Tadabbur-e-Quran - Al-Haaqqa : 40
اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍۚۙ
اِنَّهٗ : بیشک وہ لَقَوْلُ : البتہ ایک بات ہے رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ : معزز فرشتے کی
کہ یہ ایک با عزت رسول کا لایا ہوا کلام ہے
قرآن کے لانے والے کی صفات: ’اِنَّہُ لَقَوْلُ رَسُولٍ کَرِیْمٍ‘ سے جبریل امینؑ مراد ہیں۔ صفت ’کریم‘ کے لانے سے یہاں مقصود مخالفوں کے اس وہم کی تردید ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ فرمایا کہ جو یہ کلام لاتا ہے وہ کوئی جن یا شیطان نہیں ہے، جیسا کہ تم کہتے ہو، بلکہ اللہ کا باعزت رسول ہے۔ بعینہٖ اسی طرح کے سیاق و سباق میں یہی بات سورۂ تکویر میں بھی فرمائی گئی جس سے اس رائے کی تائید ہوتی ہے: إِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ ۵ ذِیْ قُوَّۃٍ عِنۡدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ ۵ مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِیْنٍ (التکویر ۸۱: ۱۹-۲۱) ’’بے شک یہ ایک رسول گرامی کا لایا ہوا کلام ہے۔ وہ قوت والا اور عرش والے کے نزدیک معتمد ہے۔ اس کی اطاعت کی جاتی ہے۔ مزید برآں وہ نہایت امانت دار ہے۔‘‘ سورۂ شعراء میں بھی منکرین کے اس الزام کی ہر پہلو سے تردید ہوئی ہے۔ مزید وضاحت مطلوب ہو تو ایک نظر اس پر بھی ڈال لیجیے۔
Top