعالیٰ کا معزز قاصد ہے۔ قسم کے متعلق بار بار بیان ہوچکا ہے کہ عربی اسلوب بیان میں اس سے مقصود محض تاکید کلام ہوتی ہے۔ (آیت) ” بما ...... لا تبصرون “۔ قرآن مجید کو دنیا میں لانے والا ایک غیر مرئی مخلوق یعنی فرشتہ تھا، اور دنیا کے سامنے اس کا پیش کرنے والا ایک مرائی مخلوق یعنی پیغمبر۔ اس لئے حقانیت قرآن کے سلسلہ سیاق میں موجودات کی ان دو قسموں کی طرف توجہ دلانا بہت پر معنی ہے۔ (آیت) ” رسول کریم “۔ رسول کا استعمال اس سیاق میں فرشتہ جبرئیل کے لئے ہے۔ والاکثرون ھناک علی ان المراد بہ جبریل (علیہ السلام) (کبیر) قال ابن السائب ومقاتل وابن قتیبۃ ھو جبریل (علیہ السلام) (بحر) قرآن کا انتساب حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کی جانب بھی صحیح ہے کہ وہی آسمان سے اس کے لانے والے تھے، اور رسول اللہ ﷺ کی جانب بھی صحیح کہ وہی ہم سب کو سنانے والے تھے۔ نعوذ باللہ اگر اسے فرشتہ ہی کا مستقل کلام قرار دے لیا جائے، تو اس کا وصف اسمی رسول ہی باطل ٹھہرا جاتا ہے، یکفی فی سوق الاضافۃ ادنی سبب فھو کلام جبرئیل (علیہ السلام) بمعنی انہ ھو الذی انزلہ من السموات الی الارض وھو کلام محمد بمعنی انہ ھو الذی اظھرہ للخلق ودعا الناس الی الایمان بہ (کبیر)
Top