Dure-Mansoor - An-Nahl : 84
وَ یَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا ثُمَّ لَا یُؤْذَنُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ لَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَبْعَثُ : ہم اٹھائیں گے مِنْ : سے كُلِّ : ہر اُمَّةٍ : امت شَهِيْدًا : ایک گواہ ثُمَّ : پھر لَا يُؤْذَنُ : نہ اجازت دی جائے گی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا (کافر) وَ : اور لَا هُمْ : نہ وہ يُسْتَعْتَبُوْنَ : عذر قبول کیے جائیں گے
اور جس دن ہم ہر امت سے ایک گواہ قائم کریں گے پھر ان لوگوں کو اجازت نہ دی جائے گی جنہوں نے کفر کیا، اور نہ ان سے اس بات کی فرمائش کی جائے گی کہ اللہ کو راضی کرلیں
1:۔ عبد ابن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کہ (آیت) ” ویوم نبعث من کل امۃ شھیدا “ سے مراد ہے کہ ہر امت کا نبی گواہی دے گا اس بات پر کہ اس نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وجئنا بک شھیدا علی ھولآء “ فرمایا ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ اللہ کے نبی ﷺ جب اس آیت کو پڑھتے تھے تو آپ کی آنکھیں بہہ پڑتی تھیں۔ 2:۔ ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وذا را الذین ظلموا العذاب فلا یخفف عنہم ولا ھم ینظرون “ یہ اس طرح ہے ج جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے (آیت) ” ھذا یوم لا ینطقون (35) ولا یوذن لہم فیعتذرون “ المرسلات آیت (26) 3:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فالقوا الیہم القول “ سے مراد ہے کہ انہوں نے ان سے بات کی۔ 4:۔ ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” والقوا الی اللہ یومئذ السلم “ یعنی وہ اس دن اللہ تعالیٰ کے سامنے سرجھکا دیں گے۔ 5:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” والقوا الی اللہ یومئذ السلم “ یعنی وہ اس دن سرتسلیم خم کئے ہوئے ہوں گے۔ 6:۔ عبدالرزاق فریابی سعید بن مصنور ابن ابی شیبہ ھناد بن السری ابویعلی ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم طبرانی اور بیہقی نے البعث والنشور میں اور حاکم نے (حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا) ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” زدنہم عذابا فوق العذاب “ سے مراد ہے کہ ان پر ایسے بچھو مسلط کئے جائیں گے جن کے دانت لمی کھجور کے درخت کی طرح ہوں گے۔ 7:۔ ابن مردویہ اور خطیب نے تالی التلخیص میں براء ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” زدنہم عذابا فوق العذاب “ کے بارے میں پوچھا تو فرمایا بچھو ہوں گے لمبی کھجوروں کی طرح جو ان کو جہنم میں کاٹیں گے۔ 8:۔ ھناد نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ دوزخ میں ان پر زہریلے سانپ مسلط کئے جائیں گے۔ 9:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کے بارے میں روایت کیا کہ دوزخ والے جب اس کی گرمی سے واویلا کریں گے تو دوزخ میں تھوڑا پانی مانگیں گے تو وہ پانی کے پاس آئیں گے تو ان کو ایسے بچھو ملیں گے گویا کہ وہ کالے خچر ہیں اور زہریلے سانپ ہوں گے گویا وہ بختی اونٹ ہیں اور وہ ان کو کاٹیں گے اور عذاب کے زیادہ کرنے سے یہی مراد ہے۔ 10:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے عبید بن عمیر (رح) سے روایت کیا کہ جہنم میں کنویں ہوں گے اور اس میں سانپ ہوں گے بختی اونٹ کی طرح اور بچھو ہوں گے خچروں کی طرح دوزخ والے ان کنووں سے ساحل پر آنے کے لئے مدد مانگیں گے تو (یہ سانپ اور بچھو) ان کی طرف کو پڑیں گے ان کے جبڑوں کو اور ان کے ہونٹوں کو پکڑ لیں گے ان کے گوشت اتار دیں گے ان کے قدموں تک دوزخی ان سے آگ کی طرف بھاگنے کی کوشش کریں گے وہ ان کا پیچھا کریں گے یہاں تک کہ وہ اس کی گرمی کو پائیں گے تو پھر لوٹیں گے اور وہ اپنے بلوں میں ہوں گے۔ ابن ابی شیبہ اور ھناد نے مجاہد (رح) سے اسی طرح نقل کیا۔ جہنم کے سانپ اور بچھو وں کا حال : 11:۔ ابن جریر نے عبداللہ بن عمر وؓ سے روایت کیا کہ جن ہم کے کنارے جن میں سانپ اور بچھو ہوں گے ان کی گردنیں بختی اونٹ کی گردنوں کی طرح ہیں۔ 12:۔ ابن ابی حاتم نے اعمش کے طریق سے مالک بن حارث (رح) سے روایت کیا کہ جب کسی آدمی کو آگ میں ڈالا جائے گا تو وہ اس میں گرتا چلا جائے گا جب وہ اس کے بعض دروازوں کی طرف پہنچے گا تو کہا جائے گا ٹھہر جا یہاں تک کہ اس کو گھیر لیا جائے گا اور اس کو ایک گلاس سانپوں اور بچھوں کا زہر پلایا جائے گا جس کی وجہ سے ان کی کھال علیحدہ ہوجائے گی اور بال بھی علیحدہ ہوجائیں گے اور پٹھے بھی اور آنتیں بھی علیحدہ ہوجائیں گی۔ 13:۔ ابویعلی ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے (آیت ) ’ ’ زدنہم عذابا فوق العذاب “ کے بارے میں روایت کیا کی کہ اللہ تعالیٰ ان پر آگ کی پانچ نہروں انڈیلیں گے اس کی بعض (نہروں) سے ان کو عذاب دیا جائے گا رات کو اور بعض کے ذریعہ دن کو عذاب دیا جائے گا۔ 14:۔ ابن مردویہ نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا عذاب کی زیادتی (اس طرح ہوگی) پانچ نہریں عرش کے نیچے سے جاری ہوگی دوزخ والوں کے سروں پر تین نہریں رات کی مقدار پر اور دو نہریں دن کی مقدار پر اسی کو فرمایا (آیت ) ’ ’ زدنہم عذابا فوق العذاب بما کانوا یفسدون “۔ 15:۔ ابن مردویہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا کیا تو جانتا ہے جہنم کی وسعت کیا ہوگی ؟ میں نے کہا نہیں فرمایا ان میں سے ایک جہنمی کے کان کی لو کے درمیان اور اس کے کندھے کے درمیان ستر سال کا فاصلہ ہوگا اور) (ان کے درمیان) پیپ اور خون کی وادیاں جاری ہوں گی میں نے عرض کیا کیا نہریں ہوں گی ؟ فرمایا نہیں بلکہ وادیاں ہوگی (پیپ اور خون کی) 16:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب میں ہر چیز کے بیان کو نازل فرمایا اور البتہ تحقیق ہم نے جان لیا بعض ان چیزوں کو جو ہمارے لئے قرآن میں بیان کی گئیں پھر (یہ آیت) تلاوت فرمائی (آیت) ” وانزلنا علیک الکتب تبیانا لکل شیء “ 17:۔ سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں، ابن ضریس نے فضائل القرآن میں، محمد بن نصر نے کتاب اللہ میں، طبرانی اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص علم (حاصل کرنے) کا ارادہ کرے تو اس کو چاہئے کہ قرآن سے روشنی حاصل کرے کیونکہ اس میں اولین وآخرین کے علوم ہیں۔ 18۔ ابن ابی شیبہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ قرآن کو جلدی جلدی پڑھ کر نہ کاٹو بالوں کے کاٹنے کی طرح اور اس کو نہ بکھیر وردی کھجوروں کی طرح بکھیرنا اور اس کے عجائبات کے پاس ٹھہرو اور اس کے ساتھ اپنے دلوں کو حرکت دو (اس کے عجائبات میں غور وفکر کرتے ہوئے) 19:۔ ابن ابی شیبہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا دستر خوان ہے جو اس میں داخل ہوا وہ امن میں ہوگیا۔ دل کو قرآن کریم کے ساتھ مشغول رکھنا : 20:۔ ابن ابی شیبہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ یہ دل برتن ہیں اس کو قرآن کے ساتھ مشغول رکھو اور اس کو اس کے علاوہ کسی اور چیز سے مشغول نہ رکھو۔ 21:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” تبیانا لکل شیء “ سے مراد ہے (کہ ان چیزوں کو بیان کرنے والا ہے) کہ جن کے کرنے کا حکم دیا گیا اور جن سے روکا گیا۔ 22:۔ ابن ابی حاتم نے اوزاعی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ونزلنا علیک الکتب تبیانا لکل شیء “ سے مراد ہے سنت کے ذریعہ ہر چیز کو بیان کیا گیا۔ 23:۔ احمد نے عثمان بن ابی العاص ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اچانک آپ اوپر دیکھنے لگے اور فرمایا میرے پاس جبرئیل (علیہ السلام) آئے تھے اور مجھ کو حکم فرمایا کہ میں اس آیت کو اس سورة میں اس جگہ پر رکھ دوں (یعنی یہ آیت) ” ان اللہ یامر بالعدل والاحسان “ سے لے کر تذکرون “ تک۔ 24:۔ احمد اور بخاری نے ا دب میں ابن ابی حاتم طبرانی اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہمارے درمیان رسول اللہ ﷺ اپنے گھر کے صحن میں تشریف فرما تھے اچانک عثمان بن مظعون ؓ گزرے اور وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھ گئے اس درمیان کہ وہ باتیں کررہے تھے اچانک آپ نے اپنی نظروں کو آسمان کی طرف اٹھایا کچھ دیر آسمان کی طرف دیکھا پھر آپ نے اپنی آنکھوں کو نیچے کرلیا پھر زمین کی طرف اپنی دائیں جانب دیکھنے لگے رسول اللہ ﷺ اپنے پاس بیٹھنے والے عثمان سے ہٹ اس طرف ہوگئے جب جہاں آپ نے اپنا سرمبارک رکھا آپ اپنا سرمبارک اس طرح ہلاتے رہے گویا کہ آپ سمجھ رہے ہیں اب بات کو جو آپ سے کہی گئی جب اپنی ضرورت پوری کرلی تو رسول اللہ ﷺ نے پھر اپنی آنکھوں کو آسمان کی طرف بلند فرمایا جیسے پہلی مرتبہ فرمایا تھا پھر آپ جبرئیل (علیہ السلام) کو دیکھتے رہے یہاں تک کہ وہ آسمان میں چھپ گئے پھر آپ عثمان ؓ کے پاس پہلی جگہ پر آئے عثمان ؓ نے آپ سے اس کیفیت کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا میرے پاس ابھی جبرئیل (علیہ السلام) تشریف لائے تھے پوچھا آپ کو کیا پیغام دیا تھا آپ نے فرمایا یہ (آیت) ” ان اللہ یامر بالعدل والاحسان “ سے لے کر تذکرون “ تک (نازل ہوئی) عثمان ؓ نے فرمایا اس وقت میرے دل میں ایمان نے قرار پکڑ لیا اور میں محمد ﷺ سے محبت کرنے لگا۔ 25:۔ باوردی، ابن سکن، ابن مندہ اور ابونعیم نے معرفتہ الصحابہ میں عبدالملک بن عمیر ؓ سے روایت کیا کہ اکثم بن صیفی رسول اللہ ﷺ کے اعلان نبوت کی خبر پہنچی اس نے ارادہ کیا کہ آپ کے پاس آئے وہ اپنے قوم کے پاس آیا اور دو آدمیوں کو نمائندہ بنا کر بھیجا وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا ہم اکثم کے قاصد ہیں وہ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کون ہیں ؟ اور کس چیز کو لائے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں محمد بن عبداللہ ہوں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں پھر آپ نے ان پر یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) ” ان اللہ یامر بالعدل والاحسان “ سے لے کر تذکرون “ تک انہوں نے عرض کیا ہم پر یہ دوبارہ پڑھیں آپ نے ان پر دوبارہ پڑھا یہاں تک ان دونوں نے یاد کرلیا وہ دونوں اکثم کے پاس آئے اور اس کو خبر دی جب اس نے یہ آیت سنی تو کہا بلاشبہ میں اس کو دیکھتا ہوں کہ وہ حکم کرتے ہیں مکارم اخلاق کے ساتھ اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں (پھر اس نے کہا) پس تم اس کام میں سردار بن جاؤ (یعنی اس کام میں آگے آگے چلنے والے بنو) اور اس کام تابع نہ بنو (یعنی پیچھے نہ رہ جاؤ) اور اموی نے اپنے مغاذی میں بیان کیا اور زیادہ کیا کہ وہ (یعنی اکثم) سوار ہو کر نبی کریم ﷺ کی طرف چل پڑا (مگر) راستے میں موت آگئی اور کہا گیا کہ یہ (آیت) ” ومن یخرج من بیتہ مھاجرا الی اللہ ورسولہ ثم یدرکہ الموت “ النساء آیت 100) ان کے بارے میں نازل ہوئی۔ 26:۔ ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابن عباس ؓ سے (آیت) ” ان اللہ یامر بالعدل والاحسان “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں (آیت) ” والاحسان “ سے مراد ہے فرائض کی ادائیگی (آیت) ” وایتآیئ ذی القربی “ سے مراد ہے کہ (غریب) رشتہ داروں کو اپنا حق ادا کرنا جو اللہ تعالیٰ نے تجھ پر واجب کیا ہے قرابت اور رشتہ داری کے سبب سے (آیت) ” وینھی عن الفحشآء “ سے مراد ہے زنا ” والمنکر “ سے مراد ہے شرک ” والبغی “ سے مراد ہے تکبر اور ظلم ” یعظکم “ یعنی تم کو (اللہ تعالیٰ ) نصیحت فرماتے ہیں (آیت) ” لعلکم تذکرون “ تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔ 27:۔ سعید بن منصور، بخاری نے ادب میں، محمد بن نصر نے صلاۃ میں، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی حاکم بیہقی نے شعب الایمان میں (حاکم نے صحیح بھی کہا) اور ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ سب سے عظیم آیت اللہ کی کتاب میں (یہ ہے) (آیت) ” اللہ لا الہ الا ھو، الحی القیوم “ (آل عمران آیت 2) اور اللہ کی کتاب میں خیر اور شر کی جامع ترین آیت سورة نحل میں ہے یعنی (آیت) ” ان اللہ یامر بالعدل والاحسان “ اور اکثر آیت اللہ کی کتاب میں تفویض کے لحاظ سے (یہ ہے) (آیت) ” ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا (2) ویرزقہ من حیث لایحتسب “ (الطلاق آیت 3) اور اللہ کی کتاب میں سخت آیت امید کے لحاظ سے یہ ہے (آیت) ” یعبادی الذین اسرفوا علی انفسہم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ “۔ 28:۔ بیہقی نے شعب الایمان میں حسن ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے یہ (آیت) ” ان اللہ یامر بالعدل والاحسان “ آخرتک پڑھی پھر فرمایا اللہ عزوجل نے تمہارے لئے ساری خیر کو اور سارے شرکو اس ایک آیت میں جمع فرمادیا اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے اطاعت الہی میں عدل و احسان کو جمع فرما دیا ہے اور اللہ کی نافرمانی میں ہر برائی اور بدی کو بھی اس آیت میں جمع فرمادیا ہے۔ ؛ 29:۔ ابن نجار نے تاریخ میں عکلی (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کیا کہ علی بن ابی طالب ؓ ایک قوم کے پاس سے گذرے جو آپس میں باتیں کررہے تھے آپ نے پوچھا کس چیز کے بارے میں تم باتیں کررہے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا ہم آپس میں مروت کا تذکرہ کررہے ہیں انہوں نے فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ (یہ فرمان) کافی نہیں ہے جو اس کتاب میں ہے ؟ جب اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ” ان اللہ یامر بالعدل والاحسان “ عدل سے مراد ہے انصاف اور احسان سے مراد تفضل ہے اس سے کون سی بات باقی رہی۔ 30:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے (آیت) ” ان اللہ یامر بالعدل والاحسان “ کے بارے میں فرمایا یہ ہر اچھا اخلاق جاہلیت والے جس پر لوگ عمل کرتے تھے اور ایک دوسرے کو اس کی وعظ و نصیحت کرتے تھے اور اس سے ڈرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دے دیا اور ہر وہ براعمل جس کو وہ آپس میں عار سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا پس اس نے ہر باعث مذمت اخلاق اور بری خصلتوں سے منع فرمایا۔ عدل کی حقیقت کیا ہے ؟ 31:۔ ابن ابی حاتم نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو عمر بن عبدالعزیز (رح) نے بلایا اور فرمایا میرے لئے عدل کا وصف بیان کرو میں نے عرض کیا واہ واہ آپ نے بڑے عظیم کام کے بارے میں سوال کیا (فرمایا) تم چھوٹوں لوگوں کے لئے باپ بن جاؤ اور ان کے بڑوں کے لئے بیٹا بن جاؤ اور ہم مثلوں کے لئے بھائی بن جاؤ اور عورتوں کے لئے بھی اسی طرح ہوجاؤ اور لوگوں کو سزا دو ان کے گناہوں کے بقدر اور ان کے جسموں کے بقدر اور کسی کو اپنے غصہ کی وجہ سے ایک کوڑا بھی زائد نہ مارو (پھر) تم ہوجاؤ گے حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے۔ 32:۔ ابن ابی حاتم نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ جو تیرے ساتھ برائی کرے تو اس کے ساتھ احسان کر (واللہ اعلم )
Top