Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 112
اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلتَّآئِبُوْنَ : توبہ کرنے والے الْعٰبِدُوْنَ : عبادت کرنے والے الْحٰمِدُوْنَ : حمدوثنا کرنے والے السَّآئِحُوْنَ : سفر کرنے والے الرّٰكِعُوْنَ : رکوع کرنے والے السّٰجِدُوْنَ : سجدہ کرنے والے الْاٰمِرُوْنَ : حکم دینے والے بِالْمَعْرُوْفِ : نیکی کا وَالنَّاهُوْنَ : اور روکنے والے عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برائی وَالْحٰفِظُوْنَ : اور حفاظت کرنے والے لِحُدُوْدِ اللّٰهِ : اللہ کی حدود وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دو الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
وہ لوگ توبہ کرنے والے ، عبادت میں سرگرم رہنے والے ، اللہ کی حمدو ثنا کرنے والے ، سیر و سیاحت کرنے والے ، رکوع و سجود میں جھکنے والے ، نیکی کا حکم دینے والے ، برائی سے روکنے والے اور اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیوں کی حفاظت کرنے والے ہیں پس ان مومنوں کو خوشخبری دیں
مومنوں کے مختلف اوصاف بیان فرما کر ان کی پہچان آسان کردی : 147: یہ صفات جو اس آیت میں بیان ہوئیں کن لوگوں کی ہیں ؟ اگرچہ یہاں خبر واضح نہیں کی گئی لیکن کیوں واضح نہیں ؟ محض اس لئے کہ زور کلام خود ظاہر کر رہا ہے کہ یہ ان ہی لوگوں کے اوصاف ہیں جو فی الحقیقت سچے مومن ہیں اور انہیں کو خوشخبری پہنچائی جا رہی ہے اور وہی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کی جانوں اور مالوں کا سودا چکایا ہے۔ اس جگہ ان کی سات صفات بیان کی گئی ہے اور ان کے مدارج کا بیان ہے جس کو اختصار کے ساتھ اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے : 1۔ ” اَلتَّآىِٕبُوْنَ “ یعنی وہ لوگ جو اپنی توبہ میں سچے اور پکے ہوتے ہیں۔ بار بار توبہ کرتے اور توڑتے ہی نہیں رہتے اور ہر حال میں اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اپنے دکھ اور سکھ میں اس کو یاد رکھتے ہیں اور اپنی لغزشوں اور غفلتوں پر نادم رہتے ہیں اور اس ندامت کا اظہار بھی وہ اللہ ہی کے سامنے کرتے ہیں تاکہ دکھاوے کی زد میں نہ آئیں۔ 2۔ ” الْعٰبِدُوْنَ “ وہ اللہ کی عبادت میں سرگرم رہتے ہیں اس طریقہ سے کہ وہ غیر اللہ کی عبادت کا سختی کے ساتھ انکار بھی کرتے ہیں اور ان کی ساری بندگیاں اور نیاز مندیاں صرف اور صرف اللہ ہی کے لئے ہوتی ہیں۔ عبادت سے مقصود عبادت خاص بھی ہے اور عام بھی۔ خاص عبادت کیا ہے ؟ وہی جو خاص وقتوں اور خاص شکلوں کی عبادت جو دین حنیف نے قرار دے دی ہے اور اسے پورے اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور عام یہ کہ انسان کی فکری حالت عبادت گزار نہ ہوجائے اور پھر وہ جو کچھ بھی سنے ، جو کچھ بھی کہے ، جو کچھ بھے کرے ، سب میں ایک عابدانہ روح کام کر رہی ہو ، عبادت کا مفہوم بڑا وسیع ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں کچھ لوگوں نے بڑی سخت ٹھوکر کرھائی ہے وہ خاص وقتوں اور شکلوں کی عبادت سے منحرف ہوئے اور دقیق تاویلوں کا اور وہ کمبل سمجھ کر دیچھ کو ہاتھ ڈال بیٹھے۔ اب وہ کمبل کو چھوڑتے ہیں لیکن وہ ریچھ ان کو نہیں چھوڑتا۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ٭ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے 3۔ ” الْحٰمِدُوْنَ “ وہ جو اپنی فکر اور اپنے قول سے اللہ کی محدود ستائش کرنے والے ہیں۔ فکر سے حمد و سرتائش کیا ہوئی ؟ یہ ہوئی کہ وہ بحکم آیت : وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ 1ۚ (3 : 191) آسمان و زمین کی خلقت میں غور و فکر کرتے اور ان تمام کار فرمائیوں کی معرفت حاصل کرتے ہیں جو اس کی محمودیت و جمال پر دلالت کرتی ہیں اور قول سے حمد و ستائش یہ ہوئی جو اس فکری حالت کا قدرتی نتیجہ ہے کیونکہ جس ہستی کی محمودیت دل و دماغ میں جائے گی ضروری ہے کہ زبان سے بھی بےاختیار اس کی حمد و ثنا کے ترانے نکلنے لگیں۔ 4۔ ” السَّآىِٕحُوْنَ “ اس لفظ کے معنوں میں بہت وسعت ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے مترجمین نے ترجمہ میں اور مفسرین نے تفسیر میں بہت کچھ بیان کیا ہے اور پھر ایک دوسرے کی تردید میں زیادہ وقت صرف کردیا ہے لیکن ہماری نزدیک وسعت کے پیش نظر تفہیم میں اختلاف ممکن بھی ہے اور کوئی گناہ بھی نہیں تاہم اختلاف میں اس قدر شدت ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم نے سیاحت ہی کے معنوں اور مف ہوں کو پسند کیا ہے لیکن وہ سیاحت جو درویشوں اور راہبوں کے حصے میں آئی وہ نہیں بلکہ وہ سیاحت جو نشانات الٰہی کے دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے وہ نشانات انعامات الٰہی کی صورت میں ہوں یا عذاب الٰہی کی صورتوں میں۔ جو ساح یسیح سے ہے جیسا کہ اس سورت کے شروع میں ہے : فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ میں آیا ہے اور جس کی تشریح دوسری جگہ قرآن کریم نے فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ (3 : 137) سے خود کردی ہے یعنی زمین میں عبرت و نظر کے لئے گردش کرتے ہیں اور علم کی تلاش میں نکلتے ہیں اور راہ حق میں جہاد کرتے اور جدوجہد کرتے ہوئے ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ کا رخ کرتے ہیں اور اس طرح حج کے لئے خشکی اور تری کی مسافتیں قطع کرتے ہیں۔ 5۔ ” الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ “ وہ جو اللہ کے سامنے جھک جاتے ہیں اور رکوع و سجود سے کبھی نہیں تھکتے اور یہ رکوع و سجود کی حالت ان کے جسم پر بھی طوری ہوتی ہے اور قلب پر بھی اور زبان پر بھی اور پھر ان کے جسم کے روئیں روئیں میں نظر آنے لگتی ہے اور ان کے جسم کی کوئی حرکت اور ان کے دل کی کوئی دھڑکن اس سے خالی نہیں ہوتی جس سے اس کا اظہار نہ ہوتا ہو۔ 6۔ ” الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ “ وہ جو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے رکوتے ہیں اور خود مجسمہ نیکی ہوتے ہیں جہاں سے برائی کبھی پھوٹتی ہی نہیں اور پھر وہ صرف اپنے ہی نفس کی اصلاح پر قانع نہیں ہوجاتے بلکہ دوسروں کی بھی اصلاح کرتے ہیں اور دنیا میں حق و عدالت کے نشر و قیام کو اپنا فرض سمجھتے ہیں جس کی ادائیگی میں وہ ذرا بھی سستی نہیں کرتے۔ 7۔ ” الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ 1ؕ “ وہ ان تمام حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں جو اللہ نے انسان کے لئے ٹھہرا دی ہیں اور یہ ان کا آخری وصف ہے جو اس جگہ بیان ہوا اور حقیقت میں یہی آخری مقام ہے۔ قرآن کریم کی اصطلاح یہ ہے کہ تمام واجبات و حقوق کو خواہ وہ افراد کی زندگی سے تعلق رکھتے ہوں خواہ جماعتی زندگی سے متعلق ہوں وہ حدود اللہ سے تعبیر کرتا ہے یعنی یہ حدیں جو مقرر کردی گئیں ان کے ٹوٹنے سے انسانی امن وسعادت کی بنیادوں کا ٹوٹ جانا لازم آتا ہے اور تشریح اس کی اس جگہ سما نہیں سکتی۔ یہ کل سات وصف ہوئے اور اس جگہ وہ جس ترتیب سے بیان کئے گئے ہیں وہ بذاتہ قابل غور ہیں گویا نفس انسانی کے تز کہ و ترقی کے سات درجے ہیں یا آپ ان کو سات طبقے کہہ لیں جو یکے بعد دیگرے ٹھیک اسی ترتیب سے سلوک ایمانی میں پیش آتے ہیں۔ جب کوئی انسان راستی و ہدایت کی راہ میں قدم اٹھانے لگا تو قدرتی طور پر پہلا قدم توبہ وانابت ہی کا ہوگا یعنی پچھلی غفلتوں اور گمراہیوں سے خواہ وہ کفر کی ہوں ، خواہ نفاق کی اور خواہ معاصی و زلات کی بہرحال ان میں سے جس سے بھی دوچار ہے باز آئے گا اور آئندہ کے لئے ان سے بچنے کا عہد کرے گا اور اپنے سارے دل اور ساری روح سے اللہ کی طرف رجوع ہوجائے گا اور یہی توجہ کی حقیقت ہے۔ پھر اگر توبہ سچی ہوگی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ کی بندگی اور نیاز مندی کی سرگرمی پیدا ہوجائے۔ پس یہ دوسری منزل ہوئی یا سلوک ایمانی کا دوسرا طبقہ پھر چونکہ عبادت گزاری کی زندگی کا لازمی نتیجہ ہے کہ فکر اور ذکر کا مقام حاصل ہوجائے اور ” ملک السموت والارض ؟ ؟ “ کا مشاہدہ معرفت کا دروازہ کھل جائے اس لئے تیسری منزل تمحید و تسبیح کی منزل ہوئی یعنی اللہ کی حمد و ثنباء کے جوش سے معمور ہوجانے کی منزل جس کے متعلق قرآن کریم کی آیت اس طرح بولتی ہے کہ : ” رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا 1ۚ “ (3 : 191) پھر اگر توبہ وانابت کا تنبہ ، عبادت کا ذوق و شوق اور تمحید و تسبیح کا عرفان کامل درجہ کا ہے تو ممکن نہیں کہ وہ مومن صادق کو گھر میں چین سے بیٹھنے دے ضروری ہے کہ وطن و مکان کی الفت کی زنجیریں ٹوٹیں اور سیر و سیاحت میں قدم سرگرم ہوجائیں پس یہ چوتھی منزل ہوئی اور اس طرح ” السَّآىِٕحُوْنَ “ کا درجہ چوتھا درجہ ہوا یا چوتھا طبقہ ہوا۔ ان چار منزلوں سے جو کاروان عمل گزر گیا اس نے اصلاح نفس کی مسافت طے لر لی پس اب پانچویں منزل ” الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ “ کی ہوئی یعنی بندگی و نیاز مندی میں پورے ہوگئے اور اللہ کے آگے سر نیاز ہمیشہ کے لئے جھک گیا۔ اب ” الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ “ کا مقام انہیں حاصل ہوگیا یعنی اپنی تعلیم و تربیت کا معاملہ پورا کر کے دوسروں کے لئے معلم و مربی ہوجائںْ گے چناچہ چھٹی منزل یہی ہوئی اور اس سے آخری منزل کے ڈانڈے مل گئے جو ” الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ 1ؕ “ کا مقام ہے یہاں پہنچ کر ان کے تمام اعمال حود الٰہی کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں وہ خود اپنے اعمال میں بھی حدود اللہ کی کامل نگہداشت رکھتے ہیں اور اپنے وجود سے باہر بھی ان کا نفاذ و قیام کی نگہبانی کرتے ہیں۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نیک مقصد سے سیر و سیاحت کرنا سچے مومنوں کا بہترین عمل ہے اور ان اعمال میں سے ہے جن کے ذریعہ وہ ایمان کے مدارج طے کرتے ہیں اور ان کے خصائص ایمانی کامل ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جس سرعت کے ساتھ صدر اول کے مسلمان تمام دنیا میں پھیل گئے اس کی کوئی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی اور جب تک اسلام کی عملی روح زندہ رہی ان سے بڑھ کر زمین کی مسافتیں قطع کرنے والی کوئی قوم نہ تھی۔ وہ سیاحت کو سیاحت سمجھ کر نہیں کرتے تھے بلکہ اللہ کی عبادت سمجھتے تھے اور فی الحقیقت سیاحت نہ صرف ایک تنہا عبادت ہے بلکہ کتنی ہی عبادتوں کا مجموعہ ہے۔ گھر بار چھوڑنا ، عزیز و اقارب کی جدائی برداشت کرنا ، سفر کی مشقتوں میں پڑنا ، قدم قدم پر مال خرچ کرنا ، آب و ہوا کی ناموافقت ، اجنبیوں سے محبت و معاملت اور پھر ان تمام موانع و مشکلات میں عزم و عمل کا استوار رہنا ، ایثار و تحمل کے کتنے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں تب کہیں جا کر یہ عمل انجام پاتا ہے۔ سورة تحریم میں یہی وصف مسلمان عورتوں کے لئے بھی فرمایا جیسا کہ ارشاد ہوا : مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓىِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓىِٕحٰتٍ (66 : 5) اللہ کی فرمانبردار ، برائیوں سے پرہیز کرنے والیاں ، عبادت گزار ، سیاحت سے سرگرم اور پھر روایات و آثار سے روز روشن کی طرح عایں ہے نہ صرف صحابہ کرام ؓ کی بیبیاں بلکہ خود پیغمبر اسلام ﷺ کی ازواج مطہرات بھی جنگ میں نکلتی تھیں ، مجاہدین کی خدمت انجام دیتی تھیں ، ہجرت میں ساتھ نکلتی رہیں اور دوسرے ملکوں میں آباد ہونے میں ساتھ رہیں۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ بعض لوگوں کو اس پر تعجب ہوا کہ سیر و سیاحت کا شمار بھی خصائص ایمانی میں ہے ؟ اس لئے ” السَّآىِٕحُوْنَ “ اور ” سٰٓىِٕحٰتٍ “ کے لغوی اور مصطلحہ معنی سے گریز کرنے لگے لیکن فی الحقیقت ان کا تعجب خود محل تعجب ہے۔ قرآن کریم نے ہجرت کو ایمان کا بہترین عمل قرار دیا ہے جو گھر بار چھوڑ کر نکلنا ہے اور جہاد فی سبیل اللہ کے لئے فرمایا : اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا (9 : 41) نکل کھڑے ہو سروسامان ” ہلکے “ ہو یا ” بوجھل “ اور اس طرح حج ہر مستطیع مسلمان پر وہ مرد ہو یا عورت فرض کردیا جو باشندگان مکہ کے علاوہ سب کے لئے بڑی سے بڑی سیاحت ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا کہ : یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ0027 (22 : 27) حج کی سواریاں دنیا سے ہر دور دراز مسافر طے کرتی ہوں آئیں گی۔ اس طرح جگہ جگہ زور دیا کہ ملکوں کی سیر کرو ، پچھلی قوموں کے آثار و باقیات سے عبرت پکڑو ، ان کے عروج وزوال کے حالات و بواعث کا کھوج لگاؤ جیسے ارشاد فرمایا کہ : اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ 1ؕ (12 : 109) کیا انہوں نے ملکوں کی سیر نہیں کی کہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے پچھلی قوموں کا خاتمہ کس طرح ہو اور کیسی حالتوں سے وہ دو چار ہوئے ؟ اللہ کی ضرورت اور حکمت کی ان نشانیوں پر غور کرو جو زمین کے چپہ چپہ میں پھیلی ہوئی ہیں فرمایا : ” وَ کَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْهَا وَ ہُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ 00105 “ (12 : 105) اور آسمان و زمین میں قدرت الٰہی کی کتنی ہی نشانیوں ہیں کہ لوگ ان پر سے گزر جاتے ہیں اور گردن اٹھ اکر بھی نہیں دیکھتے ؟ اور اس سورت میں یہ حکم آگے آرہا ہے کہ طلب علم کے لئے گھروں سے نکلو اور علم کے مرکزوں میں پہنچو اور تجارت کے سفر کو بھی فضل اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہاں تک کہ حج کے موقع پر بھی اس کی اجازت دی جیسا کہ فرمایا : ” لیس علیکم جناح ان تبتغو ۔۔۔۔ ؟ ؟ “ (12 : 105) اور تمہارے لئے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ اگر تم اللہ فضل بھی حاصل کرنا چاہو یعنی تجارت کرسکتے ہو۔ پھر جب سیر و سیاحت کے لئے یہ صریح حکم موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ یہاں اس وصف کی موجودگی موجب تعجب ہو ؟ اور اس کی طرح طرح کی تاویلیں کی جاتی ہیں اس ضمنی بیان کے بعد رخ پھر انہی منافقوں ہی کی طرف پھر رہا ہے۔
Top