Tafseer-e-Majidi - An-Naba : 38
یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ صَفًّا١ۙۗؕ لَّا یَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا
يَوْمَ : جس دن يَقُوْمُ الرُّوْحُ : قیام کریں گے روح/ روح الامین وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے صَفًّا ٷ : صف در صف لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ : نہ کلام کرسکیں گے/ نہ بات کرسیں گے اِلَّا : مگر مَنْ اَذِنَ : جس کو اجازت دے لَهُ : اس کے لئے الرَّحْمٰنُ : رحمن وَقَالَ صَوَابًا : اور وہ کہے درست بات
اس دن جب کہ روح اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے، کوئی نہ بول سکے گا بجز اس کے کہ جس کو خدائے رحمن اجازت دے اور وہ کہے بھی ٹھیک (بات) ،15۔
15۔ (حق تعالیٰ کے حضور میں ادب وخشوع کے لوازم کے ساتھ (آیت) ” الروح “۔ روح سے اس سیاق میں مراد زی روح مخلوقات لی گئی ہے۔ (آیت) ” لا ..... الرحمن “۔ مسیحیوں اور بعض باطل مذہب والوں کے ہاں مرکزی عقیدہ شفاعت کا ہے۔ اور ” خدا کا بیٹا “۔ تو گویا شفیع ہی کے مستقل منصب پر فائز ہے۔ قرآن مجید اس باطل عقیدہ پر مختلف عنوانات سے مختلف مقامات میں ضرب لگاتا گیا ہے۔ (آیت) ” وقال صوابا “۔ یعنی اجازت حاصل کرنیکے بعد جب بولنا ہوگا، وہ بھی محدود ومقید ہوگا۔ یہ نہیں کہ جو کچھ اور جس طرح وہ چاہے بولنے لگ جائے۔
Top