Tafseer-e-Madani - An-Naba : 38
یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ صَفًّا١ۙۗؕ لَّا یَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا
يَوْمَ : جس دن يَقُوْمُ الرُّوْحُ : قیام کریں گے روح/ روح الامین وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے صَفًّا ٷ : صف در صف لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ : نہ کلام کرسکیں گے/ نہ بات کرسیں گے اِلَّا : مگر مَنْ اَذِنَ : جس کو اجازت دے لَهُ : اس کے لئے الرَّحْمٰنُ : رحمن وَقَالَ صَوَابًا : اور وہ کہے درست بات
جس روز کھڑے ہوں گے روح اور فرشتے (اس وحدہ لاشریک کے حضور) صف بستہ (اس قدر خشوع و خضوع کے ساتھ کہ) کوئی بول بھی نہ سکے گا مگر جس کو اجازت دی ہوگی (خدائے) رحمان نے اور وہ بات بھی ٹھیک کہے گا
(33) قیامت کے روز کوئی اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر اس کے حضور بول بھی نہیں سکے گا، سبحانہ و تعالیٰ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ وہاں پر بول بھی نہیں سکیں گے، جب تک کہ ان کو خدائے رحمن کی طرف سے اس کی اجازت نہ مل جائے اور وہ بات بھی صحیح نہ کہیں، اور جب فرشتوں کو بھی باوجود اتنی عظمت شان کے اس کا یارا، اور اس کی ہمت اور گنجائش نہ ہوگی تو پھر اور کون ہے جو وہاں بول سکے ؟ (المراغی وغیرہ) یا اڑ کے بیٹھ جائے اور مطالبہ منوا کر چھوڑے جس طرح کے کھلے مشرکوں کے علاوہ کلمہ گو مشرکوں کا بھی کہنا ہے۔ سو مشرکین نے جو اپنے زعم باطل کے مطابق فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دے کر انہی پر اعتماد کر رکھا تھا اور وہ انہی کی پوجا پاٹ پر تکیہ کیے ہوئے تھے، ان کے اس مشرکانہ عقیدہ کی اس ارشاد سے جڑ نکال دی گئی کہ فرشتے نہ خدا کی بیٹیاں ہیں اور نہ ان کو کوئی زور اور قوت حاصل ہے، پس اس طرح کی تمام خرافات مشرکوں کی اپنی ذہنی اختراع کا نتیجہ ہیں، ان میں سے کوئی بھی بات کسی کے کچھ بھی کام آنے والی نہیں اور جنہوں نے ایسی خرافات پر تکیہ کر رکھا ہے وہ سراسر دھوکہ میں ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اس روز معاملہ سب کا سب اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہوگا جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے میں ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْْئاً وَالْأَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلَّہِ ( الانفطار 19 پ 30) یعنی اس روز معاملہ سب کا سب اللہ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہوگا۔ اللہ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں بات کرنے کے لیے دو شرطیں ضروری ہوں گی، ایک اذن اور دوسرے یہ کہ وہ بات بھی درست کرے، کہ وہ شفاعت اور سفارش اس شخص کے حق میں کرے جو سا کا اہل ہو، جس کے لیے اولیں اور بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ مومن ہو، کہ کافر اور مشرک کے لیے شفاعت کی اجازت نہ ہوگی جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا یَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَۃُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَہُ الرَّحْمَنُ وَرَضِیَ لَہُ قَوْلاً (طہ 109 پ 16) یعنی اس روز سفارش کچھ کام نہ آسکے گی سوائے اس شخص کے جس کو خدائے رحمان نے اجازت دی ہو اور وہ بات بھی ایسی کرے جو اس وحدہ لا شریک کو پسند ہو، پس جو مشرک اس طرح کے کسی خبط میں مبتلا ہیں کہ ان کے خود ساختہ شرکاء و شفاء خداوند قدوس کے یہاں اڑ کر بیٹھ جائیں گے اور ان کو بخشوا کر چھوڑیں گے اور وہ نازو تدلل سے اپنی بات منوا کر رہیں گے۔ اور یہ کہ ان کے حق میں ان کی سفارش رد نہیں کی جائیں گے وغیرہ۔ تو یہ سب کچھ خام خیالی اور دھوکے کا سامان ہے، اور جو لوگ اس طرح کی خام خیالیوں میں مبتلا ہیں وہ بڑے ہولناک خسارے میں پڑے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رحمت رضا و خوشنودی کی راہوں پر قائم رکھے۔ آمین ثم آمین۔ یا رب العالمین، و یا ارحم الراحمین، ویا اکرم الاکرمین۔
Top