Al-Quran-al-Kareem - An-Naba : 38
یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ صَفًّا١ۙۗؕ لَّا یَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا
يَوْمَ : جس دن يَقُوْمُ الرُّوْحُ : قیام کریں گے روح/ روح الامین وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے صَفًّا ٷ : صف در صف لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ : نہ کلام کرسکیں گے/ نہ بات کرسیں گے اِلَّا : مگر مَنْ اَذِنَ : جس کو اجازت دے لَهُ : اس کے لئے الرَّحْمٰنُ : رحمن وَقَالَ صَوَابًا : اور وہ کہے درست بات
جس دن روح اور فرشتے صف بنا کر کھڑے ہوں گے، وہ کلام نہیں کریں گے، مگر وہی جسے رحمان اجازت دے گا اور وہ درست بات کہے گا۔
38۔ (1) یوم یقوم الروح والملٓئکۃ صفاً…:”الروح“ سے مراد جبریل ؑ ہیں جیسا کہ فرمایا :(نزل بہ الروح الامین) (الشعرائ : 193)”اس (قرآن) کو امانت دار روح لے کر اترا ہے۔“ ان کا الگ ذکر ان کی شان کی عظمت کے اظہار کے لئے کیا گیا ہے، جیسا کہ سورة بقرہ میں ہے :(من کان عدواً للہ و ملٓئکتہ ورسلہ و جبرئیل ومیکل فان اللہ عدو للکفرین) (البقرۃ : 98)”جو کوئی اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکال کا دشمن ہو تو بیشک اللہ سب کافروں کا دشمن ہے۔“ دوسرا معنی جو لفظ سے ظاہر ہے بنو آدم کی ارواح ہیں۔ (2) صحیح احادیث کے مطابق یہ اس وقت کا ذکر ہے جب اللہ تعالیٰ نیک و بد کے فیصلے کے لئے آسمان سے زمین پر میدان محشر میں نزول فرمائے گا اور لوگ سورج کی گرمی اور پسینے سے گھبرا جائیں گے اور وہ آدم ؑ سے لے کر عیسیٰ ٰعلیہ السلام تک سب انبیاء کے پاس جائیں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں کہ حساب کتاب شروع ہو، لیکن کسی نبی کی جرأت اور طاقت اللہ تعالیٰ سے بات کرنے کی نہ ہوگی۔ آخر کار خاتم النبین محمد رسول اللہ ﷺ کو بات کرنے کا حکم ہوگا اور آپ کی شفاعت سے سب لوگوں کا حساب شروع ہوگا۔ (احسن الفاسیر) دیکھیے صحیح بخاری (7440، 7510)۔ (2) لایتکلمون الامن…: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے بات (سفارش) کرنے والوں کے لئے دو شرطیں ہیں، پہلی یہ کہ رحمان اسے بات (سفارش) کرنے کی اجازت دے ، جیسا کہ فرمایا :(من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ) (البقرۃ : 255)”کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے ؟“ دوسری یہ کہ وہ درست کرے، سفارش کرنے میں غلطی نہ کرے۔ مثلاً غیر سمتحق کی سفارش نہ کر بیٹھے، جیسا کہ ابراہیم ؑ اپنے والد آزر کے لئے سفارش نہیں کرسکیں گے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ جس کے حق میں اللہ تعالیٰ سے بات کی جائے اس کے لئے دو شرطیں ہیں، پہلی یہ کہ رحمان اس کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت دے، جیسا کہ فرمایا :(لایشفعون الا لمن ارتضیٰ) الانبیائ : 28)”وہ فرشتے صرف اسی کے لئے سفارش کرتے ہیں جسے رحمان پسند کرے۔“ دوسری یہ کہ ”قال صواباً“ یعنی دنیا میں اس نے درست بات کہی ہو، یعنی کلمہ توحید کہا ہو، مسلمان ہو۔ کافر و مشرک نے دنیا میں درست بات نہیں کہی ہوتی، اس لئے اس کے حق میں سفارش کی اجازت نہیں ملے گی۔ (جامع البیان)
Top