Al-Qurtubi - Al-Baqara : 9
یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۚ وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ
يُخٰدِعُوْنَ : وہ دھوکہ دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ کو وَ : اور الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے وَ : اور مَا : نہیں يَخْدَعُوْنَ : وہ دھوکہ دیتے اِلَّآ : مگر اَنْفُسَھُمْ : اپنے نفسوں کو وَ : اور مَا : نہیں يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور رکھتے
یہ خدا کو اور مومنوں کو چکما دیتے ہیں مگر (حقیقت میں) اپنے سوا کسی کا چکما نہیں دیتے اور اس سے بیخبر ہیں
آیت نمبر 9 ہمارے علماء نے فرمایا : یخدعون اللہ کا معنی ہے : وہ اپنے گمان اور خیال کے مطابق اللہ تعالیٰ کو دھوکا دیتے ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ اس لئے فرمایا کیونکہ ان کا عمل، ایک دھوکا دینے والے کے عمل جیسا ہوتا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : کلام میں حذف ہے۔ اصل میں ہے یخادعون رسول اللہ ﷺ ۔ وہ اللہ کے رسول کو دھوکا دیتے ہیں۔ حسن وغیرہ سے مروی ہے، ان کے رسول اللہ کو دھوکا دینے کو اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینے کے مترادف فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آپ ﷺ کی رسالت کے ساتھ بلایا۔ اسی طرح جب انہوں نے مومنین کو دھوکا دیا تو یقیناً انہوں نے اللہ تعالیٰ کو دھوکا دیا۔ ان کا دھوکا یہ تھا کہ وہ ایمان ظاہر کرتے تھے جبکہ ان کے دلوں میں کفر تھا۔ یہ وہ اس لئے کرتے تھے تاکہ اپنے خون اور اپنے اموال بچا لیں اور وہ گمان کرتے تھے کہ وہ نجات پا گئے اور انہوں نے دھوکا دے دیا۔ یہ مفسرین کی ایک جماعت کا قول ہے۔ اہل لغت نے فرمایا : کلام عرب میں الخدع کا معنی ہے : فساد۔ ثعلب نے یہ ابن اعرابی سے روایت کیا ہے۔ اس نے شعر کہا ہے : ابیض اللون لذیذ طعمہ طیب الریق اذ الریق خدع رنگ سفید ہے ذائقہ لذیذ ہے، اس کا لعاب پاک ہے جب کہ اس کا لعاب فاسد ہوجائے۔ میں کہتا ہوں : اس اعتبار سے یخدعون اللہ کا معنی ہوگا : وہ اپنے ایمان اور اعمال کو ریاکاری کی وجہ سے اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان خراب کردیتے ہیں۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ سے، تفسیر کے ساتھ آیا ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔ اور قرآن حکیم میں ہے : یرآءون الناس (النساء : 142) (وہ لوگوں کے لئے دکھاوا کرتے ہیں ) ۔ بعض علماء نے فرمایا : خدع کا اصل معنی الاخفاء (چھپانا ہے) ہے۔ اسی سے مخدع البیت ہے جس میں کوئی چیز چھپائی جاتی ہے۔ یہ ابن فارسی وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ عرب کہتے ہیں : انخدع الضب فی جحرہ۔ یعنی گوہ اپنے بل میں چھپ گئی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما یخدعون الا انفسھم۔ اس میں نفی اور ایجاب ہے یعنی دھوکے کا انجام اپنے اوپر ہی نازل ہوگا۔ یہ عربوں کے کلام سے ہے : من خدع من لا یخدع فانما یخدع نفسہ، جو ایسی ذات کو دھوکا دیتا ہے جس کو دھوکا نہیں دیا جاسکتا تو وہ اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے اور یہ صحیح ہے کیونکہ دھوکا تو اسے دیا جاسکتا ہے جو بواطن کو نہ جانتا ہو، اور جو بواطن کو جانتا ہو جو اس کے ساتھ دھوکا کرتا ہے تو وہ اپنے آپ سے دھوکا کرتا ہے۔ یہ دلیل ہے کہ منافقین نے اللہ تعالیٰ کی ذات کو نہیں پہچانا کیونکہ اگر وہ اسے پہچانتے ہوتے تو وہ جان لیتے کہ اسے دھوکا نہیں دیا جاسکتا۔ پہلے نبی کریم ﷺ کا ارشاد گزر چکا ہے۔ فرمایا : اللہ تعالیٰ کو دھوکا نہ دو کیونکہ جو اللہ تعالیٰ کو دھوکا دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس دھوکے کی سزا دیتا ہے اور وہ اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے اگر وہ سمجھے۔ تو صحابہ نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ تعالیٰ کو کیسے دھوکا دیا جاسکتا ہے ؟ فرمایا : تو وہ عمل کرتا ہے جس کا اللہ نے تجھے حکم دیا اور اس کے ساتھ تو غیر کی رضا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دھوکا کی حقیقت کا بیان آگے اللہ یستھذئ بھم کے تحت آئے گا۔ نافع، ابن کثیر، ابو عمرہ نے دونوں جگہ یخادعون پڑھا ہے تاکہ دونوں لفظ متجانس ہوجائیں۔ عاصم، حمزہ، کسائی اور ابن عامر نے دوسری جگہ یخدعون پڑھا ہے اس کا مصدر خدع وخدیعۃ ہے۔ یہ ابو زید نے حکایت کیا ہے مورق العجلی یخدعون اللہ یعنی یا کے ضمہ، حا کے فتح اور دال کی تشدید کے ساتھ پڑھتے کثرت کا معنی لینے کے لئے۔ ابو طالوت عبد السلام بن شداد اور جارود نے یاء کے ضمہ، خا کے سکون اور دال کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے (1) اس معنی پر ما یخدعون الاعن انفسھم، حرف جر کو حذف کیا گیا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واختار موسیٰ قومہ (الاعراف : 155) اصل میں من قومہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما یشعرون یعنی وہ نہیں جانتے کہ ان کے دھوکے کا وبال ان کی طرف ہی لوٹنے والا ہے وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ اپنے دھوکہ کی وجہ سے نجات پا گئے اور کامیاب ہوگئے۔ یہ دنیا میں ہے اور آخرت میں انہیں کہا جائے گا : ارجعوا وراء کم فالتمسوا نوراً ۔ واپس پلٹ جاؤ اور نور تلاش کرو، جیسا کہ آگے آئے گا۔ اہل لغت نے کہا : شعرت بالشیئ۔ یعنی میں نے اس کو جان لیا۔ اسی سے شاعر کی فطانت کی وجہ سے اسے شاعر کہا جاتا ہے کیونکہ شاعر جو معانی پہچانتا ہے وہ دوسرے نہیں پہچانتے۔ اسی سے عربوں کا قول ہے : لیت شعری۔ یعنی کاش میں جان لیتا۔
Top