Tafseer-e-Haqqani - At-Tawba : 112
اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلتَّآئِبُوْنَ : توبہ کرنے والے الْعٰبِدُوْنَ : عبادت کرنے والے الْحٰمِدُوْنَ : حمدوثنا کرنے والے السَّآئِحُوْنَ : سفر کرنے والے الرّٰكِعُوْنَ : رکوع کرنے والے السّٰجِدُوْنَ : سجدہ کرنے والے الْاٰمِرُوْنَ : حکم دینے والے بِالْمَعْرُوْفِ : نیکی کا وَالنَّاهُوْنَ : اور روکنے والے عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برائی وَالْحٰفِظُوْنَ : اور حفاظت کرنے والے لِحُدُوْدِ اللّٰهِ : اللہ کی حدود وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دو الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
( یہ وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ‘ عبادت کرنے والے ‘ شکر کرنے والے ‘ خدا کی راہ میں سفر کرنے والے ‘ رکوع کرنے والے ‘ سجدہ کرنے والے ‘ اچھی باتوں کے سکھانے والے اور بری باتوں سے روکنے والے اور احکامِ الٰہی کا لحاظ رکھنے والے ہیں اور آپ ایمانداروں کو خوشخبری سنا دیں۔
ترکیب : بان الباء ھنا للمقابلۃ وعدا مصدر ای وعدھم بذلک وعدًا حقًا اس کی صفت فی التورتہ الخ ثابت کے متعلق ہو کر صفت ثالث التائبون خبر ہے مبتداء محذوف کی اے وھم التائبون ویجوز ان یکون مبتداء والخبر الآمرون ومابعدہ وھو ضفیف۔ تفسیر : جبکہ جہاد سے کنارہ کشی کرنے کی وجہ سے منافقین کے قبائح اور فضائح اور ان کی اقسام اور ہر قسم کی لائق سزا دنیا و آخرت میں واقع ہونے والی بیان فرما چکا تو فضائلِ جہاد اور اس کی حقیقت کی طرف پھر رجوع کرتا ہے۔ پس فرماتا ہے ان اللّٰہ اشتری الخ محمد بن کعب قرطبی کہتے ہیں کہ مکہ میں لیلتہ العقبۃ میں ستر انصار نے آنحضرت ﷺ سے بیعت کی۔ تب عبداللہ بن رواحہ ؓ نے عرض کیا کہ اپنے لئے اور اللہ کے لئے یا رسول اللہ ! جو چاہیے ہم سے شرط کرا لیجئے۔ فرمایا اللہ کے لئے یہ کہ اسی کی عبادت کرو کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ اور میرے لئے یہ کہ جس چیز سے اپنے نفس اور مال کو محفوظ رکھو اس سے مجھے بھی۔ لوگوں نے کہا جب ہم نے ایسا کیا تو کیا ملے گا فرمایا جنت۔ لوگوں نے عرض کیا بہت فائدہ مند بیع ہے ہم اس کو ہرگز واپس نہ کریں گے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی (معالم) اس آیت میں فرماتا ہے کہ اللہ نے جنت کے عوض میں ایمانداروں کی جان اور مال کو خرید لیا بائع روح مشتری اللہ مبیعہ جسم و مال قیمت۔ جنت پھر فرماتا ہے کہ خریدنے سے ہمارا کیا مطلب ہے۔ یہ کہ تم جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو یہاں تک کہ مارو یا مرجاؤ یعنی یہ جان و مال گو اللہ ہی کا عطیہ ہے مگر اس کو اللہ کی راہ میں صرف کرو۔ اس کے بدلہ میں تم کو حیات جاودانی اور سعادت روحانی ملے گی۔ اس بات کو خریدو فروخت کے پیرایہ میں ادا کیا تاکہ یہ معلوم ہے کہ جنت کا طالب ہو کر جان و مال کو اپنا نہ سمجھے بلکہ اس کو بیچ چکے ‘ مالک جہاں اس کے صرف کرنے کا حکم دے دریغ نہ کرے۔ حقیقت میں کیا ارزاں سودا ہے کجا یہ مال و جسم فانی کہاں وہ حیات جاودانی۔ کہاں یہ دنیا کا مال کہاں اس کا جمال با کمال ؎ قیمت خود ہر دو عالم گفتہ نرخ الا کن کہ ارزانی ہنوز پھر آگے ان لوگوں کی نو صفت بیان فرماتا ہے جو اخلاق حمیدہ اور تنویر روح اور تمدن اور باہمی اصلاح کا عطر ہیں۔ (1) التائبون یعنی ہر قسم کی برائی سے جو بشریت سے صادر ہوگئی توبہ کرتے ہیں نہ کہ اس پر اڑتے ہیں (2) العابدون اللہ کی عبادت کرنے والے (3) الحامدون خدا تعالیٰ کی ہر حال میں حمد کرتے ہیں جو کچھ اس نے عنایت کیا ہے اسی حالت میں اس سے خوش ہیں (4) السائحون 1 ؎ توریت موجودہ کی بھی متعدد مقامات سے اللہ کی فرمانبرداری کرنے پر اور مال و جان سے اس کو عزیز رکھنے پر جس کو ان اللہ اشتری الخ سے تعبیر کیا ہے۔ بہبودی اور فلاح کے وعدے نکلتے ہیں جن کو اس امت کے لئے جنت کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔ چناچہ استثناء کے 28 باب میں 14 درس تک یہی بیان ہے اور 32 باب 2 درس میں ان اللہ اشتری کا بعینہٖ مضمون موجود ہے انجیل متی کے 5 باب 12 درس میں اس کے عوض پانی کا وعدہ ہے اور دیگر مقامات میں بھی۔ 12 روزہ رکھنے والے کیونکہ روزہ میں جب انسان خواہشوں کے دروازے بند کرلیتا ہے تو اس پر معارف کے دروازہ کھل جاتے ہیں۔ پھر وہ اس میں عالم جلال کی سیر کرتا ہے۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد خدا کے لئے سفر کرنے والے ہیں طلب علم یا جہاد کے لئے یا ہجرت کے لئے من السیاحۃ (5۔ 6) رکوع اور سجدہ کرنے والے یعنی نماز پڑھنے والے تخصیص بعد التعمیم (7۔ 8) اس سے اپنی تکمیل پر بس نہ کرنے والے بلکہ اوروں کو بھی اس میں شریک کرنے والے یعنی بھلی باتوں کا حکم دینے والے ٗ بری باتوں سے منع کرنے والے (9) الحافظون لحدود اللّٰہ ہر امر میں احکامِ الٰہی کی رعایت رکھنے والے۔ اس میں ہزاروں باتیں آگئیں جہاد میں چونکہ مخالفین یگانہ لوگ تھے ان سے لڑنا شاق تھا اس لئے اول ان سے بیزاری ظاہر کرکے یہاں ان کے لئے استغفار سے بھی منع کرتا ہے اور ابراہیم (علیہ السلام) نے جو اپنے باپ کے لئے استغفار کی تھی اس کی وجہ بیان فرماتا ہے کہ وہ ایک وعدہ کا پورا کرنا تھا جو اس نے اپنے باپ سے کرلیا تھا مگر جب معلوم ہوا کہ کفر پر مرا تو علیحدگی اختیار کی خدا کے سپاہی کو اپنے بیگانہ سے کچھ مطلب نہیں حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔
Top