Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 84
وَ یَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا ثُمَّ لَا یُؤْذَنُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ لَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَبْعَثُ : ہم اٹھائیں گے مِنْ : سے كُلِّ : ہر اُمَّةٍ : امت شَهِيْدًا : ایک گواہ ثُمَّ : پھر لَا يُؤْذَنُ : نہ اجازت دی جائے گی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا (کافر) وَ : اور لَا هُمْ : نہ وہ يُسْتَعْتَبُوْنَ : عذر قبول کیے جائیں گے
اور جس دن ہم ہر امت میں سے گواہ (یعنی پیغمبر) کھڑا کریں گے تو نہ تو کفار کو (بولنے کی) اجازت ملے گی اور نہ ان کے عذر قبول کئے جائیں گے۔
(16:84) یوم۔ کا نصب محذوف عبارت کی وجہ سے ہے۔ ای اذکر یوم۔۔ تبعث۔ مضارع جمع متکلم بعث مصدر۔ (باب فتح) ہم کھڑا کریں گے۔ ہم قائم کریں گے۔ لا یؤذن۔ مضارع منفی مجہول واحد مذکر غائب اجازت نہیں دی جائے گی۔ (عذرومعذرت پیش کرنے کی) ۔ ولا ہم یستعتبون۔ مضارع منفی مجہول کا صیغہ جمع مذکر غائب العتب اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جو وہاں اترنے والے کے لئے ناسازگار ہو۔ پھر استعارہ کے طور پر عتب کے معنی ناراضگی سختی۔ خفگی کے آجاتے ہیں۔ عتب یعتب (نصر) عتب یعتب (ضرب) عتب خفگی کرنا۔ ناراض ہونا۔ غصہ ہونا۔ اعتاب (باب افعال) میں سلب ماخذ کی خصوصیت کی وجہ سے معنی ہونگے عتاب کو دور کرنا۔ ناراضگی۔ غصہ۔ خفگی کو دور کرنا۔ باب استفعال میں طلب ماخذ کی خصوصیت ہے جیسے استغفر زید (زید نے مغفرت مانگی) ۔ لہٰذا استعتاب کا مطلب ہوا۔ طلبِ عتاب یعنی ناراضگی کو دور کرنے کی طلب۔ یعنی کسی سے خواہش کرنا کہ وہ تیری ناراضگی کو دور کر دے اور تجھے رضا مند بنا لے۔ باب افعال (ثلاثی مزید فیہ) سے باب استفعال بنانا غیر قیاسی ہے کیونکہ قیاساً باب استفعال ثلاثی مجرد سے بنایا جاتا ہے۔ ولاہم یستعتبون۔ (اور نہ ہی ان سے اللہ تعالیٰ کے راضی کرنے کی فرمائش کی جائے گی) اور نہ ہی ان سے توبہ لی جائے گی ! نیز ملاحظہ ہو لغات القرآن۔ ندوۃ المصنفین اور نیزاضواء البیان جلد سوم تفسیر آیۃ ہذا۔
Top