Tafheem-ul-Quran - An-Naba : 38
یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ صَفًّا١ۙۗؕ لَّا یَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا
يَوْمَ : جس دن يَقُوْمُ الرُّوْحُ : قیام کریں گے روح/ روح الامین وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے صَفًّا ٷ : صف در صف لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ : نہ کلام کرسکیں گے/ نہ بات کرسیں گے اِلَّا : مگر مَنْ اَذِنَ : جس کو اجازت دے لَهُ : اس کے لئے الرَّحْمٰنُ : رحمن وَقَالَ صَوَابًا : اور وہ کہے درست بات
جس روز رُوح 24 اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہوں گے، کوئی نہ بولے گا سوائے اُس کے جسے رحمٰن اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے۔ 25
سورة النَّبَا 24 اہل تفسیر کی اکثریت کا خیال یہی ہے کہ اس سے مراد جبرئیل ؑ ہیں اور ان کا جو بلند مرتبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے اس کی وجہ سے ملائکہ سے الگ ان کا ذکر کیا گیا ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ششم، المعارج، حاشیہ 3)۔ سورة النَّبَا 25 بولنے سے مراد شفاعت ہے، اور فرمایا گیا ہے کہ وہ صرف دو شرطوں کے ساتھ ممکن ہوگی۔ ایک شرط یہ کہ جس شخص کو جس گنہگار کے حق میں شفاعت کی اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی صرف وہی شخص اسی کے حق میں شفاعت کرسکے گا۔ دوسری شرط یہ کہ شفاعت کرنے والا بجا اور درست بات کہے، بےجا نوعیت کی سفارش نہ کرے، اور جس کے معاملہ میں وہ سفارش کر رہا ہو وہ دنیا میں کم از کم کلمہ حق کا قائل رہا ہو، یعنی محض گناہ کار ہو، کافر نہ ہو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ 281، جلد دوم، یونس، حاشیہ 5، ہود، حاشیہ 106، جلد سوم، مریم حاشیہ 52، طہٰ ، حواشیہ 85۔ 86۔ الانبیاء حاشیہ 27۔ جلد چہارم، سبا، حواشی 40۔ 41۔ المومن، حاشیہ 32۔ الزخرف، حاشیہ 68۔ جلد پنجم، النجم، حاشیہ 21۔ جلد ششم، المدثر، حاشیہ 36
Top