Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 28
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ١ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
کَيْفَ : کس طرح تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو بِاللہِ : اللہ کا وَكُنْتُمْ : اور تم تھے اَمْوَاتًا : بےجان فَاَحْيَاكُمْ : سو اس نے تمہیں زندگی بخشی ثُمَّ يُمِیْتُكُمْ : پھر وہ تمہیں مارے گا ثُمَّ : پھر يُحْيِیْكُمْ : تمہیں جلائے گا ثُمَّ : پھر اِلَيْهِ : اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : لوٹائے جاؤگے
تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو، حالانکہ تم بےجان تھے اس نے تم کو زندگی عطا کی پھر وہی تمہاری جان سلب کرے گا پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے
اللہ کا انکار کیسے تشریح : بار بار اس بات کی تاکید کی جاتی ہے کہ کفر و بےیقینی سے باز آجاؤ اپنے خالق ومالک کو پہنچان لو۔ پچھلی آیت میں گمراہوں کی صفات بیان کرکے ان کے برے انجام کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ انسان کو اس کی حیثیت اور مہربانی جو اس نے انسان کو زندگی عطا کرکے دی، یاد دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم لوگ اگر اس حقیقت پر غور کرو تو کبھی کفر نہ کرو۔ اللہ فرماتا ہے کہ تم بالکل بےجان تھے یہ عالم ارواح کی طرف اشارہ ہے ہم نے تمہیں مادی وجود دیکر دنیا میں بھیج دیا یہاں تم اپنے جسم کے ساتھ ایک زندگی گزار رہے ہو پھر تمہیں اس جسم سے جدا کردیا جائے گا اور تم عالم برزخ میں منتقل کردیئے جاؤ گے وہاں سے عالم حساب اور پھر ابدی زندگی جس طرح زندگی ایک تخلیقی امر ہے۔ موت بھی ویسے ہی ایک تخلیقی امر ہے۔ یہ بھی زندہ حقیقت ہے اور وہ بھی زندہ حقیقت ہے اس حقیقت کو سائنس نے بھی اپنے تجربات سے ثابت کردیا ہے اس کے لئے میں سلطان بشیر محمود کی کتاب ” قیامت اور حیات بعد الممات “ میں سے کچھ مواد پیش کرنا چاہوں گی۔ مصنف موصوف لکھتے ہیں۔ ” نفس اور روح کے علاوہ بھی جسم جن عناصر سے تشکیل پاتا ہے۔ وہ بھی انمٹ ہیں، قدرت کا اصول ہے کہ عام حالات میں مادہ نہ تباہ کیا جاسکتا ہے نہ پیدا۔ البتہ اپنی ترتیب ہیئت میں تبدیل ہوتا رہتا ہے اور بکھر کر تحلیل ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کا ایک ایک ایٹم قیامت تک محفوظ ہے۔ بلکہ ان کو اپنے ساتھی ایٹموں کے ساتھ گزری ہوئی زندگی بھی یاد رہتی ہے اور اگر کبھی انہیں قریب آنے کا اتفاق ہو تو وہ ایک دوسرے کو پہچان بھی لیں گے اس لئے قبر مٹی کی ہو، پانی کی ہو، ہوا کی ہو، دریا ہو، عناصر کی حد تک جسم قائم رہتے ہیں۔ جیسے ہم اپنے بچھرے ہوئے دوستوں کو یاد رکھتے ہیں نفس بھی اپنے بکھرے ہوئے عناصر کو یاد رکھتا ہے اور جب حکم ہوگا وہ دوبارہ اکٹھے ہو کر محفوظ شدہ ڈیزائن کے مطابق زندگی کی محفل نشاط برپا کریں گے بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے “۔ مذکورہ آیت مبارکہ صرف عرب کے بدوئوں کے لئے ہی مخصوص نہیں، بلکہ قرآن کا ہر لفظ تمام انسانی برادری کے لئے ہر زمانے اور ہر طبقہ کے لئے وعظ و نصیحت کا منبع ہے۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ انسان غور کرے کہ اس کی زندگی اور تمام وسیلے اللہ ہی کے اختیار میں ہیں، وہی زندہ کرنے والا، وہی مارنے والا، اور پھر وہی دوبارہ زندہ کرنے والا ہے۔ آخر میں انسان پھر اسی کی طرف لوٹ کر جانے والا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ انسان اللہ کی وحدانیت اور اس کی فرما برداری سے انکار کرے۔ اللہ ہم سب کو اپنی عبودیت اور فرمابرداری کی توفیق عطا کرے آمین۔ حضرت علی کا فرمان ہے : ” ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں لہٰذا ان کو احسن اعمال سے پر کرو “۔
Top