Tafseer-e-Mazhari - An-Naml : 28
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ١ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
کَيْفَ : کس طرح تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو بِاللہِ : اللہ کا وَكُنْتُمْ : اور تم تھے اَمْوَاتًا : بےجان فَاَحْيَاكُمْ : سو اس نے تمہیں زندگی بخشی ثُمَّ يُمِیْتُكُمْ : پھر وہ تمہیں مارے گا ثُمَّ : پھر يُحْيِیْكُمْ : تمہیں جلائے گا ثُمَّ : پھر اِلَيْهِ : اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : لوٹائے جاؤگے
(کافرو!) تم خدا سے کیوں کر منکر ہو سکتے ہو جس حال میں کہ تم بےجان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی پھر وہی تم کو مارتا ہے پھر وہی تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے
كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ باللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ( تم کیونکہ خدا کا انکار کرسکتے ہو حالانکہ تم بےجان تھے پھر اسی نے تم میں جان ڈالی پھر وہی تمہیں مارتا ہے پھر وہی تمہیں (قیامت میں دوبارہ جلائے گا۔ پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے) یعنی باوجود اسکے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر بےانتہا دلائل ہیں پھر کیونکر انکار کرسکتے ہو۔ اَمْوَاتًا سے مراد عناصر غذائیں، اخلاط اور نطفے، خون بستہ، گوشت کے ٹکڑے اور جسم بلا روح ہے ( کیونکہ جان پڑنے سے پہلے آدمی ان ہی اشیاء میں سے کوئی شئے ہوگا۔ جاننا چاہئے کہ انسان دس چیزوں سے مرکب ہے پانچ عالم خلق سے یعنی چار تو عناصر ( پانی، آگ، ہوا، خاک، پانچواں نفس حیوانی جو اربعہ عناصر سے ہی پیدا ہوتا ہے اور پانچ) عالم امر سے قلب، روح، سر، خفی، اخفی ( اوّل کے پانچ جز تو ظاہر ہی ہیں دلیل کی حاجت نہیں) آخر الذکر پانچ بھی جسے فراست صحیحہ اسلامیہ ہو اس پر مخفی نہیں اس آیۃ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان جملہ اجزاء میں سے عناصر اربعہ خصوصاً خاک زیادہ مہتم بالشان ہے۔ اسی لیے حق تعالیٰ نے منجملہ اور اجزاء کے اس خاک کو خاص کرکے فرمایا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍیعنی اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور اس لیے کافر یعنی شیطان (قیامت کے دن جبکہ اس طائر قفس خاکی کے مراتب اور درجات دیکھئے گا تو بےاختیار بول اٹھے گا : یَا لَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا (اے کاش میں مٹی ہوتا) اور اسی وجہ سے منجملہ انواع مخلوق کے یہ حضرت انسان ہی حق تعالیٰ کی رویت کے ساتھ خاص کیا گیا ہے اور اسی یے وہ مشاہدہ قلبیہ کو رستہ کی پڑی ہوئی چیز جیسی خیال کرتے ہیں۔ فَاَحْیَاکُم پھر اسی نے تم میں جان ڈالی یعنی پھر تمہیں عالم امر کے عناصر خمسہ مذکورہ کے ساتھ ترکیب دے کے زندہ کیا اور فا کے ساتھ عطف اس لیے فرمایا کہ زندہ کرنے اور اس موت میں جو عناصر کو لازم ہے کوئی مدت فاصل نہیں ہے ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ پھر تمہیں مدت گذر جانے کے بعد مارتا ہے (یہاں ثم کے ساتھ اس لیے عطف کیا کہ یہ موت عمر کے ختم ہونے پر ظہور میں آتی ہے) بےجان ہونے کو نعمتوں میں سے اس لیے شمار کیا کہ نیست سے ہست ہونا نعمت اور خبر مخض ہے کیونکہ اس میں وجودِحقیقی سے مشابہت ہے اور پھر موت کو جو عمر کے اختتام پر واقع ہوتی ہے اس لیے انعامات میں سے گنا کہ وہ ابدی حیات تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ یعنی جس دن صور پھونکا جائے گا تو پھر تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ قبر میں حیات نہ ہوگی کیونکہ حیات دس اجزاء مذکورہ کی ترکیب کا نام ہے اور یہ ظاہر ہے کہ قبر میں یہ اجزاء مجتمع نہ ہونگے اس لیے وہاں زندگی متصور نہیں ہوسکتی۔ ( رہی یہ بات کہ جب قبر میں حیات نہ ہوگی تو ثواب و عذاب کیسے ہوگا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے لیے خاصہ اس حیات کا ہونا ضروری نہیں ہے) ثواب و عقاب اجزاء بسیط پر بھی ہوسکتا ہے اور جو بندہ اللہ تعالیٰ کی ان آیات پر ایمان رکھتا ہے اسے تو عذاب قبر کے انکار کی گنجائش ہی نہیں چناچہ حق تعالیٰ فرماتا ہے : وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَ لٰکِنْ لَّا تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ ( ایسی کوئی چیز نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو مگر تم لوگ اس کی تسبیح نہیں سمجھتے) اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدً لَہٗ مَنِْ فی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَکَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِکیا تو نے نہیں دیکھا ( اے مخاطب) کہ اللہ کو سجدہ کرتے ہیں جو آسمانوں اور جو زمین میں ہیں اور سورج، چاند، ستارے اور پہاڑ، درخت، چوپائے اور بہت سے آدمی) اور حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ کا نام لے کر پکارتا اور دریافت کرتا ہے کہ تجھ پر کوئی اللہ کا یاد کرنے والا بھی آیا ہے ؟ وہ اگر جواب دیتا ہے کہ ہاں آیا ہے تو خوش ہوتا ہے۔ اس حدیث کو طبرانی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اِنَّا عَرَضْنَا الْاََمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا ( ہم نے دکھائی امانت (تکلیف شرعیہ) آسمان اور زمین اور پہاڑوں کو پھر سب نے ( ازراہ عجز) قبول نہ کیا کہ اسے اٹھائیں اور اس سے گھبرا گئے۔ ) یہ بات ظاہر ہے کہ ان نصوص میں تسبیح سجود زبان حال اور دلالت حال سے مراد نہیں کیونکہ یہ جو فرمایا ہے کہ تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے اور دوسرے مقام پر فرمادیا کہ بہت سے لوگ بھی سجدہ کرتے ہیں تو یہ دونوں مضمون اس تاویل کا بڑے زور سے انکار کر رہے ہیں۔ 1 ؂ ( بلکہ قطعاً حقیقی سجود اور حقیقی تسبیح مراد ہے) ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجِعُوْنَیعنی حشر کے بعد پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے تو وہ تمہارے اعمال کی تم کو جزا دے گا۔ یعقوب کی قرأت تمام قرآن میں تَرْجِعُوْناور یَرْجِعُوْنَ بفتح تادیا معروف کے صیغہ سے ہے یہ آیت مدنیہ ہے اس میں کفار یہود اور منافقوں کو خطاب ہے اور یہ ظاہر ہے کہ یہود حشر و نشر کے معتقد و معترف تھے ( کہ اہل کتاب ہیں (تو اب یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مخاطب تو حشر و نشر کے قائل نہیں پھر یہ آیت ان پر کس طرح حجت ہوسکتی ہے) ایک طرح منکرین بعث کو بھی خطاب ہوسکتا ہے یا تو اس طرح کہ ان کے انکار کو بوجہ دلائل کثیرہ صدق رسول اللہ ﷺ بمنزلہ عدم ٹھہرا کر خطاب کہا گیا ہے ( جیسا کہ بلاغت کا قاعدہ ہے) اور یا اس طریق سے کہ اللہ تعالیٰ کو اس طرف اشارہ فرمانا منظور ہے کہ جس قادرمطلق نے تمہیں عدم محض سے موجود کردیا ہے وہ دوسری دفعہ زندہ کرنے پر تو بطریق اولیٰ قادر ہے۔
Top