Tadabbur-e-Quran - At-Tawba : 112
اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلتَّآئِبُوْنَ : توبہ کرنے والے الْعٰبِدُوْنَ : عبادت کرنے والے الْحٰمِدُوْنَ : حمدوثنا کرنے والے السَّآئِحُوْنَ : سفر کرنے والے الرّٰكِعُوْنَ : رکوع کرنے والے السّٰجِدُوْنَ : سجدہ کرنے والے الْاٰمِرُوْنَ : حکم دینے والے بِالْمَعْرُوْفِ : نیکی کا وَالنَّاهُوْنَ : اور روکنے والے عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برائی وَالْحٰفِظُوْنَ : اور حفاظت کرنے والے لِحُدُوْدِ اللّٰهِ : اللہ کی حدود وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دو الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
توبہ کرتے رہنے والے، عبادت گزار، شکر گزار، ریاض کرنے والے، رکوع سجدہ کرتے رہنے والے، نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی نگہداشت رکھنے والے اصلی مومن ہیں اور مومنوں کو خوش خبری سنا دو
اَلتَّاۗىِٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّاۗىِٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ۔ سچے اہل ایمان کی صفات : اوپر آیت 107 میں جس طرح خبر محذوف ہے اسی طرح اس آیت میں بھی محذوف ہے۔ زجاج کی رائے یہی ہے اور یہ رائے مجھے قوی معلوم ہوتی ہے۔ بعض مرتبہ زور کلام خبر کو خود ظاہر کردیتا ہے اگرچہ وہ لفظوں میں ظاہر نہیں ہوتی۔ یہاں موقع کلام یہ ظاہر کرتا ہے کہ جن کی صفات یہ یہ ہیں وہی لوگ سچے مومن ہیں، ان مومنین کو خوش خبری پہنچا دو۔ سیاحت کا مفہوم : اس آیت میں جو الفاظ آئے سائحون کے سوا ان میں سے ہر لفظ کی تحقیق اپنے اپنے محل میں بیان ہوچکی ہے۔ سائحون کے ترجمے میں مجھے بڑی مشکل پیش آئی۔ ساح یسیح کے معروف معنی تو زمین پر چلنے پھرنے کے ہیں چناچہ اسی سورة کی دوسری ہی آیت میں فسیحوا فی الارض اربعۃ اشہر، آیا ہے۔ لیکن یہاں جس سیاق وسباق میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ لغوی سیاحت کے مفہوم میں نہیں بلکہ اصطلاحی سیاحت کے مفہوم میں آیا ہے۔ لفظ سیاحت قدیم زمانے سے اہل دین کی ایک اصطلاح ہے جس کا مفہوم صاحب لسان نے یوں ادا کیا ہے۔ الذھاب فی الارض للعبادۃ والترھب، عبادت و ریاضت کے لیے کسی سمت کو نکل کھڑے ہونا۔ اسلام سے پہلے اکثر مذاہب میں عبادت کے پہلو سے اس بات کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے کہ آدمی گھر در، بیوی بچوں اور دنیا کے ہنگاموں سے الگ ہو کر جنگلوں، پہاڑوں اور سنسان جگہوں میں نکل جائے، اپنا سارا وقت دھیان گیان، ذکر و عبادت، چلہ کشی اور ریاضت میں گزارے۔ قوت لایموت پر قناعت کرے۔ بھوک پیاس ستائے تو جنگل کے پھل پھلداری اور ندیوں چشموں کے پانی پر گزارہ کرے عیسائیوں کے راہبوں، گوتم بدھ کے بھکشوؤں اور ہندو جوگیوں اور سنیاسیوں کا محبوب طریقہ عبادت یہی رہا ہے۔ یہ لوگ اگر خلق کی طرف متوجہ بھی ہوتے تھے تو اس طرح کہ صبح کسی بستی میں اور شام کسی بستی میں۔ جہاں پہنچے نیکی اور پرہیز گاری کے چند کلمے لوگوں کے کانوں میں ڈالے اور وہاں سے چل کھڑے ہوئے۔ اسی درویشانہ اور راہبانہ زندگی کے لیے قدیم اصطلاح سیاحت کی ہے۔ اسلام میں سیاحت کی حدود : اس سیاحت کی حدود : اس سیاحت کا جتنا حصہ رہبانیت کے حکم میں داخل ہے وہ تو اسلام میں ممنوع ہے اس لیے کہ اسلام دین فطرت ہے اور رہبانیت فطرت کے خلاف ہے لیکن اس کا جو حصہ زہد و توکل، ذکر و فکر، خلوت و تبتل ریاضت و مجاہدہ، جستجوئے حقیقت، طلب علم اور دعوت الی اللہ و جہاد فی سبیل اللہ سے تعلق رکھتا ہے وہ اسلام میں بھی مطلوب و مطبوع ہے اور اس کو اسلام نے روزہ، اعتکاف، عمرہ، حج اور جہد میں سمو دیا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے ہاں سیاحت کے باب میں نفی اور اثبات دونوں طرح کی باتیں ملتی ہیں۔ ایک طرف یہ ارشاد ملتا ہے کہ لاسیاحۃ فی الاسلام (اسلام میں سیاحت نہیں ہے) دوسری طرف یہ چیز بھی ملتی ہے کہ سیاحۃ ھذہ الامۃ الصیام ولزوم المساجد، اس امت کے لیے سیاحت روزے اور مسجدوں کے ساتھ وابستگی ہے۔ ابو داود میں روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے سیاحت اختیار کرنے کی اجازت مانگی۔ آپ نے فرمایا سیاحۃ امتی الجہاد فی سبیل اللہ (میری امت کی سیاحت اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلنا ہے) اس سے معلوم ہوا کہ سیاحت کا جو حصہ رہبانیت کی تعریف میں آتا ہے وہ تو اسلام نے اپنے نصاب سے خارج کردیا ہے لیکن اصل مقصد سیاحت اسلام میں بھی باقی ہے اور روزہ، اعتکاف، ہجرت، جہاد، دعوت و تبلیغ اور طلب علم و حصول تربیت کے لیے سفر، یہ سب چیزیں اس کے مفہوم میں داخل ہیں۔ یہ سیاحت جس طرح مردوں کے لیے ہے اسی طرح، جیسا کہ سورة تحریم کے لفظ سائحات سے واضح ہے، عورتوں کے لیے بھی ہے۔ البتہ عورتیں ان چیزوں سے مستثنی رہیں گی جن سے شریعت نے ان کو مستثنی رکھا ہے مثلاً قتال وغیرہ۔ عام طور پر ہمارے مترجموں نے اس کا ترجمہ روزہ رکھنے والے، یا راہ خدا میں پھرنے والے، یا ’ بےتعلق رہنے والے ‘ کیا ہے۔ لیکن ان ترجموں سے سیاحت کا صرف ایک ایک پہلو سامنے آتا ہے۔ در آنحالیکہ اس کے متعدد پہلو ہیں۔ میں نے ’ ریاض کرنے والے ‘ ترجمہ کیا ہے۔ اگرچہ میں اس پر پوری طرح مطمئن تو نہیں ہوں لیکن میرے نزدیک یہ ترجمہ نسبۃً لفظ کی روح سے قریب تر اور اس کے کل نہیں تو اکثر اطراف کا جامع ہے۔ والعلم عند اللہ۔ منافقین کے سامنے ایک آئینہ توبہ : اوپر والی آیت میں بیعت ایمان و اسلام کی حقیقت واضح فرمائی تھی۔ اس آیت میں اہل ایمان کا اصلی کردار پیش کیا جا رہا ہے اور مقصود اس سے منافقین کے سامنے ایک آئینہ رکھ دینا ہے تاکہ وہ چاہیں تو اس آئینہ کو سامنے رکھ کر اپنے کو سنوار سکیں۔ یہاں اہل ایمان کے کردار کے جو اجزا بیان ہوئے ہیں ان میں سب سے پہلے توبہ کا ذکر ہے۔ توبہ کے معنی رجوع الی اللہ کے ہیں۔ خدا کی بندگی اور اطاعت کی راہ میں بندے کا پہلا قدم یہی ہے کہ وہ شیطانی راہوں میں ہرزہ گردی چھوڑ کر اپنے رب کی طرف لوٹتا ہے اور اس کی صراط مستقیم پر چلنے کا عزم کرتا ہے۔ پھر یہی توبہ ہے جو ہر گام پر اس کو سنبھالتی ہے۔ جب کبھی اس کا کوئی قدم راہ سے بےراہ ہوجاتا ہے یہ توبہ اس کی دست گیری کرتی اور اس کو راہ پر لگاتی ہے۔ عبادت : توبہ کے بعد عبادت کا ذکر ہے۔ یہ خدا کے سب سے بڑے حق کا حوالہ ہے۔ جو بندہ خدا کی طرف رجوع کرتا ہے اس پر خدا کا اولین حق اس کی عبادت کا عائد ہوتا ہے اور چونکہ خدا کے سوا کوئی اور اس حق میں ساجھی نہیں ہے اس وجہ سے اس کا بلا شرکت غیرے ہونا اس کی صفت لازمی ہے اور ساتھ ہی اطاعت بھی چونکہ اس کا بدیہی تقاضا ہے اس وجہ سے وہ بھی اس کا جزو لاینفک ہے۔ حمد : عبادت کے ساتھ حمد کا ذکر ہے جو تمام عبادات کی روح ہے اس لیے کہ نماز اور زکوۃ وگیرہ، جیسا کہ اپنے مقام پر واضح ہوچکا ہے، سب خدا کی شکر گزاری اور اس کی نعمتوں کے اعتراف کے مظاہر ہیں۔ اگر بندے کے اندر شکر گزاری اور اعتراف نعمت کا جذبہ بطور ایک صفت کے راسخ نہ ہو تو نہ تو وہ عبادت کا حق ادا کرنے پر آمادہ ہی ہوتا ہے اور نہ اس کی عبادت کے اندر کوئی روح ہی ہوتی ہے۔ سیاحت : اس کے بعد سیاحت کا ذکر ہے۔ اس کی وضاحت ہم اوپر کرچکے ہیں۔ یہ ان تمام سرگرمیوں، مشقتوں اور ریاضتوں کی ایک جامع تعبیر ہے جو آدمی اپنے ظاہر و باطن کی تربیت و اصلاح، دین کو سمجھنے اور سمجھانے، اس کو پھیلانے اور بڑھانے کے لیے والہانہ اور سرفروشانہ اختیار کرتا ہے اور جن کی راہ میں اپنی زندگی کی لذتیں، راحتیں، امنگیں اور خوشیاں بےدریغ قربان کرتا ہے خلوت کی نمازیں : پھر نماز کا ذکر ہے جس کے لیے الراکعون الساجدون کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ نماز کا ذکر قرآن میں جہاں جہاں اس اسلوب سے ہوا ہے۔ وہاں صرف فرض نمازیں مراد نہیں ہیں بلکہ خلوت کی نمازیں مراد ہیں۔ یہی نمازیں ان تمام چیزوں کی محافظ بھی ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے اور یہی اس ریاضت کو بھی زندگی اور نشوونما بخشتی ہیں جو سیاحت کے لفظ سے تعبیر کی گئی۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر : اس کے بعد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر ہے۔ اوپر جو باتیں بیان ہوئی ہیں ان کا بیشتر تعلق فرد کی اپنی اصلاح و تربیت سے ہے۔ اب یہ ان کا تعلق قوم اور جماعت کے ساتھ واضح کیا جا رہا ہے کہ وہ نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے ہیں۔ وہ دوسروں کے خیر و شر سے بےتعلق رہ کر زندگی نہیں گزارتے بلکہ دوسروں کی اصلاح و تربیت کے لیے بھی اپنے اندر تڑپ رکھتے ہیں اور اپنی طاقت و صلاحیت کے مطابق اصلاح منکر کا فرض انجام دیتے ہیں۔ حفاظت حدود الٰہی : آخر میں حفظ حدود اللہ کا ذکر ہے۔ یہ درحقیقت تقوی کی تعبیر ہے اور خاتمہ پر ایک ایسی صفت کا حوالہ دے دیا گیا ہے جو سب سے زیادہ جامع ہے۔ یعنی وہ زندگی کے تمام مراحل میں برابر چوکنے رہتے ہیں کہ خدا نے جو حدود قائم فرمائے ہیں ان میں کوئی حد ٹوٹنے نہ پائے۔ نہ وہ خود کسی حد کو توڑنے کی جسارت کرتے ہیں اور نہ اپنے امکان کی حد تک کسی دوسرے کو اس کے توڑنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اہل ایمان کے کردار کے یہ پہلو، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، یہاں اس لیے بیان ہوئے ہیں کہ منافقین کے سامنے سچے اہل ایمان کی تصویر آجائے کہ مومن ان صفات کے حامل ہوتے ہیں نہ کہ ہر مدعی ایمان جو کردار و اعمال میں تو اس کے بالکل برعکس ہے لیکن اپنا نام اہل ایمان کے رجسٹر میں لکھوانا چاہتا ہے۔
Top