Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 38
قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا١ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
قُلْنَا : ہم نے کہا اهْبِطُوْا : تم اتر جاؤ مِنْهَا : یہاں سے جَمِیْعًا : سب فَاِمَّا : پس جب يَأْتِيَنَّكُمْ : تمہیں پہنچے مِنِّیْ : میری طرف سے هُدًى : کوئی ہدایت فَمَنْ تَبِعَ : سو جو چلا هُدَايَ : میری ہدایت فَلَا : تو نہ خَوۡفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
ہم نے کہا تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔ پس اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے سو جس نے میری ہدایت کا اتباع کیا تو ان پر کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ رنجیدہ ہوں گے
ہدایت قبول کرنے والوں کے لیے انعام اور کافروں کے لیے دوزخ کا داخلہ اس سے پہلے حکم اِھْبِطُوْا (اُتر جاؤ) پہلی آیت میں مذکور ہے۔ اس کو دوبارہ لانا یا تو تاکید کے لیے ہے یا پہلا حکم یہ بتانے کے لیے تھا کہ تم یہاں سے جاؤ جہاں جا رہے ہو، مصیبت کی جگہ ہوگی آپس میں دشمنی ہوگی اور وہاں تھوڑی مدت رہنا ہوگا، ہمیشگی نہ ہوگی اور دوسرا حکم یہ بتانے کے لیے ہے کہ جہاں تم کو بھیجا جا رہا ہے وہ دارالتکلیف ہے۔ وہاں قیام کرنے کے بارے میں یہ بات ذہن میں رکھو اور یہیں سے سمجھتے جاؤ کہ تمہارے خالق اور مالک کی طرف سے وہاں ہدایات آئیں گی اللہ تعالیٰ کے پیغمبر آئیں گے، اس کی کتابیں نازل ہوں گی۔ ان پیغمبروں اور کتابوں پر ایمان لانا ہوگا اور ان کی تعلیمات اور ہدایات کے مطابق زندگی گزارنی ہوگی جو ہدایت کا اتباع کریں گے۔ ان کے لیے یہاں واپس آکر خیر ہی خیر ہے نہ انہیں کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی رنج لاحق ہوگا۔ سورة طٰہٰ میں یوں فرمایا : (فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلاَ یَضِلُّ وَ لاَ یَشْقیٰ ) (کہ جو شخص میری ہدایت کا اتباع کرے گا، سو نہ وہ گمراہ ہوگا اور نہ شقی ہوگا) ۔ اور جو لوگ کفر اختیار کریں گے اور میرے آیات کو جھٹلائیں گے یہ نار (آگ) والے ہوں گے یعنی دوزخ میں جائیں گے جس طرح اہل ایمان ہمیشہ جنت میں رہیں گے، اسی طرح یہ اہل کفر ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ فوائد ضروریہ متعلقہ واقعہ حضرت آدم (علیہ السلام) حضرت آدم و حوا ( علیہ السلام) اور ان کے دشمن ابلیس ملعون کے مذکورہ واقعہ سے بڑے بڑے اہم نتائج اور فوائد معلوم ہوئے۔ انسان کو خلافت ارضی کے لیے پیدا فرمایا : (1) اللہ جل شانہٗ نے انسان کو خلافت ارضی کے لیے پیدا فرمایا۔ اس پر لازم ہے کہ اپنے خالق ومالک کا خلیفہ بن کر رہے۔ اس کے احکام پر خود بھی عمل کرے اور اپنے زور و طاقت سے احکام الٰہیہ کو نافذ کرے۔ اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی ایسے شخص کو صاحب اقتدار بنانا واجب ہے جو احکام الٰہیہ پر عمل کرا سکتا ہو۔ جو لوگ قرآن کو نہیں مانتے وہ تو اس واجب پر کیا عمل کریں گے جنہیں قرآن کے ماننے کا دعویٰ ہے وہ بھی احکام الٰہیہ کی تنفیذ کے حق میں نہیں ہیں۔ دنیا کے ایک بڑے حصے پر مسلمانوں کو اقتدار حاصل ہے لیکن قوانین شریعت نافذ کرنے کے لیے تیار نہیں، اس سے جان چراتے ہیں۔ دشمنان اسلام کے ترتیب دیئے ہوئے ظالمانہ قوانین کو کو رٹ اور کچہری میں استعمال کرتے ہیں کیونکہ شرعی قوانین سے بہت سے دنیاوی منافع اور نفس کی لذتوں پر زد پڑتی ہے، اس لیے اللہ کی خلافت سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ اور خلیفۃ اللہ نہ ہونے کی وجہ سے ساری دنیا فتنہ و فساد کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ جو ممالک مسلمانوں کے زیر اقتدار ہیں فسادات وہیں زیادہ ہیں۔ قتل و خون کے واقعات بھی انہیں ممالک میں بہت زیادہ پیش آتے رہتے ہیں، مسلمان ہی مسلمان کو قتل کرتا ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایسا خلیفہ بنائیں جو احکام الٰہیہ کو نافذ کرے اور اس بارے میں اس کی مدد کریں۔ اور خلافت کے کام انجام دیں، اور فاسق بن کر (یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ ) کا مصداق نہ بنیں۔ جو انسان اللہ تعالیٰ کی خلافت کے لیے پیدا کیا گیا اس کے اکثر افراد تو کافر ہی ہیں اور جو اسلام کے مدعی ہیں ان میں سے بھی اکثر نافرمانی پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ انسان کی حماقت اور شقاوت ہے۔ اپنے بلند مرتبہ کو چھوڑ کر دنیا کی ذلت اور آخرت کے عذاب کے لیے اپنی جان کو تیار کر رکھا ہے یہی انسان جس کے سب سے پہلے فرد کو فرشتوں سے سجدہ کرایا گیا وہی انسان اپنے کفر کی وجہ سے دوزخ میں جانے کو تیار ہے۔ یہ تو اہل کفر ہیں اور مسلمان ہونے کے مدعی ہیں وہ بھی صالحین کے پیچھے نہیں لگتے۔ فاسقوں، فاجروں، بدعقیدہ ملحدوں کو اپنا لیڈر اور قائد بنا لیتے ہیں اور انہیں کو اقتدار سونپتے ہیں اور یہ لوگ خود اور صاحب اقتدار سب مل کر فساد برپا کرتے ہیں۔ قتل و خون اور لوٹ مار کی خبریں برابر آتی رہتی ہیں، رشوت کی گرم بازاری ہے۔ سودی کاروبار ہیں، سودی لین دین ہے۔ شرابیں پی جا رہی ہیں۔ زکوٰتیں نہیں دی جاتیں (بہت کم لوگ زکوٰۃ شرعی قاعدہ کے مطابق دیتے ہیں) لوگوں کے حق مارے جا رہے ہیں۔ نمازیں برباد ہیں، رمضان میں کھلے عام سب کے سامنے کھایا پیا جاتا ہے۔ جانتے بوجھتے گناہ کرتے ہیں اور گناہوں پر اصرار ہے۔ اپنا مقام بھول گئے، اور معصیتوں میں لگ گئے۔ شاید کسی کے دل میں یہ وسوسہ آئے کہ پھر تو فرشتوں نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ جو نئی مخلوق پیدا ہو رہی ہے وہ فسادی ہوگی، اور خون خرابہ کرنے والی ہوگی۔ اس وسوسہ کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں نے تو تمام افراد انسانی کو ہی فساد اور خون خرابہ سے متصف کردیا تھا انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ ان میں انبیاء کرام (علیہ السلام) اور علماء، صلحاء و شہداء، عابدین، ذاکرین، قانتین، مجاہدین، حجاج، حفاظ قرآن، مفسرین قرآن، محدثین، مصنّفین، مصلحین و مرشدین بھی ہوں گے، اگر بنی نوع انسان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے اور خاص کر امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتحیہ کی تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انسانوں میں کیسے کیسے اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے اور اصلاح حال کے لیے جانیں وقف کرنے والے اور خلافت الٰہیہ کے فریضہ کو انجام دینے والے گزرے ہیں۔ فرشتوں کے سامنے اہل صلاح و فلاح کے اعمال خیر کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے اندر یکے بعد دیگرے رات کو فرشتے اور دن کے فرشتے آتے رہتے ہیں اور وہ فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ جب وہ فرشتے واپس ہو کر اوپر جاتے ہیں جنہوں نے تمہارے ساتھ رات گزاری تو اللہ تعالیٰ شانہٗ ان سے دریافت فرماتے ہیں حالانکہ وہ ان سے زیادہ جاننے والے ہیں کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا۔ وہ عرض کرتے ہیں : ترکناھم و ھم یصلون و ایتنا ھم و ھم یصلون۔ یعنی ہم نے ان کو اس حال میں چھوڑا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور ہم ان کے پاس گئے تھے تو بھی نماز پڑھ رہے تھے۔ (رواہ البخاری ج 1 ص 457) اور یوم عرفہ کو جب حجاج عرفات میں جمع ہوتے ہیں تو اللہ جل شانہ ان کو فرشتوں کے سامنے پیش فرما کر فخر فرماتے ہیں ( فی حدیث جابر مرفوعا اذا کان یوم عرفۃ ان اللّٰہ ینزل الی السماء الدنیا فیباھی بھم الملئکۃ فیقول انظرو ! الی عبادی اتونی شعثاً غبرا ضاجین من کل فج عمیق۔ الحدیث کما فی المشکوٰۃ ص 229 عن شرح السنۃ) یوم عید میں بھی اسی طرح فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں کو پیش فرما کر اللہ تعالیٰ فخر فرماتے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 182) علم بہت بڑی دولت ہے : (2) علم اللہ جل شانہٗ کی بہت بڑی نعمت ہے اور بہت بڑی فضیلت کی چیز ہے۔ اسی کے ذریعہ اللہ جل شانہٗ نے فرشتوں پر حضرت آدم (علیہ السلام) کی فضیلت ظاہر فرمائی۔ علم ہر حال میں جہالت سے بہتر ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ علم کو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں اور خلافت الٰہیہ کے کاموں میں اور اللہ تعالیٰ کی معرفت میں خرچ کرنے سے صاحب علم کی فضیلت باقی رہتی ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کو جن چیزوں کا علم دیا گیا تھا، یہ خلاف الٰہیہ کو قائم اور باقی رکھنے کے لیے دیا گیا تھا انسان کو جب بھی علم ملے اس کو اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لیے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بننے کے لیے استعمال کیا جائے۔ جو علم مجادلہ پر ابھارے، راہ حق سے ہٹائے، وہ علم جہل ہے۔ حدیث شریف میں فرمایا کہ ان من العلم جھلا۔ (یعنی بعضے علم جہالت ہوتے ہیں) ۔ (اخرجہ ابوداؤد فی کتاب الادب) کتاب و سنت کے علوم تو باعث قرب الٰہی ہیں ہی دوسرے علوم بھی اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ قال تعالیٰ (وَ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ ) وقال تعالیٰ (سَنُرِیْھِمْ اٰیٰاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْٓ اَنْفُسِھُمْ ) ۔ لیکن حال یہ ہو رہا ہے کہ آفاق اور أنفس اور اشجار و جبال و بحار سے متعلق جو علوم منکشف ہو رہے ہیں، انسان ان سے اپنے دنیاوی امور میں منتفع اور متمتع ہوتا ہے لیکن جس نے یہ علوم دیئے ہیں اور یہ منافع پیدا فرمائے اور ان کی طرف لوگوں کا ذہن منتقل کیا ہے اس کی طرف متوجہ نہیں، یہ لوگ عام طور پر ملحد، کافر اور فاسق فاجر ہی ہیں۔ جو علم میں بڑھ کر ہو اس کی برتری تسلیم کرنی چاہیے : (3) جب کسی کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ یہ شخص مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ اس کے عالم ہونے کا اقرار کرے۔ اور بغیر کسی پس و پیش کے اپنا عجز ظاہر کر دے اور اس میں اپنی خفت محسوس نہ کرے۔ جیسا کہ فرشتوں نے حضرت آدم علی نبینا و (علیہ السلام) کا علم ظاہر ہوتے ہی اپنے عجز کا اقرار کرلیا، جاہل ہوتے ہوئے علم کا دعویٰ کرنا اور اہل علم سے بحث کرنا بہت بڑی حماقت ہے اور حق منکشف ہونے کے بعد باطل پر جما رہنا یہ بہت بڑی شقاوت ہے۔ توبہ کی اہمیت اور ضرورت : (4) بندے کا کام یہ ہے کہ جب کوئی گناہ ہوجائے فوراً توبہ کرے اور اپنے خالق ومالک کی طرف رجوع ہو، اپنے گناہ کا اقرار کرے۔ اور مغفرت طلب کرے۔ گناہ پر اصرار نہ کرے اور گناہ کو اپنے لیے وبال سمجھے اور گناہ کو اپنی جان پر ظلم جانے۔ حضرت آدم و حوا ( علیہ السلام) سے گناہ ہوگیا تھا یعنی وہ درخت کھالیا تھا جس کے کھانے سے منع کیا گیا تھا۔ اور حضرت آدم ممانعت کو اس وقت بھولے ہوئے بھی تھے۔ (کما فی سورة طٰہٰ (وَ لَقَدْ عَھِدْنَآ اِلآی اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْلَہٗ عَزْمًا) جب ان کا مؤاخذہ ہوا تو انہوں نے کوئی حجت نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں اپنے گناہ کا اقرار کیا اور توبہ کی۔ گو بھول پر مؤاخذہ نہیں ہوتا مگر بھول کے اسباب اختیار کرنے پر مؤاخذہ ہوجاتا ہے اور بڑوں کی بڑی بات ہے ان کی وہ باتیں بھی گرفت میں آجاتی ہیں جو دوسروں سے در گز ر کردی جاتی ہیں۔ حضرت آدم اور ان کی بیوی نے کوئی کٹ حجتی نہیں کی، نہ بھول کا بہانا بنایا۔ اللہ جل شانہٗ نے ان پر رحم فرمایا اور خود ہی ایسے کلمات ان کو القاء فرمائے جو قبولیت توبہ کا ذریعہ بن گئے۔ قال البیضاوی مجیباً عما یرد علی العصمۃ انہ فعلہ ناسیاً لقولہ تعالیٰ فنسی وَ لم نجدلہ عزماً و لکنہ عوتب بترک التحفظ عن اسباب النسیان و لعلہ (ای النسیان) و ان حطّ عن الامۃ لم یحط عن الانبیاء لعظم قدرھم۔ برخلاف ابلیس شیطان کے اس نے دانستہ طور پر اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی اور نہ صرف خلاف ورزی کی بلکہ حکم ہی کو غلط بتایا اور ذات خداوندی پر اعتراض کر بیٹھا اور اپنی خطا تسلیم نہیں کی۔ دونوں باتوں سے معلوم ہوا کہ گناہ کا اقرار کرنا اور توبہ کرنا معافی کے لیے رونا دھونا بےچین ہونا، أبو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) کا طریقہ ہے اور تمام صالحین کا جو اپنے باپ آدم کی راہ پر تھے یہی طریقہ ریا ہے اور گناہ کر کے کٹ حجتی کرنا اور اس کو گناہ نہ سمجھنا، گناہ کا اقرار نہ کرنا، ابلیس کا طریقہ ہے جو تمام شیطانوں کا سرغنہ ہے۔ مومن بندے جن کو تعلق مع اللہ حاصل ہے اور انابت الی اللہ کی نعمت سے نوازے گئے ہیں وہ تو نہ صرف یہ کہ گناہ ہوجانے پر توبہ کرتے ہیں بلکہ نیکی کر کے بھی استغفار کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے خالق کا حق ادا نہ ہوا۔ گناہ تو بندوں سے ہو ہی جاتا ہے لیکن مغفرت کی طلب میں جلدی کرتے ہیں اور معافی مانگتے رہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” کل بنی آدم خطاؤن و خیر الخطائین التوابون۔ “ یعنی تمام بنی آدمی خطار کار ہیں اور خطا کاروں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو خوب توبہ کرنے والے ہیں۔ (رواہ الترمذی و ابن ماجہ والدار میں مشکوٰۃ ص 204) پس بنی آدم پر لازم ہے کہ اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کے طریقہ پر چلیں اور ابلیس دشمن کی راہ اختیار نہ کریں۔ تکبر بری بلا ہے : (5) تکبر بہت بری بلا ہے۔ یہ صفت انسان کو لے ڈوبتی ہے۔ ابلیس علیہ اللعنۃ نے تکبر کیا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کو نہ مانا اور اس کو خلاف حکمت قرار دیا۔ تنبیہہ کرنے پر بھی اپنے انکار پر اڑا رہا۔ ملعون اور مطرود اور مدحور ہونا گوارا کرلیا لیکن حکم خداوندی کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوا۔ اس نے یہ تو کیا کہ میری زندگی دراز کردی جائے اور مجھے مہلت دی جائے ( اور اس میں شر کا پہلو تھا کیونکہ درازئ عمر سے کوئی خیر مقصود نہ تھی بلکہ بنی آدم کو بہکانا ورغلانا کفر و شرک پر ڈالنا مقصود تھا) اور توبہ کی طرف متوجہ نہ ہوا، جسے اپنی بڑائی کا خیال ہو، اس سے بڑے بڑے گناہ صادر ہوتے ہیں وہ حق کو ٹھکراتا ہے لوگوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہوا اور جوتا اچھا ہو ( کیا یہ تکبر ہے) ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ جمیل ہے جمال کو پسند کرتا ہے (لہٰذا اچھا کپڑا اور اچھا جوتا پہننا تکبر نہیں ہے) پھر فرمایا : الکبر بطر الحق و غمط الناس۔ یعنی تکبر یہ ہے کہ حق کو ٹھکرائے اور اس کے ماننے سے انکار کرے اور لوگوں کو ذلیل اور حقیر جانے۔ (رواہ مسلم ج ا ص 65) اس آفت میں امیر غریب عالم جاہل سب مبتلا ہوتے ہیں۔ اور مصلحین، واعظین، مرشدین کو بھی یہ مرض گھن کی طرح سے لگ جاتا ہے۔ اپنے عمال کی ریا کاری دوسروں کی غیبت اور تحقیر اپنے عمل و فضل کا ظاہر کرنا حق سامنے ہوتے ہوئے نہ ماننا گناہ کرنا اور نصیحت و خیر خواہی کرنے والوں سے کٹ حجتی کرنا۔ مسئلہ غلط بتا کر یا شائع کر کے رجوع نہ کرنا۔ اور غلطی پر اصرار کرتے رہنا، اور اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں جو پیش آتی رہتی ہیں۔ یہ سب تکبر ہیں۔ اللہ جل شانہٗ کو تواضع پسند ہے۔ ایمان کا کمال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمت عطا فرمائی اس کی قدر دانی اور شکر گزاری کرتے ہوئے اس کی مخلوق کے ساتھ عاجزی اور فروتنی کے ساتھ پیش آئے۔ حضرت عمر ؓ نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے لوگو ! تواضع اختیار کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے اللہ کے لیے تواضع اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کو بلند فرمادیں گے جو اپنے نفس میں تو چھوٹا ہوگا اور لوگوں کی نظروں میں بڑا ہوگا۔ اور جو شخص تکبر اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو گرادیں گے۔ وہ لوگوں کے نزدیک کتے اور خنزیر سے بھی زیادہ ذلیل ہوگا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 434 از بیہقی فی شعب الایمان) گناہوں کی وجہ سے نعمتیں چھین لی جاتی ہیں : (6) گناہ نعمتیں چھن جانے کا سبب ہیں۔ آخرت کے مؤاخذہ کے علاوہ دنیا میں بھی گناہ کی وجہ سے نعمتیں سلب ہوجاتی ہیں۔ حضرت آدم و حوا ( علیہ السلام) شجر ممنوعہ کے کھانے کے سبب جنت سے نکال دیئے گئے۔ اور دنیاوی مصیبتوں میں ان کو اور ان کی ذریت کو مبتلا ہونا پڑا۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ : ان الرجل لیحرم الرزق بالذنب یصیبہ یعنی بلاشبہ انسان گناہ کرنے کی وجہ سے رزق سے محروم کردیا جاتا ہے۔ (مستدرک حاکم ج 1 ص 493) بہت سے لوگ گناہوں میں مبتلا ہیں بلکہ پوری پوری قومیں اور قبیلے گناہوں میں لت پت ہیں وہ چاہتے ہیں کہ مصیبتیں دور ہوں اور تنگدستی سے خلاصی ہو لیکن گناہ چھوڑنے کو تیار نہیں بلکہ سمجھانے والے کو آڑے ہاتھوں لے لیتے ہیں۔ اور الٹے سیدھے سوال و جواب کرتے ہیں۔ سورة اعراف میں ارشاد ہے : (وَ لَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرآی اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰکِنْ کَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰھُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) ” اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیز کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔ “ متعدد احادیث میں بعض اعمال پر دنیا میں مل جانے والی سزاؤں کا خصوصی تذکرہ بھی وارد ہوا ہے۔ حضرت عمرو بن العاص ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ سے میں نے سنا کہ جس قوم میں زنا کا رواج ہوجائے گا وہ قحط کے ذریعہ پکڑی جائے گی اور جن لوگوں میں رشوت عام ہوجائے گی وہ لوگ رعب کے ذریعہ پکڑے جائیں گے۔ (یعنی ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا جائے گا دشمن سے ڈریں گے دور سے کانپیں گے۔ ) (رواہ احمد کمافی مشکوٰۃ المصابیح ص 313) اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی حدود میں سے کسی حد کو قائم کرنا، اللہ کے شہروں میں چالیس رات بارش برسنے سے بہتر ہے۔ ( رواہ ابن ماجہ ص 182) یعنی ایک حد قائم کرنے کا اتنا بڑا نفع ہے جو چالیس دن بارش ہونے کے نفع سے بھی بڑھ کر ہے۔ اب وہ لوگ غور کرلیں جو اللہ کی حدود نافذ نہیں کرتے اور نافذ ہونے نہیں دیتے۔ وہ اللہ کی عام مخلوق پر رحم کھا رہے ہیں یا ظلم کر رہے ہیں۔ نیز حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس قوم میں کوئی شخص قطع رحمی کرنے والا ہو ان پر رحمت نازل نہیں ہوتی۔ (بیہقی فی شعب الایمان کما فی مشکوٰۃ المصابیح ص 420) نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمام گناہوں میں سے اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بخش دیتا ہے مگر ماں باپ کے تکلیف دینے کو معاف نہیں فرماتا جو شخص ایسا کرے اس کے لیے اسی دنیا میں موت سے پہلے سزا دے دیتا ہے۔ (رواہ البیہقی کما فی مشکوٰۃ المصابیح ص ا 42) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ جس قوم میں خیانت ظاہر ہوگی ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ رعب ڈال دے گا۔ اور جس قوم میں زنا کاری کا رواج ہوجائے گا ان لوگوں میں موت کی کثرت ہوجائے گی اور جو لوگ ناپ تول میں کمی کریں گے ان کا رزق منقطع ہوجائے گا اور جو لوگ ظالمانہ فیصلے کریں گے، ان میں قتل و خون خوب زیادہ ہوگا اور جو لوگ عہد کی خلاف ورزی کریں گے ان پر دشمن مسلط کردیا جائے گا۔ ( رواہ مالک فی الموطا و ہوفی حکم المرفوع) شرم اور حیا انسان کا فطری وصف ہے : (7) شرم اور حیا انسان کی فطری صفت ہے اور اس کی خلقت اور جبلت میں داخل ہے۔ حضرت آدم و حوا ( علیہ السلام) نے جنت میں شجر ممنوعہ کھالیا تو ان کے جسموں سے جنت کے کپڑے گرپڑے اور دونوں کی شرم کی جگہ ظاہر ہوگئی لہٰذا جنت سے پتے لے لے کر اپنے جسم پر لگانے لگے تاکہ شرم کی جگہ ڈھک جائے۔ دونوں میاں بیوی تھے پھر بھی آپس میں شرما گئے اور پردہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ انسان دنیا میں آیا تو شرم و حیا کو ساتھ لے کر آیا اور حضرت انبیاء کرام (علیہ السلام) نے برابر حیا کی تعلیم دی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ چار چیزیں پیغمبروں کی عادتوں اور خصلتوں میں سے ہیں۔ (1) حیا (2) خوشبو استعمال کرنا (3) مسواک کرنا (4) نکاح کرنا۔ (رواہ الترمذی فی ابواب النکاح) اور ایک حدیث میں ارشاد ہے : ان الحیاء والایمان قرناء جمیعا و اذا رفع احدھما رفع الاخر۔ اس میں شک نہیں کہ حیا اور ایمان دونوں ساتھ ساتھ ہیں۔ جب ان میں سے ایک اٹھا لیا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان کما فی مشکوٰۃ المصابیح ص 432) ہدایت قبول کرنے پر انعام : (8) حضرت آدم (علیہ السلام) کے قصے کے آخر میں یہ جو فرمایا (فَِامَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی) (الایۃ) اس سے معلوم ہوا کہ انسان اس دنیا میں صرف جینے اور کمانے کھانے اور ماں باپ بننے اور اولاد پالنے کے لیے نہیں آیا۔ اس کو یہاں دارالتکلیف میں بھیجا گیا ہے، اسے اللہ تعالیٰ کے حکموں کا پابند کیا گیا ہے اور یہ احکام اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں اور کتابوں کے ذریعے پہنچتے رہے ہیں۔ ان احکام پر عمل کرنا اسے واپس جنت میں لے جائے گا۔ اور وہی مقام بلند اور برتر مل جائے گا جہاں سے اس کے ماں باپ آدم و حوا اس دنیا میں آئے تھے۔ جنت اپنے ماں باپ کی جگہ ہے جہاں وہ گئے وہیں ان کی وفادار اولاد پہنچ جائے گی اور ہمیشہ وہاں رہے گی، اور جو لوگ ان کے دین سے علیحدہ ہوئے انہیں وہ جگہ دوبارہ نصیب نہ ہوگی بلکہ وہ دارالعذاب یعنی دوزخ میں جائیں گے۔ اختلاف دین کی وجہ سے میراث منقطع ہوجاتی ہے جو کافر ہوں گے وہ اپنے ماں باپ کے دین پر نہیں اس لیے وہ مستحق میراث بھی نہیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سب سے پہلے نبی تھے ان کا دین اسلام تھا۔ ان کی ذریت کے لیے اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو پسند فرمایا اور انبیاء کرام (علیہ السلام) آتے رہے سب ہی دین اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔ جو ان کے دین پر تھا وہ مسلم ہوا اور جو ان کے دین کا منکر ہوا وہ کافر ہوا۔ بنیادی طور پر دین اسلام کے تین عقیدے ہیں۔ (اول) توحید : جس میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کو اس طرح ماننا داخل ہے جیسا کہ وہ اپنے نزدیک ہے اور جیسا کہ اس نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعہ اپنی پہچان کرائی ہے۔ (دوم) رسالت : یعنی اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں پر ایمان لانا اور اس کی کتابوں پر ایمان لانا۔ اس میں ہر اس بات کی تصدیق آجاتی ہے جو حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) نے اور اللہ تعالیٰ کی کتابوں نے بتائی۔ فرشتوں پر ایمان لانا، تقدیر کو ماننا، جنت، دوزخ کے احوال پر ایمان لانا بھی ایمان بالرسالت میں شامل ہے۔ اور ان سب احکام کا ماننا اور عمل پیرا ہونا بھی داخل ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچائے۔ (سوم) معاد : یعنی مرنے کے بعد زندہ ہونے اور حساب کتاب ہونے اور ایمان و کفر اور اچھے برے اعمال کی جزا ملنے اور جنت یا دوزخ میں داخل کئے جانے کا عقیدہ رکھنا۔ ان تین عقائد کی ہر نبی نے تبلیغ کی ہے البتہ فروعی احکام میں حالات کے اعتبار سے فرق رہا ہے۔ اسی لیے حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ : انا اولی الناس بعیسی بن مریم فی الاولی و الاخرۃ الانبیاء اخوۃ من علات و امھاتھم شتی و دینھم واحد۔ ( رواہ البخاری ج 1 ص 490) یعنی میں عیسیٰ بن مریم سے سب سے زیادہ قریب تر ہوں دنیا اور عقبیٰ میں تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) آپس میں علاتی بھائی ہیں یعنی دین واحد ہونے میں اس طرح ہیں جیسے باپ ایک ہو اور مائیں کئی ہوں، ان سب کا دین ایک ہے۔ لوگ اپنی جہالت سے سمجھتے ہیں کہ دین اسلام ڈیڑھ ہزار سال سے دنیا میں آیا ہے، ان کا خیال اور عقیدہ غلط ہے انسان جب سے دنیا میں آیا ہے، دین اسلام کے ساتھ آیا ہے تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اسلام کی دعوت دیتے رہے ہیں۔ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ خاتم النّبیین ہیں۔ آخری رسول ہیں آپ وہی دعوت لے کر تشریف لائے جو حضرات انبیاء کرام آپ سے پہلے لے کر آئے تھے، آپ پر نبوت و رسالت ختم ہوگئی۔ لیکن آپ کی دعوت قیامت تک کے لیے ہے۔ اس دعوت کے پہنچانے اور باقی رکھنے کے لیے قرآن مجید باقی ہے اور باقی رہے گا ہر انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام قبول کرنے کا مامور ہے۔ کوئی یہودی ہو یا نصرانی، ہندو ہو، یا بد ہسٹ یا پارسی ہو کسی بھی دین کا ماننے والا ہو سب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی امت دعوت میں شامل ہیں۔ جو آپ پر ایمان لائے گا آخرت میں نجات پائے گا جو منکر ہوگا دوزخی ہوگا۔ سورة آل عمران میں ارشاد ہے : (وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ) ” یعنی جو کوئی شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو چاہے گا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، وہ آخرت میں تباہ کار لوگوں میں سے ہوگا۔ “ (آل عمران ع 9) سورة سبا (ع 3) میں ارشاد خدا وندی ہے : (وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ) ” اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ خوشخبری سنانے والا ڈرانے والا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ صحیح مسلم (ج 1 ص 86) میں ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : والذی نفس محمد بیدہ لا یسمع بی احد من ھذہ الامۃ یھودی ولا نصرانی ثم یموت و لم یومن بالذی ارسلت بہ الاکان من اصحاب النار۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے میرے نبی ہونے کی خبر جس کسی انسان کو بھی پہنچے گی اور وہ اس دین پر ایمان لائے بغیر مرجائے گا جو دین دے کر میں بھیجا گیا ہوں تو وہ ضرور دوزخ والوں میں سے ہوگا۔ یہودی ہو یا نصرانی۔ “ بنی اسرائیل کا تعارف چونکہ آئندہ آیات میں بنی اسرائیل کا ذکر آ رہا ہے اور کئی رکوع میں ان کی شرارتیں مذکور ہیں اور سورة بقرہ کے علاوہ بھی قرآن مجید میں جگہ جگہ ان کا تذکرہ ہے۔ اس لیے بنی اسرائیل کا تعارف مفصل کرایا جاتا ہے تاکہ ان سے متعلقہ مضامین کے سمجھنے میں آسانی ہو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا وطن اور اولاد : حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیٰ نبینا (علیہ السلام) کا اصل وطن بابل کا علاقہ تھا جہاں نمرود بادشاہ تھا، وہاں بت پرست رہتے تھے۔ حضرات ابراہیم (علیہ السلام) کے والد بھی بت پرست تھے آپ نے ان لوگوں کو حق کی تبلیغ کی اور توحید کی دعوت دی اور اس سلسلہ میں بہت تکلیفیں اٹھائیں۔ ان کی پوری قوم دشمن ہوگئی۔ یہاں تک کہ ان کو آگ میں ڈالا گیا۔ ان کے واقعات جگہ جگہ قرآن مجید میں مذکور ہیں۔ ان کی ایک بیوی کا نام سارہ تھا جو ان کے چچا کی لڑکی تھی اور ایک بیوی کا نام ہاجرہ تھا۔ حضرت سارہ سے حضرت اسحاق (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور حضرت ہاجرہ سے اسماعیل (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ حضرت ہاجرہ وہی ہیں جنہیں مکہ معظمہ کے چٹیل میدان میں بحکم الٰہی چھوڑ دیا تھا۔ ان کے ساتھ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) بھی تھے جو اس وقت گود میں تھے۔ مکہ معظمہ کے بالکل ابتداً آباد کرنے والے یہی دونوں ماں بیٹے تھے۔ حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے علاوہ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لڑکے تھے جن کے نام البدایہ والنہایہ ج 1 ص 175 میں لکھے ہیں۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے فرزند حضرت یعقوب (علیہ السلام) تھے۔ جن کا لقب اسرائیل تھا۔ ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے اور ان کے فرزند حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بھائیوں نے کنوئیں میں ڈال دیا تھا۔ جس کا قصہ سورة یوسف میں مذکور ہے۔ بنی اسرائیل مصر میں : حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے تھے جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ اقتدار میں مصر میں جا کر رہنے لگے تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وفات ہوگئی تب بھی یہ لوگ مصر میں رہتے رہے پشتہا پشت وہاں رہنے سے ان کی نسل بھی بہت زیادہ ہوگئی اور بارہ بھائیوں کی اولاد جو بارہ قبیلوں میں منقسم تھی، مجموعی حیثیت سے ان کی تعداد چھ لاکھ تک پہنچ گئی تھی ان لوگوں کا اصل وطن کنعان تھا جو فلسطین کا علاقہ ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنا اصلی وطن (بابل) چھوڑ کر اور ہجرت فرما کر اس علاقہ میں آباد ہوگئے تھے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد مکہ معظمہ میں آباد رہی اور بڑھتی رہی اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی نسل اولاً کنعان میں پھر مصر میں آباد ہوگئی، جو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد پر مشتمل تھی۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وفات ہوگئی، تو ان لوگوں کا اقتدار میں کچھ حصہ بھی نہ رہا۔ چونکہ یہ لوگ مصر کے اصل باشندے نہیں تھے۔ اجنبی قوم کے افراد تھے اس لیے مصری قوم (قبط) کے افراد ان لوگوں سے بڑی بڑی بیگاریں لیتے تھے اور ان کو بری طرح غلام بنا رکھا تھا۔ حد یہ ہے کہ ان کے لڑکوں کو ذبح کردیتے تھے اور یہ ان کے سامنے عاجز محض تھے ان کے سامنے کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ غلامی کی ایسی بد ترین مثال دنیا کی تاریخ میں کسی قوم کی نہیں ملتی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت اور دعوت : اللہ جل شانہٗ نے بنی اسرائیل میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا، جنہوں نے اس زمانہ کے ظالم اور جابر ترین بادشاہ فرعون کو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اللہ تعالیٰ کا دین قبول کرنے کی دعوت دی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے یہ بھی کہا کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے۔ نہ اس نے دعوت حق کو قبول کیا اور نہ بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ بھیجنے پر راضی ہوا اور اس نے اعلان کیا کہ (اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی) (میں تمہارا سب سے زیادہ بلند معبود ہوں) ۔ بنی اسرائیل کا مصر سے نکلنا : بالآخرحضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے راتوں رات مصر سے نکل کھڑے ہوئے اور سمندر تک پہنچ گئے۔ جب صبح ہو کر ان کے نکلنے کا فرعون کو علم ہوا تو وہ اپنے لشکر لے کر ان کے پیچھے لگا اور سمندر پر پہنچ گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی عصا مبارک سمندر پر ماری جس سے سمندر پھٹ گیا اور اس میں راستے بن گئے اور بنی اسرائیل کے قبیلے ان راستوں سے پار ہوگئے۔ ان کو دیکھ کر فرعون نے بھی اپنے لشکروں کو سمندر میں ڈال دیا، جب فرعون اور اس کا لشکر بیچ سمندر میں آگیا تو اللہ جل شانہٗ نے سمندر کو ملا دیا۔ فرعون کا لشکر تو ڈوب گیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم بنی اسرائیل کو لے کر سمندر پار ہوگئے۔ فرعون بھی اس عظیم حادثہ میں غرق ہوا اور مرگیا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی لاش کو محفوظ رکھا جو اب بھی مصر کے عجائب گھر میں بتائی جاتی ہے۔ عبرت کے لیے اس کی لاش کو محفوظ فرمایا تاکہ لوگ خدائی کے جھوٹے دعویدار کا انجام دیکھ لیں۔ قال تعالیٰ (فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً ) (البدایہ والنہایہ ج 1 ص 270) میں لکھا ہے کہ جب بنی اسرائیل فرعون سے نجات پا کر سمندر پار ہوئے تو اس وقت ان کی تعداد چھ لاکھ کے لگ بھگ تھی یہ تعداد بچوں اور عورتوں کے علاوہ تھی اور یہ بھی لکھا ہے کہ مصر میں ان لوگوں کے رہنے کی مدت چار سو چھبیس سال شمسی تھی۔ مصر سے نکل کر چالیس سال میں وطن پہنچے : بنی اسرائیل سمندر پار تو ہوگئے لیکن اب سوال تھا کہ کہاں جا کر بسیں ؟ اپنے ہی علاقہ میں جانا تھا اور وہ علاقہ بہت دور بھی نہیں تھا آخر وہیں سے ان کے باپ دادا مصر میں آئے تھے اور چند دن میں اونٹوں پر پورا سفر قطع کرلیا تھا لیکن یہ چلے تو ان کو اپنے وطن پہنچنے میں چالیس سال لگ گئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ستاتے رہے، میدان تیہ میں چالیس سال سرگرداں پھرتے رہے (صبح کو جہاں سے چلتے تھے شام کو وہیں پہنچ جاتے تھے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت شریف ملی وہ طور پہاڑ پر توریت شریف لینے گئے تو پیچھے ان لوگوں نے بچھڑے کی پرستش کرلی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم تو تمہاری بات جب مانیں گے جب ہم اللہ تعالیٰ کو آمنے سامنے دیکھ لیں۔ ان کی غذا کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے من اور سلویٰ ملتا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کرسکتے، ہم کو سبزی، پیاز، کھیرا وغیرہ چاہیے۔ جب توریت شریف لے کر موسیٰ (علیہ السلام) تشریف لائے تو انہوں نے ماننے سے انکار کردیا۔ لہٰذا پہاڑ طور اکھاڑ کر ان پر سائبان کی طرح کھڑا کردیا گیا۔ یہ واقعات اسی میدان میں پیش آئے۔ جس میں چالیس سال حیران اور سرگردان گزارے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وہیں وفات ہوگئی۔ ان کی وفات کے بعد حضرت یوشع بن نون (علیہ السلام) کے زمانہ میں ان کا علاقہ فتح ہوا اور بیت المقدس میں داخلہ نصیب ہوا۔ ان کو حکم ہوا تھا کہ خطاؤں کی معافی مانگتے ہوئے عاجزی کے ساتھ داخل ہوں، انہوں نے اس کی خلاف ورزی کی۔ بنی اسرائیل کے یہ واقعات مختلف مواقع میں قرآن مجید میں مذکور ہیں۔ بنی اسرائیل کو یہودی بھی کہا جاتا ہے۔ یہودی مدینہ میں کب آئے ؟ یہودی مدینہ منورہ میں کب آئے ؟ اس کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ ان کے وطن بیت المقدس کو جب بخت نصر (مشہور کافر بادشاہ) نے منہدم کردیا اور وہاں کے رہنے والوں کو جلا وطن کردیا اور بنی اسرائیل ( یہود) میں سے بہت سے لوگوں کو قید کرلیا تو ان میں سے ایک جماعت نے حجاز کی طرف رخ کیا ان میں بعض وادی القریٰ میں اور بعض تیماء اور بعض مدینہ منورہ میں آکر مقیم ہوگئے۔ یہاں پہلے سے کچھ لوگ بنی جرہم کے اور کچھ بقایا عمالقہ کے آباد تھے۔ انہوں نے کھجوروں کے باغ لگا رکھے تھے اور کھیتیاں کرتے تھے۔ یہودی ان کے ساتھ ٹھہر گئے اور گھل مل کر رہنے لگے پھر یہ بڑھتے رہے اور بنی جرہم اور عمالقہ کم ہوتے رہے یہاں تک کہ ان کو یہودیوں نے مدینہ سے نکال دیا اور مدینہ منورہ پوری طرح ان کے تسلط میں آگیا اس کی عمارتیں اور کھیتیاں سب انہیں کی ہوگئیں اور ایک مدت تک جس کا علم اللہ ہی کو ہے اسی حال میں یہ لوگ مدینہ منورہ میں مقیم رہے۔ ( فتوح البلدان للبلا ذری ص 229) بعض مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہودی علماء توریت شریف میں رسول اللہ ﷺ کی صفات پڑھتے تھے ان میں یہ بھی تھا کہ آپ کی ہجرت ایسے شہر کی طرف ہوگی جس میں کھجوریں ہوں گی اور وہ دو پتھریلی زمینوں کے درمیان ہوگا لہٰذا وہ شام سے آئے۔ اور اس صفت کے شہر کی تلاش میں نکلے تاکہ اسی شہر میں جا کر رہیں اور مبعوث ہونے والے نبی پر ایمان لائیں اور ان کا اتباع کریں۔ جب مدینہ منورہ آئے وہاں کھجوریں دیکھیں، تو وہ سمجھ گئے کہ یہی وہ شہر ہے جس کی تلاش میں ہم نکلے ہیں اور پھر وہیں رہنے لگے۔ (عمدۃ الاخبار فی مدینہ المختار ص 34 و معجم البلدان للحموی ج 5 ص 82) اوس و خزرج کا مدینہ میں آکر آباد ہونا : مدینہ منورہ کی آبادی بہت پرانی آبادی ہے اس کا پرانا نام یثرب ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ہجرت فرمانے کے بعد اس کا نام مدینۃ الرسول اور طابہ اور طیبہ معروف ہوگیا۔ اور المدینۃ نیز المدینۃ المنورہ کے نام کی زیادہ شہرت ہوگئی۔ یہودیوں کے مدینہ منورہ میں آکر بسنے کے سالہا سال بعد یمن کے دو قبیلے اوس اور خزرج بھی مدینہ منورہ آکر آباد ہوگئے تھے۔ جب آنحضرت سرور عالم ﷺ ہجرت فرما کر تشریف لائے تو مدینہ منورہ میں تین قبیلے یہودیوں کے یعنی (1) بنی نضیر (2) بنی قریظہ (3) بنی قینقاع اور دو قبیلے یمن سے آکر آباد ہونے والوں کے موجود تھے، یعنی اوس اور خزرج۔ یہی دونوں قبیلے ہیں جو بعد میں انصار بنے۔ یہود کے قبیلوں اور اوس و خزرج میں لڑائیاں : یہ دونوں قبیلے بت پرست تھے آپس میں بھی ان کی لڑائیاں ہوتی تھیں اور یہودیوں سے بھی جنگ ہوتی رہتی تھی۔ یہودی اہل کتاب تھے اور اہل علم سمجھے جاتے تھے۔ جب یمن کے ان دونوں قبیلوں سے ان کی لڑائی ہوتی تھی تو کہا کرتے تھے کہ ایک نبی مبعوث ہونے والے ہیں ان کا زمانہ آئے گا ہم ان کی اتباع کر کے اور ان کے ساتھی بن کر تمہارا ناس کھودیں گے۔ اوس و خزرج کا اسلام قبول کرنا : حج کے موقع پر پہلی ملاقات میں جب سرور عالم ﷺ نے اوس اور خزرج کے چند افراد پر اپنی دعوت پیش کی تو یہ لوگ آپس میں کہنے لگے کہ یہ تو وہی نبی معلوم ہوتے ہیں جن کی تشریف آوری کی خبر یہودی دیا کرتے ہیں۔ اور ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں کہ نبی آخر الزماں ﷺ تشریف لائیں گے تو ہم ان کے ساتھ مل کر تمہیں قتل کردیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ آگے بڑھ جائیں لہٰذا ہمیں یہ دین قبول کرلینا چاہیے۔ چناچہ یہ حضرات مسلمان ہوگئے اور مدینہ منورہ آکر انہوں نے اسلام کی تبلیغ شروع کردی اور انصار کے دونوں قبیلوں میں اسلام پھیل گیا۔ پھر دونوں قبیلوں کے بارہ نمائندوں نے اگلے سال موسم حج میں سرور کونین ﷺ سے ملاقات کی اور آپ سے بیعت کی۔ اور عرض کیا آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئیں۔ ہجرت مدینہ : چنانچہ آپ حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ آپ کی آمد سے پہلے بہت سے صحابہ ہجرت کر کے آ چکے تھے۔ تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں یہ سب باتیں لکھی ہیں۔ فتوح البلدان بلا ذری ص 30 الروض الانف ج 2 ص 16 سیرت ابن ہشام باب عرض رسول اللہ ﷺ نفسہ علی القبائل کا مطالعہ کیا جائے۔ یہودیوں کا عناد اور قبول حق سے انحراف : سرور عالم ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو یہودی یہ جاننے کے باوجود کہ آپ نبی ہیں ( اور علامات پوری اتر رہی ہیں۔ جو نبی آخر الزماں کے بارے میں انہیں معلوم تھیں) منکر ہوگئے اور آپ کو نبی رسول ماننے اور اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ان کو اوس اور خزرج کے لوگوں نے توجہ دلائی اور کہا کہ اللہ سے ڈرو اور اسلام قبول کرو، تم ہی تو کہا کرتے تھے کہ ایک نبی آئیں گے اور ہم ان کے ساتھ مل کر تم سے جنگ کریں گے اور تم ان کی صفات بیان کرتے تھے۔ اب کیوں منکر ہو رہے ہو۔ لیکن ان لوگوں نے ایک نہ سنی۔ ( سیرۃ ابن ہشام اوائل المجلد الثانی) ۔ اور بجز چند آدمیوں کے (جن میں حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کا نام زیادہ مشہور ہے) یہودیوں نے اسلام قبول نہیں کیا اور طرح طرح کی باتیں بناتے رہے اور کٹ حجتی پر اتر آئے۔ حسد اور دشمنی پر کمر باندھ لی، اسلام اور داعئ اسلام ﷺ کی مخالفت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ اور عہد توڑتے رہے آج تک ان کے سارے قبیلوں اور خاندانوں کا یہی حال ہے۔
Top