Asrar-ut-Tanzil - Faatir : 8
اَفَمَنْ زُیِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَنًا١ؕ فَاِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ۖ٘ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا جس زُيِّنَ : آراستہ کیا گیا لَهٗ : اس کے لیے سُوْٓءُ عَمَلِهٖ : اس کا برا عمل فَرَاٰهُ : پھر اس نے دیکھا اسے حَسَنًا ۭ : اچھا فَاِنَّ اللّٰهَ : پس بیشک اللہ يُضِلُّ : گمراہ ٹھہراتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَيَهْدِيْ : اور ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ ڮ : جس کو وہ چاہتا ہے فَلَا تَذْهَبْ : پس نہ جاتی رہے نَفْسُكَ : تمہاری جان عَلَيْهِمْ : ان پر حَسَرٰتٍ ۭ : حسرت کر کے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلِيْمٌۢ : جاننے والا بِمَا : اسے جو يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے ہیں
تو کیا وہ شخص جس کو اس کا برا کام اچھا کرکے دکھایا گیا پھر وہ اس کو اچھا سمجھنے لگا (تو کیا وہ نیک آدمی جیسا ہوسکتا ہے) ، پس بیشک اللہ جس کو چاہتے ہیں گمراہ کرتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں سو ان لوگوں پر (اتنا) افسوس نہ کریں کہ آپ کی جان ہی جاتی رہے بیشک اللہ ان کے سب کاموں سے باخبر ہیں
رکوع نمبر 6 ۔ آیات 8 تا 14: اسرار و معارف : کچھ لوگ جب اللہ سے منہ موڑ لیتے ہیں تو ان پر اللہ کا یہ غضب ہوتا ہے کہ ان کی سوچ الٹ جاتی ہے اور انہیں برائی کے کام بھلے لگنے لگتے ہیں اور یوں وہ کرتے چلے جاتے ہیں اور جس کو اللہ چاہتا ہے یعنی جس کے دل میں اللہ سے ہدایت کی طلب پیدا ہوجائے اسے ہدایت عطا فرما دیتا ہے لہذا آپ ان کی گمراہی کے دکھ کو اس قدر شدت سے محسوس نہ کیجیے کہ یہ ان کا اپنا انتخاب کردہ راستہ ہے اور اللہ ان کے کردار اور قلبی ارادوں تک سے خوب واقف ہے۔ سبحان اللہ جس رسول رحمتکو کفار کا کفر پہ رہنا دکھی کردیتا ہے اسے مسلمانوں کا کفار کے سے اعمال کرنا کس قدر دکھ پہنچاتا ہوگا۔ اللہ ہمیں اپنے غضب سے اپنی پناہ میں رکھے آمین۔ ان کی عقل الٹ نہ گئی ہوتی تو یہ بھلا قیامت کا انکار کیوں کرتے جبکہ ان کے سامنے زمین مردہ اور بےآب وگیاہ ہوجاتی ہے پھر وہ قادر مطلق ہواؤں کو چلاتا ہے جو بادلوں کو اڑا لاتی ہیں اور امنڈ امنڈ کر آنے والے بادل برس کر جل تھل کردیتے ہیں تو مردہ زمین میں زندگی کی بہار آجاتی ہے اور ہر ذرے سے زندگی پھوٹنے لگتی ہے ہر تنکا ہر پھول اور پتہ یہ گواہی دے رہا ہوتا ہے کہ اسی طرح سے ہر شے کو وہ روز حشر پھر سے پیدا فرما دے گا۔ لوگ دنیا اور اس کی نعمتوں میں اقتدار و اختیار میں اپنے لیے عزت تلاش کرتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے کہ ساری عظمت صرف اللہ کے لیے ہے اسے چھوڑ کر کوئی معزز نہیں ہوسکتا ہاں اسی میں فنا ہو کر عزت پا سکتا ہے اور اس کی طرف اٹھتا ہے ہر نیک کلمہ یعنی برائی اس کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہوسکتی بلکہ ان نیک کلمات کو بھی نیک عمل اس کی بارگاہ میں پہنچانے کا سبب بنتا ہے یہ نیک عمل یا عمل صالح کیا ہے جو وجہ قبولیت بن جاتا ہے اس پہ مفسرین کرام نے بہت لکھا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر کام جو شریعت کے مطابق ہو وہ بیشک عمل صالح ہے مگر سب کی قبولیت کا سبب جو نیک کام ہے وہ خلوص قلبی ہے جو ذکر قلبی اور ذکر دوام نصیب ہوتا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بڑے ہوشیار ہیں اور بظاہر اپنی اچھائی کا ڈھنڈورا پیٹ کر برائی کرنے میں لگے ہیں انہیں بہت سخت عذاب ہوگا اور ان کے اس فریب کا پردہ بھی چاک ہوجائے گا اور ان کی ہوشیاری تباہ ہوجائیگی۔ بھلا رب جلیل کے ساتھ انسان کیا ہوشیاری کرلے گا جس نے اسے مٹی سے بنایا اور کہاں کہاں سے ذرات جمع فرما کر انہیں ایک قطرہ میں جمع کردیا اور پھر وہاں سے انسان بنا کر مرد و زن پیدا فرما دئیے اس کے بعد بھی جو جہاں ہوتا ہے حتی کہ کوئی پشت پدر میں ہے یا رحم مادر میں یا کوئی جب پیدا ہوتا ہے تو ہر ایک کا ہر حال اللہ کے علم میں ہے اگر کسی کی عمر طویل ہوتی ہے تو یہ اس کی اپنی ہوشیاری نہیں یا کم ہوتی ہے تو محض اتفاق نہیں بلکہ اللہ کا علم تو بہت وسیع ناپید اکنار ہے۔ یہ سب تو معمولی باتیں ہیں جو لوگ مھفوظ تک میں لکھی ہوئی ہیں اللہ کریم کے علم کے مقابلے میں تو یہ بہت چھوٹی ہیںٰ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ پھر بھلا اسے کون دھوکہ دے سکے گا۔ اب ذرا ایک ہی زمین میں یا اس کے اوپر ایک ہی فضا میں دو طرح کا پانی دیکھ لو کیسا قادر ہے کہ ایک کو میٹھا بنا دیا جو پیاس بجھاتا ہے اور کس قدر مفرح ہے اس کا پینا مگر دوسرے کو نمکین اور کھارا بنا دیا۔ پھر اس کی قدرت کاملہ کو جہاں میٹھے پانی کے دریاؤں میں مچھلی وغیرہ کی صورت میں گوشت ذخیرہ کردیا وہاں کھاری اور سمندری پانی میں بھی یہ دولت رکھ دی اور جہاں سمندروں کی تہہ میں موتی رکھ دئیے وہاں دریاؤں کا دامن بھی زروجواہر سے بھر دیا کہ تم گوشت بھی حاصل کرتے اور زیب وزینت کا سامان بھی اور اس نے تمہیں عقل اور قوت دی کہ تم نے بحری جہاز بنا لیے جو سمندروں کے سینے شق کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں جن کے باعث تم اپنا رزق تلاش کرتے ہو یہ سب عنایات تو تقاضا کرتی ہیں کہ تم پیشہ اس کا شکر ادا کرتے رہو۔ پھر سارے نظام حیات کو دیکھو جو شب و روز کا محتاج ہے موسموں اور بارش کا محتاج ہے بھلا اس نظام کو کون چلاتا ہے صرف اللہ کی ذات ہے جو رات کو دن اور دن کو رات کرتی ہے۔ سورج چاند یعنی نظام شمسی کو اس نے کام پہ لگا رکھا ہے کہ ہر ایک اپنے وقت مقررہ تک اپنے کام پر لگا ہوا ہے یہ شان اور عظمت ہے اس ذات کی جو تم سب کا پروردگار اور پالنہار ہے اور ساری کائنات میں صرف اس کی حکمرانی ہے اور اس کا حکم جاری ہے اسے چھوڑ کر کفار جن کو اپنا معبود مان لیتے ہیں اس سارے نظام میں تو کوئی معمولی شے یعنی کھجور کی گٹھلی پہ جو چھلکا ہوتا ہے وہ بھی ان کی ذاتی ملکیت نہیں کہ اس پہ اپنی مرضی سے تصر کرسکیں اور بغیر اللہ کے سنوانے کے از خود کچھ سن بھی نہیں سکتے اگر اللہ انہیں سنوا بھی دے تو کچھ کر نہیں سکتے کہ سب کچھ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ بلکہ بت ہوں یا اللہ کی برگزیدہ ہستیاں کفار نے جن کو بھی معبود بنا رکھا ہے قیامت کے دن سب اس کا انکار کردیں گے اور کوئی بھی ان کے مشرک ہونے کا ذمہ نہ لے گا۔ یہ وہ حقائق جو رب خبیر بتا رہا ہے کہ اس جیسی خبر اور کوئی نہیں دے سکتا۔
Top