Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 28
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ١ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
کَيْفَ : کس طرح تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو بِاللہِ : اللہ کا وَكُنْتُمْ : اور تم تھے اَمْوَاتًا : بےجان فَاَحْيَاكُمْ : سو اس نے تمہیں زندگی بخشی ثُمَّ يُمِیْتُكُمْ : پھر وہ تمہیں مارے گا ثُمَّ : پھر يُحْيِیْكُمْ : تمہیں جلائے گا ثُمَّ : پھر اِلَيْهِ : اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : لوٹائے جاؤگے
تم لوگ کس طرح کفر کرسکتے ہو اللہ سے،98 درآنحالیکہ تم بےجان تھے،99 ۔ سو اس نے تمہیں جاندار کیا،100 ۔ پھر وہی تمہیں موت دے گا،101 ۔ پھر وہی تمہیں زندہ کرے گا،102 پھر اسی کی طرف تم واپس کئے جاؤگے،103 ۔
98 ۔ (اے کافرو اور منکرو ! ) یعنی کفروانکار کی جرأت وہمت کس طرح رکھتے ہو ؟ سوال سے مقصود ان کی جسارت پر استعجاب ہے۔ علی وجہ التعجب (ابن عباس ؓ فالمرادبہ التکبیت والتعفیف (کبیر) لفظ (آیت) ” کیف “ کا استعمال قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی حق تعالیٰ کے سلسلہ میں آیا ہے، سیاق ہمیشہ تنبیہ یا تو بیخ ہی کا رہا ہے۔ وکل ما اخبر اللہ تعالیٰ بلفظۃ کیف عن نفسہ فھو استخبار علی طریق التنبیہ للمخاطب اوتوبیخا (راغب) 99 (صلب پدر میں) یعنی ابھی تمہاری تشکیل ہوئی بھی نہ تھی۔ 100 (رحم مادر میں) نعمتوں میں سب سے مقدم صفت حیات ہے کہ دوسری ساری نعمتوں سے استفادہ اسی کے بعد ممکن ہے۔ اس لیے ذکر میں بھی اسے یہاں سے مقدم رکھا۔ 101 (اس دنیوں مدت زندگی کے خاتمہ پر) بیان توحید کا مل کا ہورہا ہے، کہ خلق احیاء افنا سب قوتیں باری تعالیٰ ہی کی ہیں۔ یہ نہیں جیسا کہ بعض مشرک قوموں کا عقیدہ ہے کہ موجد و خالق برہما جی ہیں، اور قائم و باقی رکھنے والے وشنوجی، اور موت وہلاکت لانے والے شیوجی ، 102 ۔ (حشر میں) حشر کا عقیدہ اسلام کے بنیادی عقائد میں ہے، بغیر اس کے اس محدود، مختصر زندگی میں نظام عدل کا قیام ممکن ہی نہیں۔ 103 (حساب و کتاب کے لیے) انسان کو جزاوسزا اعمال کی جوابدہی کے لیے براہ راست اللہ ہی کے حضور میں پیش ہونا ہے۔ اس میں رد آگیا مسیحی مشرکوں کے اس عقیدہ کا کہ حشر میں پیشی مسیح کے حضور میں ہوگی۔
Top