Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 28
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ١ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
کَيْفَ
: کس طرح
تَكْفُرُوْنَ
: تم کفر کرتے ہو
بِاللہِ
: اللہ کا
وَكُنْتُمْ
: اور تم تھے
اَمْوَاتًا
: بےجان
فَاَحْيَاكُمْ
: سو اس نے تمہیں زندگی بخشی
ثُمَّ يُمِیْتُكُمْ
: پھر وہ تمہیں مارے گا
ثُمَّ
: پھر
يُحْيِیْكُمْ
: تمہیں جلائے گا
ثُمَّ
: پھر
اِلَيْهِ
: اس کی طرف
تُرْجَعُوْنَ
: لوٹائے جاؤگے
کس طرح تم کفر کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ، حالانکہ تم بےجان تھے پس اللہ تعالیٰ نے تم کو زندگی بخشی۔ پھر وہ تم پر موت طاری کرتا ہے۔ پھر وہ تم کو دوبارہ زندہ کرے گا پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے
گزشتہ سے پیوستہ : اس سے پہلی آیات میں ان لوگوں کا رد فرمایا۔ جو قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے کا انکار کرتے تھے کیونکہ اس کلام میں مچھر ، مکھی جیسی حقیر چیزوں کا بیان ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اعلیٰ وارفع ہے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مچھر یا اس سے بھی کم تر چیز کی مثال بیان کرنے سے نہیں شرماتا۔ کیونکہ اس کی کوئی بات حکمت سے خالی نہیں ہوتی۔ بعض اوقات اد نیٰ چیزوں میں بھی اہم باتیں ہوتی ہیں۔ اس لیے ایسی کسی چیز کے بیان سے اجتناب کرنا خلاف حکمت ہوتا ہے۔ معترضین کا اس قسم کا اعتراض ان کی ناسمجھی کی دلیل ہے۔ البتہ ایمان والے خوب سمجھتے ہیں کہ قرآن پاک ان کے رب کی طرف سے حق ہے۔ ناسمجھ لوگ کہتے ہیں کہ ایسی حقیر چیز کی مثال بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ کو کیا مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایسی ہی مثال کے ذریعے وہ بہتوں کو ہدایت سے نوازتا ہے۔ اور بہتوں کو گمراہ کردیتا ہے مگر گمراہ وہی لوگ ہوتے ہیں ۔ جو نافرمان ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی تین خصلتیں بیان فرمائیں۔ کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد و پیمان کو توڑتے ہیں۔ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے یہ لوگ انہیں توڑتے ہیں۔ اور یہ لوگ زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ فرمایا یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں گویا قرآن کا انکار ، معاد کا انکار ، رسالت کا انکار یا خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا اور اس کی صفات کا انکار سب کا مال (انجام) ایک ہی ہے ۔ ان سب باتوں پرا یمان لانا ضروری ہے۔ ورنہ انسان کافر ہوجاتا ہے۔ ان میں سے ایک چیز کا انکار بھی۔ اللہ تعالیٰ کے انکار کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر : اس مقام پر اللہ تعالیٰ اپنی بعض نعمتوں کا ذکر کرکے انسان کو مخاطب فرماتے ہیں۔ کہ “ کیف تکفرون باللہ ” یہ انعام پانے کے باوجود تم اللہ تعالیٰ کی ذات کا کیسے انکار کرتے ہو۔ تمہارا انکار محض جہالت ، ضد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر ہے ورنہ اس کے حق میں تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا “ ومن یدع مع اللہ الھا اخر ، لا برھان لہ بہ فانما حسابہ عند ربہ ” یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارتا ہے۔ یعنی شرک کرتا ہے۔ اس کے پاس ایسا کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور اس کا حساب تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ یہی بات یہاں پر بیان کی گئی ہے کہ تمہارے پاس کفر کرنے کی کون سی دلیل ہے “ کیف تکفرون ” تمہارے لیے کفر کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ تکفرون باللہ میں نہ صرف خدا تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے کا بیان ہے بلکہ اس میں ایمان لانے کی دوسری چیزیں بھی شامل ہیں۔ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان کیوں نہیں لاتے ا س کے کلام کا کیسے انکار کرتے ہو۔ اس کے بھیجے ہوئے رسولوں کو کیوں نہیں مانتے۔ اور معاد پر تمہارا ایمان کیوں نہیں ہے۔ گویا “ کیف تکفرون باللہ ” میں وہ تمام چیزیں آگئیں جن کا کفار انکار کرتے تھے۔ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 67) کہ “ کیف تکفرون باللہ ” کا تعلق گزشتہ آیت “ یایھا الناس اعبد وا ربکم الذی خلقکم ” کے ساتھ ہے وہاں پر بھی بعض انعامات کا تذکرہ فرمایا۔ کہ اے لوگو ! اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا تمہارے لیے زمین و آسمان کو پیدا کیا ، پھر آسمان سے بھی پانی نازل کرکے زمین کو سیراب کیا۔ اور تمہارے لیے پھل پیدا کیے۔ اس مقام پر موت وحیات اور زمین سے پیدا ہونے والی نعمتوں کا ذکر کرکے ایک دوسرے انداز سے بیان ہو رہا ہے کہ ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کس طرح کفر کرتے ہو۔ برخلاف اس کے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مانتا ہے۔ اور اسی کی عبادت کرتا ہے۔ اس کے سامنے معرفت الٰہی کی لاکھوں کروڑوں عقلی اور نقلی دلیلیں موجود ہیں۔ اس کے آس پاس آسمانی کتابیں موجود ہیں۔ جو اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت انسان کے ذمے قرض ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا (1 ۔ مسلم ج 1 ص 44) “ حق اللہ علی العباد ان یعبدوا اللہ ولا یشرکو بہ شیئا ” یعنی اللہ تعالیٰ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ شرح فقہ اکبر ملا علی قاری ص 168 ، 169 مطبع مجتبائی دہلی) کہ کوئی شخص پہاڑ کی چوٹی پر زندگی بسر کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اسے عقل و شعور جیسے اعلیٰ حواس سے نوازا ہے۔ وہ زمین و آسمان کے نظام کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ اور اس کے باوجود وہ کفر کرتا ہے۔ تو پکڑا جائے گا۔ اسے معافی نہیں مل سکتی۔ کیونکہ مشاہدات قدرت کو دیکھنے کے باوجود اگر وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لایا تو اس کی بدنصیبی ہے۔ گویا عقلی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کو پہچاننا واجب ہے۔ ایک شخص عملاً نماز نہیں پڑھتا یا روزہ نہیں رکھتا۔ مگر اللہ تعالیٰ وحدت پر ایمان ہے۔ تو اس کی بچاؤ کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ مگر کفر کرنے کی صورت میں وہ قابل گرفت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تمہیں عقل دی۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بخشی۔ تمہارے اردگرد نشانیاں پھیلا دیں اس کے باوجود تم نے ایمان کی بجائے کفر کا راستہ اختیار کیا۔ لہٰذا تمہارا معاملہ ناقابل معافی ہے۔ موت وحیات تصرف الٰہی میں ہے : اسی لیے فرمایا کہ تم ان تمام دلائل کے باجود “ کیف تکفرون باللہ ” تم اللہ تعالیٰ کی ساتھ کیسے کفر کرتے ہو۔ “ وکنتم امواتا ” حالانکہ تم بےجان تھے۔ “ فاحیاکم ” پس اللہ تعالیٰ نے تم کو زندگی بخشی۔ مطلب یہ کہ تم اپنے باپوں کی پشتوں میں بالکل بےجان چیز تھے پھر اس نے تمہیں ماؤں کے رحموں میں قطرہ آب یا نطفہ کی شکل میں منتقل کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہیں زندگی بخشی اور تمہیں وجود جیسی نعمت عطا کی۔ گویا تمہیں نیستی سے ہستی میں تبدیل کیا۔ اس کے بعد پھر ایک وقت ایسا آئے گا ۔ “ ثم یمیتکم ” پھر وہ تم پر موت طاری کرے گا۔ “ ثم یحییکم ” پھر قیامت کے دن تم کو زندہ کرے گا۔ دیکھو یہ سب تصرف خدا تعالیٰ کا ہے۔ جو پیدا کرتا ہے موت بھی وہی طاری کتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ کوئی متصرف نہیں۔ نہ کوئی کچھ دے سکتا ہے۔ نہ کوئی چھین سکتا ہے۔ اسی بات کو سورة واقعہ میں اس طرح بیان فرمایا کہ دیکھو تم کیسے بےبس ہو۔ جب ہمارے کارندے آتے ہیں۔ تو کون ہے جو انہیں روک سکے بڑے بڑے بادشاہ اور بڑے بڑے طاقتور عاجز آجاتے ہیں۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ تمام چیزوں کا تصرف خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ متصرف فی الامور وہی ہے۔ اور ایک ایماندار کا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جاندار بنایا وہی موت طاری کرتا ہے اس کے بعد پھر زندہ کرے گا۔ محاسبے کا عمل : فرمایا موت وحیات کی اس کشمکش کے بعد انسان کو یونہی نہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ بلکہ وہ انسانی اعمال کا محاسبہ بھی کریگا “ ثم الیہ ترجعون ” پھر اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی ہوگی اور تم سے پوچھا جائے گا کہ میں نے تم کو وجود کی نعمت دی۔ تمہاری پرورش کی اور تمہاری ضروریات و آسائش کے تمام سامان مہیا کیے۔ تمہارے جسم میں ہدایت کی مشیزی نصب کی علم حاصل کرنے کے لئے حواس ظاہرہ باطنہ سے نوازا۔ قوت متخیلہ عطا کی غور و فکر کے ذرائع بخشے۔ قوت حافظہ دی۔ جوڑ توڑ کرنے کی طاقت بخشی۔ اس کے علاوہ بہت بڑی مہربانی یہ فرمائی کہ راہنمائی کے لیے انبیاء (علیہم السلام) کو مبعوث کیا “ رسلا مبشرین و منذرین ” انہیں بشیر اور منذر بنایا اور دوسری جگہ فرمایا “ وانزلنا معھم الکتب والمیزان ” ان کے ساتھ کتابیں نازل فرمائیں۔ وحی نازل کی شریعت دے کر بھیجا “ لیقوم الناس بالقسط ” تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قائم رہیں۔ “ ان الشرک لظلم عظیم ” یہ شرک تو بہت بڑا ظلم ہے۔ اور کفر سے بڑا اور کوئی ظلم نہیں “ والکفرون ھم الظلمون ” سب سے بڑے ظالم تو کافر ہیں۔ یہ تمام ہدایت دے کر حجت پوری کردی۔ تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ انہیں کوئی سمجھانے والا نہیں آیا۔ “ لئلا یکون للناس حجۃ بعد الرسل ”۔ میت دفن کرنے کے آداب : مشکوٰۃ میں حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے (1 ۔ مشکوٰۃ ص 452 بحوالہ شرح السنۃ والبیہقی فی شعب الایمان) “ لیس من شیء یقربکم الی الجنۃ ویباعدکم من النار الا قد امرتکم بہ ” یعنی جو چیز جنت سے قریب کرنے والی اور دوزخ سے بچانے والی ہے وہ سب میں نے تمہیں بتا دی ہے ۔ اب تمہارے پاس انکار کی کیا دلیل ہے موت وحیات اور تصرفات کے بنیادی عقائد بیان ہوگئے ہیں جن کی قرآن پاک میں تعلیم دی گئی ہے۔ فرمایا (2 ۔ ترمذی ص 170 ابن ماجہ ص 161 ، مستدرک حاکم ج 1 ص 366) میت کو دفن کرتے وقت یوں کہو “ بسم اللہ وعلیٰ ملۃ رسول اللہ ” اور اسی طرح قبر پر مٹی ڈالتے وقت یہ آیت پڑھنی چاہئے (3 ۔ مستدرک حاکم ج 2 ص 379 ، حصن حصین ص 394) ۔ “ منھا خلقنکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری ” مگر لوگ اس کی بجائے زور زور سے کلمہ شریف پڑھنے لگتے ہیں کلمہ طیبہ بیشک افضل الذکر ہے۔ مگر اس مقام پر وہی کچھ کہنا چاہئے جس کی تعلیم دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بھی فرمان ہے کہ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا اسی میں اس کو لوٹائیں گے۔ اور پھر اسی میں سے دوبارہ زندہ کرینگے “ ثم الیہ ترجعون کا یہی مطلب ہے ۔ تمام چیزیں انسان کے لیے ہیں : انسان کی موت وحیات کا تذکرہ کرنے کے بعد دیگر انعامات کا اجمالی خالہ پیش کیا “ ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا ” اللہ تعالیٰ نے زمین میں جو کچھ بھی پیدا کیا ہے۔ وہ سب تمہارے فائدے کے لیے ہے۔ غذا ، لباس ، پانی ، ہوا ، نباتات ، خوشبو ، آلات ، نیک بختی اور کمال حاصل کرنے کے ذرائع سب انسانی مفاد کے واسطے ہیں۔ بعض چیزیں براہ راست انسانی مفاد میں ہیں۔ اور بعض بالواسطہ۔ حتیٰ کہ موذی جانور بھی تمہارے فائدے کے لیے ہیں۔ بعض اوقات زہریلے جانوروں کا زہر بھی تریاق کا کام دیتا ہے۔ کسی موسم میں انسان مکھیوں سے تنگ آجاتا ہے۔ مگر یہ بھی فائدے سے خالی نہیں۔ یہ غلاظت کے ڈھیر جو بیماری کا باعث بنتے ہیں انہیں مکھیاں ہی چاٹ جاتی ہیں یہ تو انسان پر احسان کرتی ہیں۔ کہ غلاظت کے خاتمے کا سبب بنتی ہیں۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی تخلیق والی روایت میں ہے (1 ۔ مسلم ج 2 ص 371 ، تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 69) کہ اللہ تعالیٰ نے مٹی کو ہفتے کے دن پیدا کیا ۔ اور جمعہ کے روز نماز عصر کے بعد آدم (علیہ السلام) کی تخلیق ہوئی۔ یہ سب چیزیں پہلے پیدا کردی گئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ نوع انسانی کی مصلحت فرشتوں کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ اس لیے انسان کی تخلیق سے کروڑوں سال پہلے فرشتوں کو پیدا کیا۔ ان میں جبرائیل اور میکائیل (علیہما السلام) اور ملاء اعلیٰ کے دوسرے فرشتے ہیں۔ ان میں مقرب فرشتے بھی ہیں ان میں ملاء سافل کے فرشتے اور فضائی اور ہوائی فرشتے بھی ہیں۔ یہ سب کے سب انسان کی مصلحت کے لیے ہیں۔ تاکہ انسان درجہ کمال تک پہنچ سکے۔ موت سامان عبرت ہے : اللہ تعالیٰ نے موت کو پیدا کیا اور یہ ایک بڑی خطرناک چیز ہے۔ مگر اسمیں بھی انسان کے لیے عبرت کا سامان موجود ہے۔ یہ بھی فائدے سے خالی نہیں۔ شیخ سعدی (رح) نے اس کی وضاحت ایک مثال کے ذریعے کی ہے (2 ۔ ) بادشاہ اور وزیر خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ بادشاہ کہنے لگا کاش کہ اگر میں موت نہ بودے ، چہ خوش بودے ، یعنی اگر یہ موت نہ ہوتی۔ تو کیا اچھا ہوتا۔ ہماری بادشاہت ہمیشہ قائم رہتی۔ نہ موت وارد ہوتی اور نہ بادشاہت کا خاتمہ ہوتا۔ وزیر بڑا دانا آدمی تھا۔ کہنے لگا ، اگر موت نہ بودے ایں سلطنت ترا کے رسیدے یعنی اگر موت نہ ہوتی تو یہ سلطنت تم تک کیسے پہنچتی۔ یہ موت ہی ہے جس کے ذریعے یہ بادشاہت تم تک پہنچی ہے ، ورنہ تمہارے آباؤ اجداد تک ہی محدود رہتی۔ آگے نہ چلتی۔ مقصد یہ کہ موت جیسی چیز بھی انسان کے لئے مفید ہے۔ کہ اس سے عبرت حاصل ہوتی ہے۔ اس مقام پر فقہائے کرام اور محدثین ایک اور مسئلہ بیان کرتے ہیں (3 ۔ تفسیر بیان القرآن ج 1 ص ، تفسیر کشاف ج 1 ص 122) اور وہ یہ کہ اشیاء میں اصل چیز اباحت ہے خلق لکم ما فی الارض جمیعا ” یعنی زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کیں۔ اصلاً تمام چیزیں مباح یعنی جائز ہیں۔ البتہ جس چیز کے متعلق حرمت کی دلیل آئے گی صرف وہی حرام ہوگی۔ باقی سب جائز سمجھی جائے گی۔ ہر قسم کے جانور اور ہر قسم کے پھل انسان کے لیے مباح ہیں۔ مگر جہاں حکم آگیا کہ خنزیر حرام ہے ۔ مردار حرام ہے۔ یا فلاں قسم کا جانور حرام ہے تو وہ حرمت کے زمرہ میں آگیا۔ باقی سب جائز ٹھہرے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کمی وضع ہی ایسی رکھی ہے۔ کہ انہیں انسان کے فائدے کے لیے بنایا ہے۔ البتہ جس چیز کو حرام قرار دیا ہے۔ اس میں ضرور کوئی روحانی یا جسمانی قباحت ہوگی۔ جس کی وجہ سے اسے ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ ورنہ سب چیزیں مباح ہیں۔ یہاں پر ایک دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے۔ کہ اگر اباحت کے اس اصول کو من وعن تسلیم کرلیا جائے تو اسکا مطلب یہ ہوگا کہ ہر چیز ہر حالت میں مباح قرار پائے گی۔ مگر ایسا نہیں ہے ہر چیز کے لیے کوئی نہ کوئی ضابطہ مقرر کیا گیا ہے۔ مثلاً ہر چیز کا ہر شخص مالک نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے قبضہ اور ملک کا قانون مقرر کیا ہے۔ ہر شخص اپنی اپنی حدود میں رہ کر کسی چیز کا قابض یا مالک ہوگا۔ کسی صاحب جائیداد کی موت کے بعد ہر شخص اس کی جائیداد کا حقدار نہیں ہوسکتا۔ بلکہ یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس جائداد پر قبضہ کس کا ہے۔ وراثت کے طور پر اس کا کون حقدار ہے۔ عطیہ کے طور پر کسی کو مل ہے یا نہیں۔ یا کسی اور قانون کے تحت اس کا کون حقدار ہے یہ سب قانون شریعت میں موجود ہیں۔ اور انہیں کے مطابق حقوق کا تعین ہوگا ہر شخص حقدار نہیں ہوسکتا اسی طرح ایک عورت صرف ایک آدمی کے نکاح میں آسکتی ہے۔ اسکی موجودگی میں کوئی دوسرا دعویدار نہیں ہوسکتا۔ بجز اس کے کہ خاوند کی وفات یا طلاق کی صورت میں وہ عورت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں جاسکتی ہے لہٰذا باحت کے اس کلیے کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔ آسمانوں کی تخلیق : زمین کی تمام اشیاء کی تخلیق کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا کہ اے انسان ! میں نے تمہارے لیے صرف زمین کی چیزیں ہی پیدا نہیں کیں۔ بلکہ “ ثم استوی الی السماء ” پھر اللہ تعالیٰ آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا “ فسوھن سبع سموت ” پس برابر کردیا ان کو سات آسمان۔ یعنی تہ در تہ سات آسمان پیدا فرمائے۔ اور زمین سے آسمان تک اور ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اتنے دبیز آسمان پیدا کیے ہیں۔ یونانی فلکیات کے ماہرین آسمانوں کی تعداد نو بتاتے ہیں اس میں بھی کوئی اعتراض نہیں ۔ سات آسمانوں کے ساتھ عرش اور کرسی کو شامل کرلیں۔ تو نو بن جاتے ہیں کیونکہ عرش الگ ہے۔ اور کرسی الگ ہے۔ وہ آسمانوں سے بھی وسیع تر ہیں اور ذات خداوندی ان تمام چیزوں سے وراء الوراء ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تجلی عرش پر واقع ہوتی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) اسے تجلی اعظم کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اس تجلی سے اول سارا عرش رنگین ہوتا ہے ۔ پھر تمام کائنات رنگین ہوتی ہے اس کے نیچے تمام اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ تمام مراحل طے کرنے کے بعد وہ تجلی واپس پلٹ جاتی ہے۔ علیم کل صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے : فرمایا “ وھو بکل شیء علیہم ” یعنی وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ اس کے علاوہ ہر چیز کو جاننے والا اور کوئی نہیں۔ لہٰذا عبادت بھی اسی کی کرنی چاہئے۔ جو علیم کل اور قادر مطلق ہے “ ان اللہ علی کل شیء قدیر ” جو قادر ہے۔ جو خالق اور رب ہے۔ اس کے علاوہ الٰہ بھی کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ غرضیکہ ذرے ذرے کو جاننے والا وہی ہے اور محیط علم صرف خدا تعالیٰ کا ہے نہ جبرائیل (علیہ السلام) اور دیگر فرشتوں کا ۔ نہ نبیوں کا نہ ولیوں کا۔ اس لیے معبود برحق بھی صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پہچان کی یہ صفات جس طرح قرآن پاک میں بیان ہوئی ہیں۔ اسی طرح توراۃ اور انجیل میں بیان ہوئی ہیں۔ مگر لوگوں نے دین کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے حقیقت یہ ہے کہ نافع اور ضار بھی وہی ذات ہے۔ خدا تعالیٰ کے سوا غائبانہ طور پر نہ کوئی نفع پہنچا سکتا ہے۔ اور نہ نقصان ۔ نہ کوئی فریاد سن سکتا ہے اور نہ کوئی بگڑی بنا سکتا ہے نہ کسی کو تفصیل سے علم ہے کہ کسی کو کیا تکلیف یا پریشانی ہے کیونکہ علیم کل صرف ذات خداوندی ہے۔ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ عبادت الٰہی لازم ہے : “ کیف تکفرون ” سے لے کر “ وھو بکل شیء علیم ” تک دو آیات کا تعلق “ یایھا الناس اعبدوا ” کے ساتھ ہے۔ یعنی اے لوگو ! تم اپنے رب کی عبادت کرو۔ کہ یہ تمہارے لیے لازمی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں وجود کی نعمت بخشی ، زندگی دی۔ پھر موت کا طاری کرنا اور دوبارہ زندہ کرنا۔ اسی کے قبضہ قدرت میں ہے پھر اس نے تمہیں زمین کی تمام نعمتیں مہیا کیں۔ دوسری جگہ فرمایا کہ زمین کی تمام سبزیاں اور پھل پیدا کئے۔ اے انسان “ متاء لکم ولانعمامکم ” یہ سب چیزیں تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے فائدے کے لیے ہیں۔ یہ مویشی بھی تمہاری ہی خدمت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔ ان پر سواری کرتے ہو۔ ان سے کھیتی باڑی میں مدد لیتے ہو۔ اور پھر ان کا گوشت بھی کھاتے ہو۔ یہ سب چیزیں تمہاری خاطر پیدا کی ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے (1 ۔ ) “ خلق الدنیا لکم وخلقتم الاخرۃ ” اے انسان ! یہ ساری دنیا تیرے لیے پیدا کی ہے۔ اور تو آخرت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ تم اس کی معرفت حاصل کرو۔ اور اسی کی عبادت کرو۔ “ وما خلقت الجن والانس الا یعبدون ” قرآن پاک شاہد ہے۔ کہ انسانوں اور جنوں کی تخلیق محض عبادت الٰہی کے لئے ہوئی۔ قرآن پاک میں موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے زمین کا مادہ پیدا کیا۔ آسمان دخان (دھواں) کی شکل میں تھا۔ پھر اس کو برابر کردیا۔ زمین کا پھیلاؤ اس کے بعد عمل میں آیا۔ “ والارض بعد ذلک دحہا ” زمین کا مادہ کثیف ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) تفہیمات الٰہیہ میں فرماتے ہیں (2 ۔ تضیمات علیہ جلد اول تفہیم ص 67) کہ جس طرح زمین مختلف عناصر کا مجموعہ ہے۔ اسی طرح آسمان بھی کئی عناصر پر مشتمل ہے مگر آسمان کے عناصر زمین کی نسبت لطیف ہیں۔ اسی لیے وہاں شفافیت نظر آرہی ہے۔ اور کوئی چیز جس قدر لطیف ہوگی ، اسی قدر طاقتور ہوگی۔ دیکھئے روح لطیف چیز ہے۔ اس لیے اس میں قوت بھی زیادہ ہے۔ اور جتنی کوئی چیز کثیف ہوتی ہے ۔ اتنی ہی کمزور اور ضعیف ہوتی ہے۔ الغرض فرمایا “ وھو بکل شیء علیہم ” ہر چیز کا جاننے والا خدا تعالیٰ ہے لہٰذا عبادت بھی اسی کی ہونی چاہئے۔
Top