Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 112
اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلتَّآئِبُوْنَ : توبہ کرنے والے الْعٰبِدُوْنَ : عبادت کرنے والے الْحٰمِدُوْنَ : حمدوثنا کرنے والے السَّآئِحُوْنَ : سفر کرنے والے الرّٰكِعُوْنَ : رکوع کرنے والے السّٰجِدُوْنَ : سجدہ کرنے والے الْاٰمِرُوْنَ : حکم دینے والے بِالْمَعْرُوْفِ : نیکی کا وَالنَّاهُوْنَ : اور روکنے والے عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برائی وَالْحٰفِظُوْنَ : اور حفاظت کرنے والے لِحُدُوْدِ اللّٰهِ : اللہ کی حدود وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دو الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
وہ توبہ کرتے رہنے والے، عبادت گزار، حمد کرنے (اور شکر بجا لانے) والے، روزہ رکھنے والے، رکوع اور سجدہ کرنے والے، نیکی کی تلقین کرنے والے، اور برائی سے روکنے والے، اور حفاظت کرنے والے، اللہ کی (مقرر کردہ) حدود کی، اور خوشخبری سنا دو ایمان والوں کو،1
206 (سائحون) کا معنی اور اس سے مراد ؟ : یعنی اس سے مراد روزے دار ہیں اور یہ قول حضرت ابن عباس ؓ اور ابن مسعود ؓ وغیرہ کا ہے۔ اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ روزہ دار بھی اسی طرح طعام و شراب وغیرہ سے رکتا اور مشقت اٹھاتا ہے جس طرح کہ سیاح اور مسافر۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ سے بھی ایک ارشاد میں وارد ہے کہ میری امت کی سیروسیاحت روزہ ہے " سیاحۃ امتی الصوم " جب کہ بعض حضرات نے اس سے مجاہد مراد لیے ہیں اور بعض نے طلبہ علم (الجامع، الکبیر، المحاسن، المراغی، وغیرہ) لیکن لفظ کا عموم ان سب ہی کو شامل ہے۔ لہذایہ سب ہی مرادلئے جاسکتے ہیں اور یہ سب ہی مقصود اور مہتمم بالشان ہیں اور ان سب میں قدرمشترک مشقت و ریاضت کا پایاجانا ہے جو کہ دین فطرت کے مقاصد کی تحصیل و تکمیل کے لیے ایک اہم اور بنیادی عنصر ہے اور روزے، اعتکاف، اور جہاد وغیرہ میں یہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے کہ ان سب میں مشقت و ریاضت کا پہلوغالب ہے۔ اس لیے اس کو یہاں پر اہل ایمان اور اہل جنت کی صفات میں بطور خاص ذکر فرمایا گیا۔ 207 اہل ایمان کے لیے خوشخبری سنانے کا حکم وارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا کہ خوشخبری سنادو ایمان والوں کو سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ دولت ایمان و یقین دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز و بہرور کرنے والی دولت ہے۔ کیونکہ یہاں پر مبشربہ کو ذکر نہیں فرمایا گیا جس سے تعمیم کا فائدہ حاصل ہوتا ہے یعنی ان صفات کے حامل اور ایسے ایمانداروں کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی کی بشارت ہے۔ سو صدق ایمان و یقین اور عمل صالح کی دولت ایسی عظیم الشان دولت ہے کہ انسان کو ہر خیر سے مشرف کرتی اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے نوازتی ہے۔ بہرکیف جب یہ وعدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس وحدہ لاشریک سے بڑھ کر اپنے وعدے کو پورا کرنے والا اور کوئی ہوسکتا ہی نہیں کہ ایسا ہونا کسی کے لیے ممکن ہی نہیں۔ تو پھر تمہیں اے دولت ایمان رکھنے والو اپنے عظیم الشان اور بےمثال سودے پر باغ باغ ہونا چاہے۔ اور جو کچھ اس مالک الملک، واہب مطلق نے تم سے مانگا وہ اس کی طلب پر بخوشی اس کے حوالے کردو اور جو کچھ اس کے عوض ملا ہے اس بپر مطمئن ہو جاؤنیز یہاں پر اہل ایمان کی ان صفات کے ذکر وبیان سے یہ اہم اور بنیادی درس بھی ملتا ہے کہ جنت سے سرفرازی کا تعلق حسب ونسب جیسی غیر اختیاری چیز پر نہیں۔ کیونکہ یہاں پر معاملہ فلاں ابن فلاں پر نہیں بلکہ یہاں پر سارا دارومدار انسان کے اپنے عقیدہ و ایمان اور عمل وکردارپر ہے۔ واباللہ التوفیق لمایحب ویریدوعلیٰ مایحب ویرید، وہوالہادی الیٰ سواء السبیل۔
Top