Al-Qurtubi - An-Nahl : 84
وَ یَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا ثُمَّ لَا یُؤْذَنُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ لَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَبْعَثُ : ہم اٹھائیں گے مِنْ : سے كُلِّ : ہر اُمَّةٍ : امت شَهِيْدًا : ایک گواہ ثُمَّ : پھر لَا يُؤْذَنُ : نہ اجازت دی جائے گی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا (کافر) وَ : اور لَا هُمْ : نہ وہ يُسْتَعْتَبُوْنَ : عذر قبول کیے جائیں گے
اور جس دن ہم ہر امت میں سے گواہ (یعنی پیغمبر) کھڑا کریں گے تو نہ تو کفار کو (بولنے کی) اجازت ملے گی اور نہ ان کے عذر قبول کئے جائیں گے۔
آیت نمبر 84 قولہ تعالیٰ : ویوم نبعث من کل امۃ شھیدا اس کی نظیر یہ آیت ہے : فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید (النساء : 41) اور اس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ ثم لا یؤذن للذین کفروا یعنی انہیں عذر پیش کرنے اور کوئی کلام کرنے کے بارے میں اجازت نہیں دی جائے گی، جیسا کہ یہ ارشاد گرامی ہے : ولا یؤذن لھم فیعتذرون۔ (المرسلات) اور یہ اس وقت ہوگا جب ان پر جہنم بند کردی جائے گی، جیسا کہ سورة الحجر کے شروع میں گزر چکا ہے اور آگے بھی آرہا ہے۔ ولاھم یستعتمون یعنی نہ ان کی رضا مندی کا مطالبہ کیا جائیگا، مراد یہ ہے کہ انہیں اس کا مکلف اور پابند نہیں کیا جائے گا کہ وہ اپنے رب کو راضی کریں ؛ کیونکہ آخرت دار تکلیف نہیں ہے اور نہ انہیں دنیا کی طرف رجوع کے لئے چھوڑا جائے گا کہ وہ توبہ کرلیں۔ یہ کلمہ دراصل العتب سے ماخوذ ہے اس کا معنی ناراضگی اور خفگی کا اظہار کرنا ہے، کہا جاتا ہے : عتب علیہ یعتب جب وہ اس پر ناراضگی اور عتاب کا اظہار کرے۔ اور جب وہ اس سے مذاکرہ کرے اس کے بارے جس کی وجہ سے اس نے اس پر عتاب کیا تو اس کے لئے کہا جاتا ہے : عاتبہ، اور جب وہ تجھے خوش کرنے اور راضی کرنے کی طرف لوٹ آئے تو اس کے لئے کہا جاتا ہے : أعتب، اور اس کا اعم العتبی ہے اور اس سے مراد معتوب علیہ کا اس کی طرف رجوع کرنا ہے کہ وہ عتاب کرنے والے کو راضی اور خوش کرسکے ؛ یہ مروی نے کہا ہے۔ اور نابغہ نے کہا ہے : فإن کنت مظلوما فعبدا ظلمتہ وإن کنت ذا عتبی فمثلک لیعتب
Top