Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 84
وَ یَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا ثُمَّ لَا یُؤْذَنُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ لَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَبْعَثُ : ہم اٹھائیں گے مِنْ : سے كُلِّ : ہر اُمَّةٍ : امت شَهِيْدًا : ایک گواہ ثُمَّ : پھر لَا يُؤْذَنُ : نہ اجازت دی جائے گی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا (کافر) وَ : اور لَا هُمْ : نہ وہ يُسْتَعْتَبُوْنَ : عذر قبول کیے جائیں گے
اور (وہ دن بھی یاد کرو، اے لوگو ! جس دن کہ ہم ہر امت سے ایک گواہ کھڑا کریں گے پھر ان لوگوں کو جو کہ (زندگی بھر) اڑے رہے ہوں گے اپنے کفر (و باطل) پر، نہ ان کو (کسی عذر و معذرت کی) کوئی اجازت دی جائے گی، اور نہ ہی ان سے (اپنے رب کو) راضی کرنے کا کوئی مطالبہ کیا جائے گا،3
175۔ روز قیامت کی تذکیرویاد دہانی :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” یاد کرو اس عظیم الشان اور ہولناک دن کو کہ جس دن ہم ہر امت سے ایک گواہ کھڑاکریں گے “ جو ان کے اعمال و کردار کے بارے میں گواہی دیگا تاکہ ہر کسی کو اس کے زندگی بھر کے کیے کرائے کا پورا پورا بدلہ مل سکے۔ اور اس طرح عدل وانصاف کے تقاضے اپنی آخری شکل میں اور کامل طور پر پورے ہوسکیں، اور گواہ سے مراد ہر امت کا پیغمبر ہے جو اپنی امت کے بارے میں یہ گواہی دے گا کہ دعوت حق کے جواب میں ان لوگوں نے کیا کیا اور کیا کہا تھا۔ (ابن کثیر، محاسن التاویل جامع البیان اور مراغی و معارف وغیرہ) سو اس ہولناک دن کو ہمیشہ یاد رکھو اے لوگو اور اس کیلئے تیاری کرو کہ اس کیلئے تیاری کا موقع اور اس کی فرصت یہ دنیاوی زندگی ہے اور بس۔ اس کے بعد اس کیلئے تیاری کا پھر کوئی موقع نہیں ہوگا وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی مایحب ویرید۔ 176۔ قیامت کے روز کسی کے لئے کسی عذر و معذرت کی کوئی گنجائش نہیں ہوگئی :۔ سو اس سے واضح فرمادیا گیا کہ وہاں کسی کو کسی عذرومعذرت کی کوئی اجازت نہ ہوگی۔ چناچہ فرمایا گیا کہ ” کافروں کو وہاں پر کسی عذر و معذرت کی کوئی اجازت نہیں دی جائے گی “ کہ ان کیلئے کسی عذر کی کوئی گنجائش ہوگی ہی نہیں۔ (جامع البیان وغیرہ) کیونکہ اللہ ان کے سب کرتوتوں سے پوری طرح واقف وآگاہ ہوگا۔ اور حضرات انبیائے کرام کی گواہی ان کیلئے فیصلہ کن ہوگی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا (فلنسئلن الذین ارسل الیہم والنسئلن المر سلین۔ (الاعراف : 6) یعنی ” ہم نے ضرور بالضرور پوچھنا ہے ان لوگوں سے جنکی طرف رسولوں کو بھیجا گیا اور ہم نے ضرور پوچھنا ہے رسولوں سے “ اور یہ مضمون اس کے علاوہ اور بھی کئی مقامات پر بیان فرمایا گیا ہے۔ 177۔ اور نہ ہی کسی سے راضی کرنے کو کہا جائے گا :۔ یعنی نہ ہی ان سے اپنے رب کو راضی کرنے کا کہا جائے گا۔ توبہ واستغفار وغیرہ کے ذریعے۔ جیسا کہ دنیا میں ان سے کہا جایا کرتا تھا کہ وہ جہاں ” درالجزاء ہوگا نہ کہ ” دارالعمل “ یہ لفظ ” عتبی “ سے ماخوذ ومشتق ہے۔ جس کے معنی رضاء رجوع کرنے اور لوٹنے کے آتے ہیں۔ اور ” استعتاب “ کے معنی ہوں گے کسی سے راضی کرنے اور رجوع کا مطالبہ کرنا۔ یعنی یہ کہ جس ناراضگی اور دکھ دہی کا تم نے ارتکاب کیا اس سے رجوع کرو اور معافی مانگو۔ اور اس طرح اپنے رب کو راضی کرو۔ (محاسن، صفوۃ، مراغی وغیرہ) ۔ سو قیامت کے روز اس کا کوئی موقع نہیں ہوگا۔ سو اس روز اس طرح کے کسی سوال اور مطالبے کا کوئی موقعہ نہیں ہوگا کہ اس سب کا موقعہ گزر چکا ہوگا۔ جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ” فمابعد الموت من مستغتب ولابعد الدنیا من دار الا الجنۃ والنار ” یعنی “ نہ موت کے بعد کسی کے لئے رب کو راضی کرنے کی کوئی صورت ممکن ہوگی اور نہ ہی دار دنیا کے بعد کسی کیلئے کوئی گھر ہوگا سوائے جنت کے یا دوزخ کی آگ کے “۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو آخرت کیلئے کمائی کا موقع اسی دنیاوی زندگی میں ہے اور بس۔
Top