Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 28
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ١ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
کَيْفَ : کس طرح تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو بِاللہِ : اللہ کا وَكُنْتُمْ : اور تم تھے اَمْوَاتًا : بےجان فَاَحْيَاكُمْ : سو اس نے تمہیں زندگی بخشی ثُمَّ يُمِیْتُكُمْ : پھر وہ تمہیں مارے گا ثُمَّ : پھر يُحْيِیْكُمْ : تمہیں جلائے گا ثُمَّ : پھر اِلَيْهِ : اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : لوٹائے جاؤگے
(کافرو ! ) تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو جس حال میں کہ تم بےجان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی پھر وہی تم کو مارتا ہے پھر وہی تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے
آیت نمبر 28 کیف حالت کے متعلق سوال ہے۔ یہ اسم ہے اور تکفرون کی وجہ سے محل نصب میں ہے یہ مبنی برفتحہ ہے اس کو ساکن ہونا تھا کیونکہ اس میں اس استفہام کا معنی ہے جس کا معنی تعجب ہے۔ پس اس کو حروف سے مشابہت دی گئی اور فتح کی خفت کی وجہ سے اس کے لئے فتحہ اختیار کیا گیا یعنی یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن پر تعجب کرنا واجب ہے جب انہوں نے کفر کیا حالانکہ ان پر حجت ثابت ہوچکی ہے۔ اگر کہا جائے کہ یہ خطاب اہل کتاب کو ہونا کیسے جائز ہے کیونکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کا انکار نہیں کرتے تھے۔ اس کا جواب پہلے گزر چکا ہے کہ جب انہوں نے محمد ﷺ کی نبوت کو تسلیم نہ کیا اور جو کچھ آپ احکام لے کر آئے اس کی تصدیق نہ کی تو انہوں نے شرک کیا کیونکہ انہوں نے یہ اقرار نہ کیا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو یہ گمان کرے کہ قرآن انسان کا کلام ہے اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا اور وہ عہد کو توڑنے والا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : کیف کا لفظ تو لفظ استفہام ہے لیکن معنی استفہام نہیں بلکہ یہ تقریر اور توبیخ کے لئے ہے یعنی تم کیسے اس کی نعمت کا انکار کرتے ہو جبکہ اس کی قدرت یہ ہے (1) ۔ الواسطی نے کہا : اس کلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انہیں حد درجہ کی توبیخ فرمائی کیونکہ مردوں اور جمادات سے اس کا صانع کسی چیز میں جھگڑا نہیں کرتا۔ منازعت (جھگڑا) ہیاکل روحانیہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وکنتم امواتاً یہ واو حالیہ ہے اور قدمضمرۃ ہے۔ زجاج نے کہا : تقدیر عبارت وقد کنتم ہے۔ پھر قد حذف ہوگیا۔ فراء نے کہا امواتاً ، کنتم کی خبر ہے۔ فاحیاکم ثم یمیتکم یہاں وقف تام ہے۔ ابو حاتم نے اسی طرح کہا پھر فرمایا : ثم یحییکم اہل تاویل نے ان دو موتوں اور دو زندگیوں کی ترتیب میں اختلاف کیا ہے اور انسان کے لئے کتنی موتیں اور کتنی زند گیا ہیں اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ حضرات ابن عباس اور ابن مسعود نے فرمایا : یعنی تم تخلیق سے پہلے معدوم تھے۔ فاحیاکم اس نے تمہیں پیدا کیا۔ ثم یمیتکم پھر تمہاری عمروں کے مکمل ہونے کے وقت تمہیں موت دے گا ثم یحییکم پھر تمہیں قیامت کے روز زندہ کرے گا۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ قول اس آیت سے مراد ہے۔ کفار کو اس قول سے انکار نہیں تھا کیونکہ وہ ان دونوں چیزوں کا اقرار کرتے تھے (2) ، جب کفار کے نفوس کو یقین تھا کہ وہ معدوم تھے اور پھر دنیا میں انہیں پیدا کیا پھر اس دنیا میں انہیں مارنے کا بھی یقین تھا تو ان پر دوبارہ زندہ کرنے کا لزوم قوی ہوگیا۔ اب ان کا آخرت میں اٹھنے کا انکار ایسا دعویٰ تھا جس پر کوئی دلیل نہ تھی۔ دوسرے علماء نے کہا : اس تاویل پر قبر کی زندگی دنیا کی زندگی کے حکم میں ہوگا۔ بعض علماء نے فرمایا : اس زندگی کا کوئی اعتبار نہیں جس میں اس کی موت کا اعتبار نہیں کیا گیا جسے دنیا میں اللہ تعالیٰ نے مارا پھر دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ نے اسے زندہ کیا۔ بعض علماء نے فرمایا : کنتم امواتا یعنی آدم کی پیٹھ میں تم مردہ تھے پھر اس نے تمہیں اس کی پیٹھ سے چیونٹیوں کی صورت میں نکالا ثم یمیتکم پھر تمہیں دنیا کی موت دے گا پھر تمہیں اٹھائے گا۔ بعض نے فرمایا کنتم امواتاً یعنی تم مردوں کی صلبوں اور عورتوں کے رحموں میں نطفہ کی صورت میں تھے پھر اس نے تمہیں رحموں سے نقل کیا فاحیاکم اور تمہیں زندگی بخشی ثم یمیتکم پھر تمہیں اس زندگی کے بعد موت دے گا پھر سوال کے لئے تمہیں زندہ کرے گا پھر تمہیں قبر میں موت دے گا پھر حشر کی طرف لے جانے کے لئے نشر کی زندگی دے گا۔ یہ ایسی زندگی ہے جس کے بعد موت نہیں۔ میں کہتا ہوں : اس تاویل پر تین موتیں اور تین زندگیاں ہوں گی اور ان کا آدم کی پیٹھ میں مروہ ہونا اور ان کا آدم کی پیٹھ سے نکلنا اور ان پر گواہی دینا مگر ان کے باپوں کی صلبوں اور مادؤں کی رحموں میں ان کا نطفہ نہ ہونا اس صورت میں چار موتیں اور چار زندگیاں ہوجائیں گی۔ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی تخلیق سے پہلے لوگوں کو ذروں کی صورت میں پیدا کیا پھر انہیں موت دی۔ اس صورت میں پانچ موتیں اور پانچ زندگیاں ہوجائیں گی چھٹی موت امت محمد ﷺ کے مجرموں کے لئے جب وہ آگ میں داخل ہوں گے کیونکہ حضرت ابو سعید خدری کی حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رہے دوزخی جو دوزخ والے ہیں وہ اس میں نہ مریں گے نہ زندہ ہوں گے لیکن کچھ لوگ جنہیں آگ لگے گی ان کے گناہوں کے سبب پھر اللہ انہیں موت دے گا حتیٰ کہ جب وہ کوئلہ بن جائیں تو اذن شفاعت ہوگا انہیں گروہوں کی صورت میں لایا جائے گا پھر جنت کی نہروں پر انہیں بکھیر دیا جائے گا۔ پھر کہا جائے گا : اے اہل جنت ! ان پر پانی بہاؤ۔ پس اس طرح ان پر گوشت پیدا ہوجائے گا جیسے سیلاب کی مٹی پر بوٹی پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک شخص نے کہا : گویا کہ رسول اللہ ﷺ جنگل میں بکریاں چراتے تھے (1) ۔ (مسلم) میں کہتا ہوں : آپ ﷺ کے ارشاد اماتہ اللہ اماتۃ ً (اللہ پھر انہیں موت دے گا) اس سے حقیقۃ موت مراد ہے کیونکہ مصدر کے ساتھ تاکید لگائی گئی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ بھی جائز ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے نیند طاری کر کے انہیں عذاب سے غائب کردیا ہو اور یہاں حقیقی موت مراد نہ ہو لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ نحویوں کا اجماع ہے کہ جب فعل کی مصدر کے ساتھ تاکید لگائی گئی ہو تو وہاں مجاز مراد نہیں ہوتا بلکہ حقیقت مراد ہوتی ہے جیسے کلم اللہ موسیٰ تکلیما۔ (النساء) جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا۔ بعض علماء نے فرمایا اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کنتم امواتاً یعنی تم گمنام تھے فاحیاکم اس نے زندگی بخشی کہ تمہارا ذکر کیا گیا اور تم اس دین اور اس نبی کریم ﷺ سے مشرف ہوئے جو تمہارے پاس آیا۔ پھر وہ تمہیں موت دے گا۔ پس تمہارا ذکر ختم ہوجائے گا پھر تمہیں بعث کے لئے زندہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ثم الیہ ترجعون پھر اس کے عذاب کی طرف، اپنے کفر کی وجہ سے لوٹنا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ معنی ہے کہ زندگی کی طرف اور سوال کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کما بد انا اول خلق نعیدہ (الانبیاء : 104) پس اس کا دوبارہ زندہ کرنا ان کے ابتدا میں زندہ کرنے کی طرح ہے اور یہی رجوع ہے اور ترجعون اکثر قراء کی قراءت ہے۔ یحییٰ بن یعمر، ابن ابی اسحٰق، مجاہد، ابن محیص، سلام بن یعقوب نے حرف مضارع کو فتح اور جیم کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے جہاں بھی یہ لفظ آیا ہے۔
Top