Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 112
اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلتَّآئِبُوْنَ
: توبہ کرنے والے
الْعٰبِدُوْنَ
: عبادت کرنے والے
الْحٰمِدُوْنَ
: حمدوثنا کرنے والے
السَّآئِحُوْنَ
: سفر کرنے والے
الرّٰكِعُوْنَ
: رکوع کرنے والے
السّٰجِدُوْنَ
: سجدہ کرنے والے
الْاٰمِرُوْنَ
: حکم دینے والے
بِالْمَعْرُوْفِ
: نیکی کا
وَالنَّاهُوْنَ
: اور روکنے والے
عَنِ
: سے
الْمُنْكَرِ
: برائی
وَالْحٰفِظُوْنَ
: اور حفاظت کرنے والے
لِحُدُوْدِ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
وَبَشِّرِ
: اور خوشخبری دو
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع)
وہ لوگ توبہ کرنے والے ، عبادت میں سرگرم رہنے والے ، اللہ کی حمدو ثنا کرنے والے ، سیر و سیاحت کرنے والے ، رکوع و سجود میں جھکنے والے ، نیکی کا حکم دینے والے ، برائی سے روکنے والے اور اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیوں کی حفاظت کرنے والے ہیں پس ان مومنوں کو خوشخبری دیں
مومنوں کے مختلف اوصاف بیان فرما کر ان کی پہچان آسان کردی : 147: یہ صفات جو اس آیت میں بیان ہوئیں کن لوگوں کی ہیں ؟ اگرچہ یہاں خبر واضح نہیں کی گئی لیکن کیوں واضح نہیں ؟ محض اس لئے کہ زور کلام خود ظاہر کر رہا ہے کہ یہ ان ہی لوگوں کے اوصاف ہیں جو فی الحقیقت سچے مومن ہیں اور انہیں کو خوشخبری پہنچائی جا رہی ہے اور وہی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کی جانوں اور مالوں کا سودا چکایا ہے۔ اس جگہ ان کی سات صفات بیان کی گئی ہے اور ان کے مدارج کا بیان ہے جس کو اختصار کے ساتھ اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے : 1۔ ” اَلتَّآىِٕبُوْنَ “ یعنی وہ لوگ جو اپنی توبہ میں سچے اور پکے ہوتے ہیں۔ بار بار توبہ کرتے اور توڑتے ہی نہیں رہتے اور ہر حال میں اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اپنے دکھ اور سکھ میں اس کو یاد رکھتے ہیں اور اپنی لغزشوں اور غفلتوں پر نادم رہتے ہیں اور اس ندامت کا اظہار بھی وہ اللہ ہی کے سامنے کرتے ہیں تاکہ دکھاوے کی زد میں نہ آئیں۔ 2۔ ” الْعٰبِدُوْنَ “ وہ اللہ کی عبادت میں سرگرم رہتے ہیں اس طریقہ سے کہ وہ غیر اللہ کی عبادت کا سختی کے ساتھ انکار بھی کرتے ہیں اور ان کی ساری بندگیاں اور نیاز مندیاں صرف اور صرف اللہ ہی کے لئے ہوتی ہیں۔ عبادت سے مقصود عبادت خاص بھی ہے اور عام بھی۔ خاص عبادت کیا ہے ؟ وہی جو خاص وقتوں اور خاص شکلوں کی عبادت جو دین حنیف نے قرار دے دی ہے اور اسے پورے اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور عام یہ کہ انسان کی فکری حالت عبادت گزار نہ ہوجائے اور پھر وہ جو کچھ بھی سنے ، جو کچھ بھی کہے ، جو کچھ بھے کرے ، سب میں ایک عابدانہ روح کام کر رہی ہو ، عبادت کا مفہوم بڑا وسیع ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں کچھ لوگوں نے بڑی سخت ٹھوکر کرھائی ہے وہ خاص وقتوں اور شکلوں کی عبادت سے منحرف ہوئے اور دقیق تاویلوں کا اور وہ کمبل سمجھ کر دیچھ کو ہاتھ ڈال بیٹھے۔ اب وہ کمبل کو چھوڑتے ہیں لیکن وہ ریچھ ان کو نہیں چھوڑتا۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ٭ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے 3۔ ” الْحٰمِدُوْنَ “ وہ جو اپنی فکر اور اپنے قول سے اللہ کی محدود ستائش کرنے والے ہیں۔ فکر سے حمد و سرتائش کیا ہوئی ؟ یہ ہوئی کہ وہ بحکم آیت : وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ 1ۚ (3 : 191) آسمان و زمین کی خلقت میں غور و فکر کرتے اور ان تمام کار فرمائیوں کی معرفت حاصل کرتے ہیں جو اس کی محمودیت و جمال پر دلالت کرتی ہیں اور قول سے حمد و ستائش یہ ہوئی جو اس فکری حالت کا قدرتی نتیجہ ہے کیونکہ جس ہستی کی محمودیت دل و دماغ میں جائے گی ضروری ہے کہ زبان سے بھی بےاختیار اس کی حمد و ثنا کے ترانے نکلنے لگیں۔ 4۔ ” السَّآىِٕحُوْنَ “ اس لفظ کے معنوں میں بہت وسعت ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے مترجمین نے ترجمہ میں اور مفسرین نے تفسیر میں بہت کچھ بیان کیا ہے اور پھر ایک دوسرے کی تردید میں زیادہ وقت صرف کردیا ہے لیکن ہماری نزدیک وسعت کے پیش نظر تفہیم میں اختلاف ممکن بھی ہے اور کوئی گناہ بھی نہیں تاہم اختلاف میں اس قدر شدت ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم نے سیاحت ہی کے معنوں اور مف ہوں کو پسند کیا ہے لیکن وہ سیاحت جو درویشوں اور راہبوں کے حصے میں آئی وہ نہیں بلکہ وہ سیاحت جو نشانات الٰہی کے دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے وہ نشانات انعامات الٰہی کی صورت میں ہوں یا عذاب الٰہی کی صورتوں میں۔ جو ساح یسیح سے ہے جیسا کہ اس سورت کے شروع میں ہے : فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ میں آیا ہے اور جس کی تشریح دوسری جگہ قرآن کریم نے فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ (3 : 137) سے خود کردی ہے یعنی زمین میں عبرت و نظر کے لئے گردش کرتے ہیں اور علم کی تلاش میں نکلتے ہیں اور راہ حق میں جہاد کرتے اور جدوجہد کرتے ہوئے ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ کا رخ کرتے ہیں اور اس طرح حج کے لئے خشکی اور تری کی مسافتیں قطع کرتے ہیں۔ 5۔ ” الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ “ وہ جو اللہ کے سامنے جھک جاتے ہیں اور رکوع و سجود سے کبھی نہیں تھکتے اور یہ رکوع و سجود کی حالت ان کے جسم پر بھی طوری ہوتی ہے اور قلب پر بھی اور زبان پر بھی اور پھر ان کے جسم کے روئیں روئیں میں نظر آنے لگتی ہے اور ان کے جسم کی کوئی حرکت اور ان کے دل کی کوئی دھڑکن اس سے خالی نہیں ہوتی جس سے اس کا اظہار نہ ہوتا ہو۔ 6۔ ” الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ “ وہ جو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے رکوتے ہیں اور خود مجسمہ نیکی ہوتے ہیں جہاں سے برائی کبھی پھوٹتی ہی نہیں اور پھر وہ صرف اپنے ہی نفس کی اصلاح پر قانع نہیں ہوجاتے بلکہ دوسروں کی بھی اصلاح کرتے ہیں اور دنیا میں حق و عدالت کے نشر و قیام کو اپنا فرض سمجھتے ہیں جس کی ادائیگی میں وہ ذرا بھی سستی نہیں کرتے۔ 7۔ ” الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ 1ؕ “ وہ ان تمام حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں جو اللہ نے انسان کے لئے ٹھہرا دی ہیں اور یہ ان کا آخری وصف ہے جو اس جگہ بیان ہوا اور حقیقت میں یہی آخری مقام ہے۔ قرآن کریم کی اصطلاح یہ ہے کہ تمام واجبات و حقوق کو خواہ وہ افراد کی زندگی سے تعلق رکھتے ہوں خواہ جماعتی زندگی سے متعلق ہوں وہ حدود اللہ سے تعبیر کرتا ہے یعنی یہ حدیں جو مقرر کردی گئیں ان کے ٹوٹنے سے انسانی امن وسعادت کی بنیادوں کا ٹوٹ جانا لازم آتا ہے اور تشریح اس کی اس جگہ سما نہیں سکتی۔ یہ کل سات وصف ہوئے اور اس جگہ وہ جس ترتیب سے بیان کئے گئے ہیں وہ بذاتہ قابل غور ہیں گویا نفس انسانی کے تز کہ و ترقی کے سات درجے ہیں یا آپ ان کو سات طبقے کہہ لیں جو یکے بعد دیگرے ٹھیک اسی ترتیب سے سلوک ایمانی میں پیش آتے ہیں۔ جب کوئی انسان راستی و ہدایت کی راہ میں قدم اٹھانے لگا تو قدرتی طور پر پہلا قدم توبہ وانابت ہی کا ہوگا یعنی پچھلی غفلتوں اور گمراہیوں سے خواہ وہ کفر کی ہوں ، خواہ نفاق کی اور خواہ معاصی و زلات کی بہرحال ان میں سے جس سے بھی دوچار ہے باز آئے گا اور آئندہ کے لئے ان سے بچنے کا عہد کرے گا اور اپنے سارے دل اور ساری روح سے اللہ کی طرف رجوع ہوجائے گا اور یہی توجہ کی حقیقت ہے۔ پھر اگر توبہ سچی ہوگی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ کی بندگی اور نیاز مندی کی سرگرمی پیدا ہوجائے۔ پس یہ دوسری منزل ہوئی یا سلوک ایمانی کا دوسرا طبقہ پھر چونکہ عبادت گزاری کی زندگی کا لازمی نتیجہ ہے کہ فکر اور ذکر کا مقام حاصل ہوجائے اور ” ملک السموت والارض ؟ ؟ “ کا مشاہدہ معرفت کا دروازہ کھل جائے اس لئے تیسری منزل تمحید و تسبیح کی منزل ہوئی یعنی اللہ کی حمد و ثنباء کے جوش سے معمور ہوجانے کی منزل جس کے متعلق قرآن کریم کی آیت اس طرح بولتی ہے کہ : ” رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا 1ۚ “ (3 : 191) پھر اگر توبہ وانابت کا تنبہ ، عبادت کا ذوق و شوق اور تمحید و تسبیح کا عرفان کامل درجہ کا ہے تو ممکن نہیں کہ وہ مومن صادق کو گھر میں چین سے بیٹھنے دے ضروری ہے کہ وطن و مکان کی الفت کی زنجیریں ٹوٹیں اور سیر و سیاحت میں قدم سرگرم ہوجائیں پس یہ چوتھی منزل ہوئی اور اس طرح ” السَّآىِٕحُوْنَ “ کا درجہ چوتھا درجہ ہوا یا چوتھا طبقہ ہوا۔ ان چار منزلوں سے جو کاروان عمل گزر گیا اس نے اصلاح نفس کی مسافت طے لر لی پس اب پانچویں منزل ” الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ “ کی ہوئی یعنی بندگی و نیاز مندی میں پورے ہوگئے اور اللہ کے آگے سر نیاز ہمیشہ کے لئے جھک گیا۔ اب ” الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ “ کا مقام انہیں حاصل ہوگیا یعنی اپنی تعلیم و تربیت کا معاملہ پورا کر کے دوسروں کے لئے معلم و مربی ہوجائںْ گے چناچہ چھٹی منزل یہی ہوئی اور اس سے آخری منزل کے ڈانڈے مل گئے جو ” الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ 1ؕ “ کا مقام ہے یہاں پہنچ کر ان کے تمام اعمال حود الٰہی کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں وہ خود اپنے اعمال میں بھی حدود اللہ کی کامل نگہداشت رکھتے ہیں اور اپنے وجود سے باہر بھی ان کا نفاذ و قیام کی نگہبانی کرتے ہیں۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نیک مقصد سے سیر و سیاحت کرنا سچے مومنوں کا بہترین عمل ہے اور ان اعمال میں سے ہے جن کے ذریعہ وہ ایمان کے مدارج طے کرتے ہیں اور ان کے خصائص ایمانی کامل ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جس سرعت کے ساتھ صدر اول کے مسلمان تمام دنیا میں پھیل گئے اس کی کوئی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی اور جب تک اسلام کی عملی روح زندہ رہی ان سے بڑھ کر زمین کی مسافتیں قطع کرنے والی کوئی قوم نہ تھی۔ وہ سیاحت کو سیاحت سمجھ کر نہیں کرتے تھے بلکہ اللہ کی عبادت سمجھتے تھے اور فی الحقیقت سیاحت نہ صرف ایک تنہا عبادت ہے بلکہ کتنی ہی عبادتوں کا مجموعہ ہے۔ گھر بار چھوڑنا ، عزیز و اقارب کی جدائی برداشت کرنا ، سفر کی مشقتوں میں پڑنا ، قدم قدم پر مال خرچ کرنا ، آب و ہوا کی ناموافقت ، اجنبیوں سے محبت و معاملت اور پھر ان تمام موانع و مشکلات میں عزم و عمل کا استوار رہنا ، ایثار و تحمل کے کتنے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں تب کہیں جا کر یہ عمل انجام پاتا ہے۔ سورة تحریم میں یہی وصف مسلمان عورتوں کے لئے بھی فرمایا جیسا کہ ارشاد ہوا : مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓىِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓىِٕحٰتٍ (66 : 5) اللہ کی فرمانبردار ، برائیوں سے پرہیز کرنے والیاں ، عبادت گزار ، سیاحت سے سرگرم اور پھر روایات و آثار سے روز روشن کی طرح عایں ہے نہ صرف صحابہ کرام ؓ کی بیبیاں بلکہ خود پیغمبر اسلام ﷺ کی ازواج مطہرات بھی جنگ میں نکلتی تھیں ، مجاہدین کی خدمت انجام دیتی تھیں ، ہجرت میں ساتھ نکلتی رہیں اور دوسرے ملکوں میں آباد ہونے میں ساتھ رہیں۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ بعض لوگوں کو اس پر تعجب ہوا کہ سیر و سیاحت کا شمار بھی خصائص ایمانی میں ہے ؟ اس لئے ” السَّآىِٕحُوْنَ “ اور ” سٰٓىِٕحٰتٍ “ کے لغوی اور مصطلحہ معنی سے گریز کرنے لگے لیکن فی الحقیقت ان کا تعجب خود محل تعجب ہے۔ قرآن کریم نے ہجرت کو ایمان کا بہترین عمل قرار دیا ہے جو گھر بار چھوڑ کر نکلنا ہے اور جہاد فی سبیل اللہ کے لئے فرمایا : اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا (9 : 41) نکل کھڑے ہو سروسامان ” ہلکے “ ہو یا ” بوجھل “ اور اس طرح حج ہر مستطیع مسلمان پر وہ مرد ہو یا عورت فرض کردیا جو باشندگان مکہ کے علاوہ سب کے لئے بڑی سے بڑی سیاحت ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا کہ : یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ0027 (22 : 27) حج کی سواریاں دنیا سے ہر دور دراز مسافر طے کرتی ہوں آئیں گی۔ اس طرح جگہ جگہ زور دیا کہ ملکوں کی سیر کرو ، پچھلی قوموں کے آثار و باقیات سے عبرت پکڑو ، ان کے عروج وزوال کے حالات و بواعث کا کھوج لگاؤ جیسے ارشاد فرمایا کہ : اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ 1ؕ (12 : 109) کیا انہوں نے ملکوں کی سیر نہیں کی کہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے پچھلی قوموں کا خاتمہ کس طرح ہو اور کیسی حالتوں سے وہ دو چار ہوئے ؟ اللہ کی ضرورت اور حکمت کی ان نشانیوں پر غور کرو جو زمین کے چپہ چپہ میں پھیلی ہوئی ہیں فرمایا : ” وَ کَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْهَا وَ ہُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ 00105 “ (12 : 105) اور آسمان و زمین میں قدرت الٰہی کی کتنی ہی نشانیوں ہیں کہ لوگ ان پر سے گزر جاتے ہیں اور گردن اٹھ اکر بھی نہیں دیکھتے ؟ اور اس سورت میں یہ حکم آگے آرہا ہے کہ طلب علم کے لئے گھروں سے نکلو اور علم کے مرکزوں میں پہنچو اور تجارت کے سفر کو بھی فضل اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہاں تک کہ حج کے موقع پر بھی اس کی اجازت دی جیسا کہ فرمایا : ” لیس علیکم جناح ان تبتغو ۔۔۔۔ ؟ ؟ “ (12 : 105) اور تمہارے لئے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ اگر تم اللہ فضل بھی حاصل کرنا چاہو یعنی تجارت کرسکتے ہو۔ پھر جب سیر و سیاحت کے لئے یہ صریح حکم موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ یہاں اس وصف کی موجودگی موجب تعجب ہو ؟ اور اس کی طرح طرح کی تاویلیں کی جاتی ہیں اس ضمنی بیان کے بعد رخ پھر انہی منافقوں ہی کی طرف پھر رہا ہے۔
Top