Al-Quran-al-Kareem - At-Tawba : 112
اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلتَّآئِبُوْنَ : توبہ کرنے والے الْعٰبِدُوْنَ : عبادت کرنے والے الْحٰمِدُوْنَ : حمدوثنا کرنے والے السَّآئِحُوْنَ : سفر کرنے والے الرّٰكِعُوْنَ : رکوع کرنے والے السّٰجِدُوْنَ : سجدہ کرنے والے الْاٰمِرُوْنَ : حکم دینے والے بِالْمَعْرُوْفِ : نیکی کا وَالنَّاهُوْنَ : اور روکنے والے عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برائی وَالْحٰفِظُوْنَ : اور حفاظت کرنے والے لِحُدُوْدِ اللّٰهِ : اللہ کی حدود وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دو الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
(وہ مومن) توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، برائی سے منع کرنے والے اور اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور ان مومنوں کو خوش خبری دے دے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سچے مجاہد مومنوں کی نو صفات بیان فرمائی ہیں۔ پہلی چھ صفات میں صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہے، ساتویں اور آٹھویں صفت کا تعلق مخلوق سے ہے اور آخری کا تعلق دونوں سے ہے۔ اَلتَّاۗىِٕبُوْنَ : اپنے گناہوں پر نادم ہو کر ان کو چھوڑنے کا عزم کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے والے، کیونکہ توبہ ان تینوں کے جمع ہونے سے مکمل ہوتی ہے۔ میدان قتال میں توبہ و استغفار سے زیادہ کوئی چیز مفید نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے نبیوں کے ہمراہ قتال کرنے والوں کی دعا ذکر فرمائی : (وَمَا كَانَ قَوْلَھُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِيْٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ) [ آل عمران : 147 ] ”اور ان کا کہنا اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انھوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہمارے گناہ بخش دے اور ہمارے کام میں ہماری زیادتی کو بھی اور ہمارے قدم ثابت رکھ اور کافر لوگوں پر ہماری مدد فرما۔“ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ : مشکل اور آسانی، خوشی اور ناخوشی، آرام اور تکلیف ہر حال میں اللہ کی عبادت کرنے والے اور ہر حال میں اس کی تعریف کرنے والے اور اس پر راضی رہنے والے۔ السَّاۗىِٕحُوْنَ : ”سَاحَ یَسِیْحُ سِیَاحَۃً“ کا معنی پانی کا زمین پر چلنا، پھیل جانا۔ ”اَلسِّیَاحَۃُ“ عبادت کے لیے (گھر بار چھوڑ کر) زمین میں نکل جانا۔ (قاموس) چونکہ اس میں آرام و آسائش کا ترک اور دنیا کا ترک پایا جاتا ہے۔ نصرانیت میں اس نے رہبانیت کی صورت اختیار کی جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا، چناچہ فرمایا : (وَرَهْبَانِيَّةَۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ) [ الحدید : 27 ]”اور رہبانیت (دنیا سے کنارہ کشی) تو انھوں نے خود ایجاد کرلی، ہم نے اسے ان پر نہیں لکھا تھا۔“ اب اس کی صورت اللہ تعالیٰ کی خاطر ہجرت (وطن چھوڑنا) ہے کہ جہاں اللہ کے دین پر عمل نہ کرسکے، نہ اس کی دعوت دے سکے، اسے چھوڑ کر اللہ کی زمین میں کہیں اور نکل جائے۔ دیکھیے سورة نساء (97 تا 100) ، زمر (10) اور عنکبوت (53) ایک صورت جہاد فی سبیل اللہ ہے جس میں مجاہد گھر سے نکل کر آرام و آسائش ترک کرکے اللہ کا نام بلند کرنے کے لیے اللہ کی زمین کے مشکل سے مشکل اور خوبصورت سے خوبصورت مقامات پر پھرتا ہے اور ہر جگہ اللہ کا بول بالا کرتا ہے۔ ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا : ”یا رسول اللہ ! مجھے سیاحت کی اجازت دیجیے۔“ نبی ﷺ نے فرمایا : (اِنَّ سِیَاحَۃَ اُمَّتِی الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ) ”میری امت کی سیاحت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔“ [ أبوداوٗد، الجھاد، باب فی النھی عن السیاحۃ : 2486، و صححہ الألبانی ] بعض علماء کے مطابق ”السَّاۗىِٕحُوْنَ“ میں وہ طالب علم بھی آجاتے ہیں جو اللہ کا دین سیکھنے کے لیے شہر بہ شہر سفر کرتے ہیں۔ ایک صورت ”السَّاۗىِٕحُوْنَ“ کی روزہ کی ہے کہ اس میں انسان تمام گناہ چھوڑنے کے ساتھ اپنی سب سے زیادہ مرغوب تین چیزیں کھانا پینا اور بیوی سے مباشرت ترک کردیتا ہے۔ ”السَّاۗىِٕحُوْنَ“ کا معنی ”روزہ رکھنے والے“ ابن عباس، ابن مسعود ؓ اور کئی تابعین سے آیا ہے۔ (ابن کثیر) ابوہریرہ ؓ سے ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اَلسَّاءِحُوْنَ ھُمُ الصَّاءِمُوْنَ) ”سائحون روزہ دار ہی ہیں۔“ مستدرک وغیرہ مگر شیخ البانی ؓ نے سلسلہ ضعیفہ (3729) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ شاہ عبد القادر ؓ فرماتے ہیں کہ بےتعلق رہنا روزہ ہے یا ہجرت ہے یا دل نہ لگانا دنیا کے مزوں میں۔ (موضح) ”السَّاۗىِٕحُوْنَ“ کے لغوی معنی اور صحیح حدیث کو مدنظر رکھیں تو ہجرت یا جہاد اور اعلائے دین کے لیے یا دوسرے نیک مقاصد کے لیے زمین میں پھرنے والے ہی اس کا اصل مصداق ٹھہرتے ہیں۔ پاسپورٹ اور ویزا کا نظام کفار نے مسلمانوں کی اس خصوصیت کو ختم کرنے ہی کے لیے اپنے اور مسلمانوں کے ملکوں میں نافذ کروا دیا ہے، کیونکہ سفر کے ذریعے ہی سے ہجرت، جہاد، طلب علم، تبلیغ دین، تجارت اور بیشمار فوائد حاصل ہوتے ہیں جو اس وقت تک حاصل رہے جب تک مسلمان ساری زمین پر پھرتے رہے اور اس قوت سے سرفراز رہے۔ جب وہ گھروں میں بیٹھ گئے اور آرام طلبی اختیار کی تو کفار کی مراد بر آئی۔ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ : اس کے اولین مصداق تو وہ ہیں جو فرض نمازوں کے علاوہ نوافل بھی ادا کرتے ہیں، جن کے متعلق کفار نے بھی شہادت دی : ”ھُمْ باللَّیْلِ رُھْبَانٌ وَبِالنَّھَارِ فُرْسَانٌ“ کہ وہ رات کو راہب اور دن کو شاہ سوار ہوتے ہیں۔ ورنہ کم از کم فرض نمازوں کے پابند ہونا تو اس کے لیے بنیادی چیز ہے۔ ترک نماز کے ساتھ اپنے آپ کو جنت کے سوداگر سمجھنا اپنی جان کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں۔ الْاٰمِرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ : یعنی دوسروں کو نیکی کا حکم دے کر اور برائی سے منع کرکے کفار کو مسلمان بنانے والے اور مسلمانوں کو اسلام پر عمل کی تاکید کرنے والے اور صرف دوسروں ہی کو نہیں خود بھی اللہ کی ہر حد کی پابندی اور ہر حکم کی اطاعت کرنے والے۔ ”الْمُؤْمِنِيْنَ“ میں الف لام کی وجہ سے ”ان مومنوں کو“ ترجمہ کیا ہے کہ خوش خبری کے حق دار ان صفات کے حامل مومن ہیں، فقط دعویٰ رکھنے والے نہیں۔
Top