Anwar-ul-Bayan - An-Naba : 38
یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ صَفًّا١ۙۗؕ لَّا یَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا
يَوْمَ : جس دن يَقُوْمُ الرُّوْحُ : قیام کریں گے روح/ روح الامین وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے صَفًّا ٷ : صف در صف لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ : نہ کلام کرسکیں گے/ نہ بات کرسیں گے اِلَّا : مگر مَنْ اَذِنَ : جس کو اجازت دے لَهُ : اس کے لئے الرَّحْمٰنُ : رحمن وَقَالَ صَوَابًا : اور وہ کہے درست بات
جس دن روح (الامین) اور فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہوں گے تو کوئی بول نہ سکے گا مگر جس کو (خدائے) رحمن اجازت بخشے اور اس نے بات بھی درست کہی ہو
(78:38) یوم یقوم القروح والملئکۃ صفا : آیت سابقہ نمبر 37 میں خطابا پر علامت وقف ج ہے جو وقف جائز کی علامت ہے اور یہاں ٹھہرنا بہتر ہے۔ اس صورت میں یوم ظرف ہے لا یتکلمون کا۔ بوجہ ظرفیت منصوب ہے۔ اس دن۔ یقوم مضارع واحد مذکر غائب۔ قیام مصدر (باب نصر) سے۔ وہ اٹھ کھڑا ہوگا یہاں بمعنی جمع ہے۔ وہ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ الروح : کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ (1) اس سے مراد ہے ارواح بنی آدم۔ (2) بنی آدم فی انفسہم۔ (3) خدا کی مخلوق میں سے بنی آدم کی شکل کی ایک مخلوق جو نہ فرشتے ہیں نہ بشر۔ (4) حضرت جبرئیل علیہ السلام۔ (5) القران (6) جمیع مخلوق کے بقدر ایک عظیم فرشتہ وغیرہ۔ (اضواء البیان) ا۔ ابن جریر نے ان جملہ اقوال میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے سے توقف کیا ہے ۔ ب۔ مودودی، پیر کرم شاہ، صاحب تفسیر مدارک، جمہور کے نزدیک حضرت جبریل (علیہ السلام) ہیں۔ ج۔ مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کے نزدیک تمام ذی ارواح۔ مولانا عبد الماجد دریا بادی (رح) کے نزدیک اس سیاق میں روح سے مراد ذی روح مخلوق لی گئی ہے۔ یقوم الروح والملئکۃ صفا کا اکثر نے مطلب لیا ہے کہ الروح ایک صف میں اور ملائکہ ایک صفت میں کھڑے ہوں گے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ الروح اور فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہوں گے۔ صفا یہ لایتکلمون کی ضمیر فاعل سے حال ہے ۔ صف یصف (باب نصر) کا مصدر ہے جس کے معنی صف باندھنے کے آتے ہیں اور خود قطار کے معنی میں بھی بطور اسم مستعمل ہے۔ صفوف جمع۔ قطاریں۔ صف باندھے۔ لا یتکلمون مضارع منفی جمع مذکر غائب تکلم (تفعل) مصدر۔ وہ بات نہیں کریں گے۔ الا۔ استثناء متصل۔ اے لا یتکلمون احد الا الماذون من الرحمن کوئی کلام نہ کرے گا سوائے ان کے جن کو الرحمن کی طرف سے اجازت دی گئی ہوگی اذن ماضی واحد مذکر غائب اذن (باب سمع) مصدر سے اس نے اجازت دی۔ وقال صوابا۔ اس کا عطف اذن پر ہے۔ صوابا۔ ٹھیک بات، حق، راست درست، خطاء کی ضد ہے۔ اور وہ کہے گا بھی حق بات، یعنی شفاعت یا شہادت کے سلسلہ میں اجازت پر وہ لگی چپڑی کہے بغیر سچی سچی اور بلا کم وکاست ٹھیک بات کہیگا۔
Top