Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 28
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ١ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
کَيْفَ : کس طرح تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو بِاللہِ : اللہ کا وَكُنْتُمْ : اور تم تھے اَمْوَاتًا : بےجان فَاَحْيَاكُمْ : سو اس نے تمہیں زندگی بخشی ثُمَّ يُمِیْتُكُمْ : پھر وہ تمہیں مارے گا ثُمَّ : پھر يُحْيِیْكُمْ : تمہیں جلائے گا ثُمَّ : پھر اِلَيْهِ : اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : لوٹائے جاؤگے
کس طرح تم کفر کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ، حالانکہ تم بےجان تھے پس اللہ تعالیٰ نے تم کو زندگی بخشی۔ پھر وہ تم پر موت طاری کرتا ہے۔ پھر وہ تم کو دوبارہ زندہ کرے گا پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے
گزشتہ سے پیوستہ : اس سے پہلی آیات میں ان لوگوں کا رد فرمایا۔ جو قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے کا انکار کرتے تھے کیونکہ اس کلام میں مچھر ، مکھی جیسی حقیر چیزوں کا بیان ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اعلیٰ وارفع ہے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مچھر یا اس سے بھی کم تر چیز کی مثال بیان کرنے سے نہیں شرماتا۔ کیونکہ اس کی کوئی بات حکمت سے خالی نہیں ہوتی۔ بعض اوقات اد نیٰ چیزوں میں بھی اہم باتیں ہوتی ہیں۔ اس لیے ایسی کسی چیز کے بیان سے اجتناب کرنا خلاف حکمت ہوتا ہے۔ معترضین کا اس قسم کا اعتراض ان کی ناسمجھی کی دلیل ہے۔ البتہ ایمان والے خوب سمجھتے ہیں کہ قرآن پاک ان کے رب کی طرف سے حق ہے۔ ناسمجھ لوگ کہتے ہیں کہ ایسی حقیر چیز کی مثال بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ کو کیا مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایسی ہی مثال کے ذریعے وہ بہتوں کو ہدایت سے نوازتا ہے۔ اور بہتوں کو گمراہ کردیتا ہے مگر گمراہ وہی لوگ ہوتے ہیں ۔ جو نافرمان ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی تین خصلتیں بیان فرمائیں۔ کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد و پیمان کو توڑتے ہیں۔ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے یہ لوگ انہیں توڑتے ہیں۔ اور یہ لوگ زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ فرمایا یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں گویا قرآن کا انکار ، معاد کا انکار ، رسالت کا انکار یا خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا اور اس کی صفات کا انکار سب کا مال (انجام) ایک ہی ہے ۔ ان سب باتوں پرا یمان لانا ضروری ہے۔ ورنہ انسان کافر ہوجاتا ہے۔ ان میں سے ایک چیز کا انکار بھی۔ اللہ تعالیٰ کے انکار کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر : اس مقام پر اللہ تعالیٰ اپنی بعض نعمتوں کا ذکر کرکے انسان کو مخاطب فرماتے ہیں۔ کہ “ کیف تکفرون باللہ ” یہ انعام پانے کے باوجود تم اللہ تعالیٰ کی ذات کا کیسے انکار کرتے ہو۔ تمہارا انکار محض جہالت ، ضد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر ہے ورنہ اس کے حق میں تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا “ ومن یدع مع اللہ الھا اخر ، لا برھان لہ بہ فانما حسابہ عند ربہ ” یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارتا ہے۔ یعنی شرک کرتا ہے۔ اس کے پاس ایسا کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور اس کا حساب تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ یہی بات یہاں پر بیان کی گئی ہے کہ تمہارے پاس کفر کرنے کی کون سی دلیل ہے “ کیف تکفرون ” تمہارے لیے کفر کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ تکفرون باللہ میں نہ صرف خدا تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے کا بیان ہے بلکہ اس میں ایمان لانے کی دوسری چیزیں بھی شامل ہیں۔ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان کیوں نہیں لاتے ا س کے کلام کا کیسے انکار کرتے ہو۔ اس کے بھیجے ہوئے رسولوں کو کیوں نہیں مانتے۔ اور معاد پر تمہارا ایمان کیوں نہیں ہے۔ گویا “ کیف تکفرون باللہ ” میں وہ تمام چیزیں آگئیں جن کا کفار انکار کرتے تھے۔ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 67) کہ “ کیف تکفرون باللہ ” کا تعلق گزشتہ آیت “ یایھا الناس اعبد وا ربکم الذی خلقکم ” کے ساتھ ہے وہاں پر بھی بعض انعامات کا تذکرہ فرمایا۔ کہ اے لوگو ! اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا تمہارے لیے زمین و آسمان کو پیدا کیا ، پھر آسمان سے بھی پانی نازل کرکے زمین کو سیراب کیا۔ اور تمہارے لیے پھل پیدا کیے۔ اس مقام پر موت وحیات اور زمین سے پیدا ہونے والی نعمتوں کا ذکر کرکے ایک دوسرے انداز سے بیان ہو رہا ہے کہ ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کس طرح کفر کرتے ہو۔ برخلاف اس کے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مانتا ہے۔ اور اسی کی عبادت کرتا ہے۔ اس کے سامنے معرفت الٰہی کی لاکھوں کروڑوں عقلی اور نقلی دلیلیں موجود ہیں۔ اس کے آس پاس آسمانی کتابیں موجود ہیں۔ جو اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت انسان کے ذمے قرض ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا (1 ۔ مسلم ج 1 ص 44) “ حق اللہ علی العباد ان یعبدوا اللہ ولا یشرکو بہ شیئا ” یعنی اللہ تعالیٰ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ شرح فقہ اکبر ملا علی قاری ص 168 ، 169 مطبع مجتبائی دہلی) کہ کوئی شخص پہاڑ کی چوٹی پر زندگی بسر کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اسے عقل و شعور جیسے اعلیٰ حواس سے نوازا ہے۔ وہ زمین و آسمان کے نظام کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ اور اس کے باوجود وہ کفر کرتا ہے۔ تو پکڑا جائے گا۔ اسے معافی نہیں مل سکتی۔ کیونکہ مشاہدات قدرت کو دیکھنے کے باوجود اگر وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لایا تو اس کی بدنصیبی ہے۔ گویا عقلی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کو پہچاننا واجب ہے۔ ایک شخص عملاً نماز نہیں پڑھتا یا روزہ نہیں رکھتا۔ مگر اللہ تعالیٰ وحدت پر ایمان ہے۔ تو اس کی بچاؤ کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ مگر کفر کرنے کی صورت میں وہ قابل گرفت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تمہیں عقل دی۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بخشی۔ تمہارے اردگرد نشانیاں پھیلا دیں اس کے باوجود تم نے ایمان کی بجائے کفر کا راستہ اختیار کیا۔ لہٰذا تمہارا معاملہ ناقابل معافی ہے۔ موت وحیات تصرف الٰہی میں ہے : اسی لیے فرمایا کہ تم ان تمام دلائل کے باجود “ کیف تکفرون باللہ ” تم اللہ تعالیٰ کی ساتھ کیسے کفر کرتے ہو۔ “ وکنتم امواتا ” حالانکہ تم بےجان تھے۔ “ فاحیاکم ” پس اللہ تعالیٰ نے تم کو زندگی بخشی۔ مطلب یہ کہ تم اپنے باپوں کی پشتوں میں بالکل بےجان چیز تھے پھر اس نے تمہیں ماؤں کے رحموں میں قطرہ آب یا نطفہ کی شکل میں منتقل کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہیں زندگی بخشی اور تمہیں وجود جیسی نعمت عطا کی۔ گویا تمہیں نیستی سے ہستی میں تبدیل کیا۔ اس کے بعد پھر ایک وقت ایسا آئے گا ۔ “ ثم یمیتکم ” پھر وہ تم پر موت طاری کرے گا۔ “ ثم یحییکم ” پھر قیامت کے دن تم کو زندہ کرے گا۔ دیکھو یہ سب تصرف خدا تعالیٰ کا ہے۔ جو پیدا کرتا ہے موت بھی وہی طاری کتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ کوئی متصرف نہیں۔ نہ کوئی کچھ دے سکتا ہے۔ نہ کوئی چھین سکتا ہے۔ اسی بات کو سورة واقعہ میں اس طرح بیان فرمایا کہ دیکھو تم کیسے بےبس ہو۔ جب ہمارے کارندے آتے ہیں۔ تو کون ہے جو انہیں روک سکے بڑے بڑے بادشاہ اور بڑے بڑے طاقتور عاجز آجاتے ہیں۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ تمام چیزوں کا تصرف خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ متصرف فی الامور وہی ہے۔ اور ایک ایماندار کا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جاندار بنایا وہی موت طاری کرتا ہے اس کے بعد پھر زندہ کرے گا۔ محاسبے کا عمل : فرمایا موت وحیات کی اس کشمکش کے بعد انسان کو یونہی نہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ بلکہ وہ انسانی اعمال کا محاسبہ بھی کریگا “ ثم الیہ ترجعون ” پھر اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی ہوگی اور تم سے پوچھا جائے گا کہ میں نے تم کو وجود کی نعمت دی۔ تمہاری پرورش کی اور تمہاری ضروریات و آسائش کے تمام سامان مہیا کیے۔ تمہارے جسم میں ہدایت کی مشیزی نصب کی علم حاصل کرنے کے لئے حواس ظاہرہ باطنہ سے نوازا۔ قوت متخیلہ عطا کی غور و فکر کے ذرائع بخشے۔ قوت حافظہ دی۔ جوڑ توڑ کرنے کی طاقت بخشی۔ اس کے علاوہ بہت بڑی مہربانی یہ فرمائی کہ راہنمائی کے لیے انبیاء (علیہم السلام) کو مبعوث کیا “ رسلا مبشرین و منذرین ” انہیں بشیر اور منذر بنایا اور دوسری جگہ فرمایا “ وانزلنا معھم الکتب والمیزان ” ان کے ساتھ کتابیں نازل فرمائیں۔ وحی نازل کی شریعت دے کر بھیجا “ لیقوم الناس بالقسط ” تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قائم رہیں۔ “ ان الشرک لظلم عظیم ” یہ شرک تو بہت بڑا ظلم ہے۔ اور کفر سے بڑا اور کوئی ظلم نہیں “ والکفرون ھم الظلمون ” سب سے بڑے ظالم تو کافر ہیں۔ یہ تمام ہدایت دے کر حجت پوری کردی۔ تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ انہیں کوئی سمجھانے والا نہیں آیا۔ “ لئلا یکون للناس حجۃ بعد الرسل ”۔ میت دفن کرنے کے آداب : مشکوٰۃ میں حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے (1 ۔ مشکوٰۃ ص 452 بحوالہ شرح السنۃ والبیہقی فی شعب الایمان) “ لیس من شیء یقربکم الی الجنۃ ویباعدکم من النار الا قد امرتکم بہ ” یعنی جو چیز جنت سے قریب کرنے والی اور دوزخ سے بچانے والی ہے وہ سب میں نے تمہیں بتا دی ہے ۔ اب تمہارے پاس انکار کی کیا دلیل ہے موت وحیات اور تصرفات کے بنیادی عقائد بیان ہوگئے ہیں جن کی قرآن پاک میں تعلیم دی گئی ہے۔ فرمایا (2 ۔ ترمذی ص 170 ابن ماجہ ص 161 ، مستدرک حاکم ج 1 ص 366) میت کو دفن کرتے وقت یوں کہو “ بسم اللہ وعلیٰ ملۃ رسول اللہ ” اور اسی طرح قبر پر مٹی ڈالتے وقت یہ آیت پڑھنی چاہئے (3 ۔ مستدرک حاکم ج 2 ص 379 ، حصن حصین ص 394) ۔ “ منھا خلقنکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری ” مگر لوگ اس کی بجائے زور زور سے کلمہ شریف پڑھنے لگتے ہیں کلمہ طیبہ بیشک افضل الذکر ہے۔ مگر اس مقام پر وہی کچھ کہنا چاہئے جس کی تعلیم دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بھی فرمان ہے کہ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا اسی میں اس کو لوٹائیں گے۔ اور پھر اسی میں سے دوبارہ زندہ کرینگے “ ثم الیہ ترجعون کا یہی مطلب ہے ۔ تمام چیزیں انسان کے لیے ہیں : انسان کی موت وحیات کا تذکرہ کرنے کے بعد دیگر انعامات کا اجمالی خالہ پیش کیا “ ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا ” اللہ تعالیٰ نے زمین میں جو کچھ بھی پیدا کیا ہے۔ وہ سب تمہارے فائدے کے لیے ہے۔ غذا ، لباس ، پانی ، ہوا ، نباتات ، خوشبو ، آلات ، نیک بختی اور کمال حاصل کرنے کے ذرائع سب انسانی مفاد کے واسطے ہیں۔ بعض چیزیں براہ راست انسانی مفاد میں ہیں۔ اور بعض بالواسطہ۔ حتیٰ کہ موذی جانور بھی تمہارے فائدے کے لیے ہیں۔ بعض اوقات زہریلے جانوروں کا زہر بھی تریاق کا کام دیتا ہے۔ کسی موسم میں انسان مکھیوں سے تنگ آجاتا ہے۔ مگر یہ بھی فائدے سے خالی نہیں۔ یہ غلاظت کے ڈھیر جو بیماری کا باعث بنتے ہیں انہیں مکھیاں ہی چاٹ جاتی ہیں یہ تو انسان پر احسان کرتی ہیں۔ کہ غلاظت کے خاتمے کا سبب بنتی ہیں۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی تخلیق والی روایت میں ہے (1 ۔ مسلم ج 2 ص 371 ، تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 69) کہ اللہ تعالیٰ نے مٹی کو ہفتے کے دن پیدا کیا ۔ اور جمعہ کے روز نماز عصر کے بعد آدم (علیہ السلام) کی تخلیق ہوئی۔ یہ سب چیزیں پہلے پیدا کردی گئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ نوع انسانی کی مصلحت فرشتوں کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ اس لیے انسان کی تخلیق سے کروڑوں سال پہلے فرشتوں کو پیدا کیا۔ ان میں جبرائیل اور میکائیل (علیہما السلام) اور ملاء اعلیٰ کے دوسرے فرشتے ہیں۔ ان میں مقرب فرشتے بھی ہیں ان میں ملاء سافل کے فرشتے اور فضائی اور ہوائی فرشتے بھی ہیں۔ یہ سب کے سب انسان کی مصلحت کے لیے ہیں۔ تاکہ انسان درجہ کمال تک پہنچ سکے۔ موت سامان عبرت ہے : اللہ تعالیٰ نے موت کو پیدا کیا اور یہ ایک بڑی خطرناک چیز ہے۔ مگر اسمیں بھی انسان کے لیے عبرت کا سامان موجود ہے۔ یہ بھی فائدے سے خالی نہیں۔ شیخ سعدی (رح) نے اس کی وضاحت ایک مثال کے ذریعے کی ہے (2 ۔ ) بادشاہ اور وزیر خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ بادشاہ کہنے لگا کاش کہ اگر میں موت نہ بودے ، چہ خوش بودے ، یعنی اگر یہ موت نہ ہوتی۔ تو کیا اچھا ہوتا۔ ہماری بادشاہت ہمیشہ قائم رہتی۔ نہ موت وارد ہوتی اور نہ بادشاہت کا خاتمہ ہوتا۔ وزیر بڑا دانا آدمی تھا۔ کہنے لگا ، اگر موت نہ بودے ایں سلطنت ترا کے رسیدے یعنی اگر موت نہ ہوتی تو یہ سلطنت تم تک کیسے پہنچتی۔ یہ موت ہی ہے جس کے ذریعے یہ بادشاہت تم تک پہنچی ہے ، ورنہ تمہارے آباؤ اجداد تک ہی محدود رہتی۔ آگے نہ چلتی۔ مقصد یہ کہ موت جیسی چیز بھی انسان کے لئے مفید ہے۔ کہ اس سے عبرت حاصل ہوتی ہے۔ اس مقام پر فقہائے کرام اور محدثین ایک اور مسئلہ بیان کرتے ہیں (3 ۔ تفسیر بیان القرآن ج 1 ص ، تفسیر کشاف ج 1 ص 122) اور وہ یہ کہ اشیاء میں اصل چیز اباحت ہے خلق لکم ما فی الارض جمیعا ” یعنی زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کیں۔ اصلاً تمام چیزیں مباح یعنی جائز ہیں۔ البتہ جس چیز کے متعلق حرمت کی دلیل آئے گی صرف وہی حرام ہوگی۔ باقی سب جائز سمجھی جائے گی۔ ہر قسم کے جانور اور ہر قسم کے پھل انسان کے لیے مباح ہیں۔ مگر جہاں حکم آگیا کہ خنزیر حرام ہے ۔ مردار حرام ہے۔ یا فلاں قسم کا جانور حرام ہے تو وہ حرمت کے زمرہ میں آگیا۔ باقی سب جائز ٹھہرے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کمی وضع ہی ایسی رکھی ہے۔ کہ انہیں انسان کے فائدے کے لیے بنایا ہے۔ البتہ جس چیز کو حرام قرار دیا ہے۔ اس میں ضرور کوئی روحانی یا جسمانی قباحت ہوگی۔ جس کی وجہ سے اسے ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ ورنہ سب چیزیں مباح ہیں۔ یہاں پر ایک دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے۔ کہ اگر اباحت کے اس اصول کو من وعن تسلیم کرلیا جائے تو اسکا مطلب یہ ہوگا کہ ہر چیز ہر حالت میں مباح قرار پائے گی۔ مگر ایسا نہیں ہے ہر چیز کے لیے کوئی نہ کوئی ضابطہ مقرر کیا گیا ہے۔ مثلاً ہر چیز کا ہر شخص مالک نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے قبضہ اور ملک کا قانون مقرر کیا ہے۔ ہر شخص اپنی اپنی حدود میں رہ کر کسی چیز کا قابض یا مالک ہوگا۔ کسی صاحب جائیداد کی موت کے بعد ہر شخص اس کی جائیداد کا حقدار نہیں ہوسکتا۔ بلکہ یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس جائداد پر قبضہ کس کا ہے۔ وراثت کے طور پر اس کا کون حقدار ہے۔ عطیہ کے طور پر کسی کو مل ہے یا نہیں۔ یا کسی اور قانون کے تحت اس کا کون حقدار ہے یہ سب قانون شریعت میں موجود ہیں۔ اور انہیں کے مطابق حقوق کا تعین ہوگا ہر شخص حقدار نہیں ہوسکتا اسی طرح ایک عورت صرف ایک آدمی کے نکاح میں آسکتی ہے۔ اسکی موجودگی میں کوئی دوسرا دعویدار نہیں ہوسکتا۔ بجز اس کے کہ خاوند کی وفات یا طلاق کی صورت میں وہ عورت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں جاسکتی ہے لہٰذا باحت کے اس کلیے کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔ آسمانوں کی تخلیق : زمین کی تمام اشیاء کی تخلیق کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا کہ اے انسان ! میں نے تمہارے لیے صرف زمین کی چیزیں ہی پیدا نہیں کیں۔ بلکہ “ ثم استوی الی السماء ” پھر اللہ تعالیٰ آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا “ فسوھن سبع سموت ” پس برابر کردیا ان کو سات آسمان۔ یعنی تہ در تہ سات آسمان پیدا فرمائے۔ اور زمین سے آسمان تک اور ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اتنے دبیز آسمان پیدا کیے ہیں۔ یونانی فلکیات کے ماہرین آسمانوں کی تعداد نو بتاتے ہیں اس میں بھی کوئی اعتراض نہیں ۔ سات آسمانوں کے ساتھ عرش اور کرسی کو شامل کرلیں۔ تو نو بن جاتے ہیں کیونکہ عرش الگ ہے۔ اور کرسی الگ ہے۔ وہ آسمانوں سے بھی وسیع تر ہیں اور ذات خداوندی ان تمام چیزوں سے وراء الوراء ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تجلی عرش پر واقع ہوتی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) اسے تجلی اعظم کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اس تجلی سے اول سارا عرش رنگین ہوتا ہے ۔ پھر تمام کائنات رنگین ہوتی ہے اس کے نیچے تمام اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ تمام مراحل طے کرنے کے بعد وہ تجلی واپس پلٹ جاتی ہے۔ علیم کل صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے : فرمایا “ وھو بکل شیء علیہم ” یعنی وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ اس کے علاوہ ہر چیز کو جاننے والا اور کوئی نہیں۔ لہٰذا عبادت بھی اسی کی کرنی چاہئے۔ جو علیم کل اور قادر مطلق ہے “ ان اللہ علی کل شیء قدیر ” جو قادر ہے۔ جو خالق اور رب ہے۔ اس کے علاوہ الٰہ بھی کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ غرضیکہ ذرے ذرے کو جاننے والا وہی ہے اور محیط علم صرف خدا تعالیٰ کا ہے نہ جبرائیل (علیہ السلام) اور دیگر فرشتوں کا ۔ نہ نبیوں کا نہ ولیوں کا۔ اس لیے معبود برحق بھی صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پہچان کی یہ صفات جس طرح قرآن پاک میں بیان ہوئی ہیں۔ اسی طرح توراۃ اور انجیل میں بیان ہوئی ہیں۔ مگر لوگوں نے دین کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے حقیقت یہ ہے کہ نافع اور ضار بھی وہی ذات ہے۔ خدا تعالیٰ کے سوا غائبانہ طور پر نہ کوئی نفع پہنچا سکتا ہے۔ اور نہ نقصان ۔ نہ کوئی فریاد سن سکتا ہے اور نہ کوئی بگڑی بنا سکتا ہے نہ کسی کو تفصیل سے علم ہے کہ کسی کو کیا تکلیف یا پریشانی ہے کیونکہ علیم کل صرف ذات خداوندی ہے۔ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ عبادت الٰہی لازم ہے : “ کیف تکفرون ” سے لے کر “ وھو بکل شیء علیم ” تک دو آیات کا تعلق “ یایھا الناس اعبدوا ” کے ساتھ ہے۔ یعنی اے لوگو ! تم اپنے رب کی عبادت کرو۔ کہ یہ تمہارے لیے لازمی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں وجود کی نعمت بخشی ، زندگی دی۔ پھر موت کا طاری کرنا اور دوبارہ زندہ کرنا۔ اسی کے قبضہ قدرت میں ہے پھر اس نے تمہیں زمین کی تمام نعمتیں مہیا کیں۔ دوسری جگہ فرمایا کہ زمین کی تمام سبزیاں اور پھل پیدا کئے۔ اے انسان “ متاء لکم ولانعمامکم ” یہ سب چیزیں تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے فائدے کے لیے ہیں۔ یہ مویشی بھی تمہاری ہی خدمت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔ ان پر سواری کرتے ہو۔ ان سے کھیتی باڑی میں مدد لیتے ہو۔ اور پھر ان کا گوشت بھی کھاتے ہو۔ یہ سب چیزیں تمہاری خاطر پیدا کی ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے (1 ۔ ) “ خلق الدنیا لکم وخلقتم الاخرۃ ” اے انسان ! یہ ساری دنیا تیرے لیے پیدا کی ہے۔ اور تو آخرت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ تم اس کی معرفت حاصل کرو۔ اور اسی کی عبادت کرو۔ “ وما خلقت الجن والانس الا یعبدون ” قرآن پاک شاہد ہے۔ کہ انسانوں اور جنوں کی تخلیق محض عبادت الٰہی کے لئے ہوئی۔ قرآن پاک میں موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے زمین کا مادہ پیدا کیا۔ آسمان دخان (دھواں) کی شکل میں تھا۔ پھر اس کو برابر کردیا۔ زمین کا پھیلاؤ اس کے بعد عمل میں آیا۔ “ والارض بعد ذلک دحہا ” زمین کا مادہ کثیف ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) تفہیمات الٰہیہ میں فرماتے ہیں (2 ۔ تضیمات علیہ جلد اول تفہیم ص 67) کہ جس طرح زمین مختلف عناصر کا مجموعہ ہے۔ اسی طرح آسمان بھی کئی عناصر پر مشتمل ہے مگر آسمان کے عناصر زمین کی نسبت لطیف ہیں۔ اسی لیے وہاں شفافیت نظر آرہی ہے۔ اور کوئی چیز جس قدر لطیف ہوگی ، اسی قدر طاقتور ہوگی۔ دیکھئے روح لطیف چیز ہے۔ اس لیے اس میں قوت بھی زیادہ ہے۔ اور جتنی کوئی چیز کثیف ہوتی ہے ۔ اتنی ہی کمزور اور ضعیف ہوتی ہے۔ الغرض فرمایا “ وھو بکل شیء علیہم ” ہر چیز کا جاننے والا خدا تعالیٰ ہے لہٰذا عبادت بھی اسی کی ہونی چاہئے۔
Top