Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 28
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ١ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
کَيْفَ : کس طرح تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو بِاللہِ : اللہ کا وَكُنْتُمْ : اور تم تھے اَمْوَاتًا : بےجان فَاَحْيَاكُمْ : سو اس نے تمہیں زندگی بخشی ثُمَّ يُمِیْتُكُمْ : پھر وہ تمہیں مارے گا ثُمَّ : پھر يُحْيِیْكُمْ : تمہیں جلائے گا ثُمَّ : پھر اِلَيْهِ : اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : لوٹائے جاؤگے
(کافرو ! ) تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو جس حال میں کہ تم بےجان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی پھر وہی تم کو مارتا ہے پھر وہی تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے
(2:28) کیف حرف استفہام ہے۔ کیسے، کیونکر، کس طرح۔ یہاں سوال سے مقصود کفار کی جرأت انکار پر استعجاب ہے یا برائے زجر و توبیخ آیا ہے۔ کیف کا استعمال قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی آیا ہے سیاق ہمیشہ توبیخ و تنبیہ ہی رہا ہے۔ وکنتم ۔۔ الخ جملہ حالیہ ہے۔ جملہ کیف تکفرون سے ھال ہے (توجہیہ کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر حقانی آیتہ ہذا) الف : کنتم امواتا (حالانکہ) تم بےجان تھے۔ پیدائش سے پہلے، صلب پدر میں تشکیل سے پہلے۔ ثم حرف عطف ہے ماقبل سے مابعد کے متاخر ہونے پر دلالت کرتا ہے خواہ یہ متاخر ہونا۔ بالذات ہو۔ مثلاً اثم اذا ماوقع امنتم بہ (10:51) کیا جب وہ آواقع ہوگا تب اس پر ایمان لاؤ گے۔ یا یہ متاخر ہونا رتبہ یا مرتبہ کے لحاظ سے ہو ایسے موقع پر اس کے معنی ہوتے ہیں : اس سے بھی بڑھ کر، مثلاً اگلی ہی آیت (2: 29) میں ارشاد ہوتا ہے : ثم استوی الی السماء فسوھن سبع سموت اس کے معنی یہ ہیں (اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ) وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں سات آسمان درست کرکے بنا دیئے۔ زمین ومافیہا کی خلقت کے بعد آسمانوں کی تخلیق کا ذکر مؤخر الذکر کی عظمت و تفضل کے لئے ہے۔ ورنہ قرآن مجید میں آسمانوں کے بنائے جانے کے بعد زمین کا بنایا جانا صاف ظاہر ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : والارض بعد ذلک دحھا (79:30) اور اس کے بعد اس نے زمین کو پھیلایا۔ تراخی فی المرتبہ کی دوسری مثال وبدا خلق الانسان من طین (7) ثم جعل نسلہ من سللۃ من ماء مھین (8) ثم سوہ ونفخ فیہ من روحہ (9) (32: 7-9) اور اس نے انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا۔ پھر اس کی نسل خلاصے سے (یعنی) حقیر پانی سے پیدا کیا ۔ پھر اس کو درست کیا۔ پھر اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی۔ اس میں تراخی فی الوقت بھی ہے۔ تراخی فی المرتبہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا شعر ہے : فعار ثم عار ثم عار شقاء المرء من اکل الطعام شرم کی بات ہے۔ بہت ہی شرم کی بات ہے بہت ہی شرم کی بات ہے۔ کہ آدمی کھانا کھا کر بیمار ہوجائے۔ یا متاخر ہونا وقت کے لحاظ سے ہو۔ مثلا ً ثم عفونا عنکم من بعد ذلک لعلکم تشکرون ۔ (2:52) پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا تاکہ تم شکر کرو، (ا) ثم عام طور پر تراضی وقت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ بمعنی پھر، اس کے بعد۔ (ب) ثم یمیتکم پھر تمہیں ماریگا دنیوی زندگی ختم ہونے پر۔ (ج) ثم یحیکم پھر تمہیں زندہ کرے گا یعنی جس دن صور پھونکا جائے گا۔ تو پھر تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا۔ (د) ثم الیہ ترجعون پھر تم اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے (حساب و کتاب اور سزاو جزا کے لئے) ترجعون مضارع مجہول جمع مذکر حاضر۔ رجع (باب ضرب) مصدر سے۔
Top