Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 9
یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۚ وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ
يُخٰدِعُوْنَ : وہ دھوکہ دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ کو وَ : اور الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے وَ : اور مَا : نہیں يَخْدَعُوْنَ : وہ دھوکہ دیتے اِلَّآ : مگر اَنْفُسَھُمْ : اپنے نفسوں کو وَ : اور مَا : نہیں يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور رکھتے
یہ خدا کو اور مومنوں کو چکما دیتے ہیں مگر (حقیقت میں) اپنے سوا کسی کا چکما نہیں دیتے اور اس سے بیخبر ہیں
(2:9) یخدعون۔ مضارع جمع مذکر غائب ، مخارعۃ۔ (مفاعلۃ) مصدر ۔ وہ فریب کرتے ہیں۔ وہ دھوکہ دیتے ہیں الخداع کے معنی ہیں کہ جو کچھ دل میں ہو اس کے برعکس ظاہر کرکے کسی کو اس چیز سے پھیر دینا جس کے وہ درپے ہو۔ امام راغب (رح) تعالیٰ رقمطراز ہیں : (اس میں) اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے سے مراد اس کے رسول اور اولیاء کو فریب دینا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کرکے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ کوئی سامعاملہ کرنا گویا اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے۔ اسی بناء پر فرمایا ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ۔ (47:10) جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ اللہ۔ فعل یخدعون کا مفعول ہے والذین امنوا ۔ واؤ عطف کا ہے۔ الذین امنوا ۔ موصول وصلہ مل کر معطوف اور اللہ معطوف علیہ۔ ای ویخدعون الذین امنوا۔ اور وہ دھوکہ دیتے ہیں ایمان لانے والوں کو۔ وما یخدعون الا انفسہم، جملہ حالیہ ہے۔ حالانکہ وہ اپنے آپ ہی کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ما نافیہ۔ یخدعون مضارع جمع مذکر غائب۔ خدع۔ مصدر (باب فتح سے) انفسھم مضاف، مضاف الیہ مل کر مفعول یخدعون کا ترجمہ : حالانکہ وہ اپنے آپ ہی کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ انفس جمع ہے نفس کی۔ نفس ذت شے کو کہتے ہیں خواہ جو ہر ہو یا عرض۔ (جو بذات خود قائم ہو وہ جوہر ہے مثلاً ذات باری تعالیٰ کی اس کے لئے بھی نفس کا استعمال ہوا ہے ۔ مثلاً ما فی نفسی ولا اعلم ما فی نفسک (5:116) تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے ضمیر میں ہے) عرض وہ چیز جو دوسری چیز کی وجہ سے قائم ہو۔ وما یشعرون ۔ ۔ واؤ حالیہ ، ما یشعرون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ جملہ حالیہ ہے۔ اور یہ یخدعون کی ضمیر سے حال ہے۔ یشعرون۔ شعور۔ مصدر ، (باب نصر) سے ہے۔ مطلب یہ ہے وہ جو اس سے اس کا ادراک نہیں کر کستے ، وہ نہیں سمجھتے۔ یہ الشعر سے ہے جس کے معنی بال ہیں اور اس کی جمع اشعار ہے۔۔ امام راغب (رح) لکھتے ہیں : شعرت کے معنی بالوں پر مارنے کے ہیں اور اسی سے شعرت کذا مستعار ہے۔ جس کے معنی بال کی طرح باریک علم حاصل کرلینے کے ہیں۔ اور شاعر کو بھی اس کی فطانت اور لطافت نظر کی وجہ سے ہی شاعر کہا جاتا ہے۔ تو لیت شعری کذا کے محاورہ میں شعر اصل میں علم لطیف کا نام ہے۔ پھر عرف میں موزوں اور مقفی کلام کو شعر کہا جانے لگا۔
Top