Tafseer-e-Madani - Faatir : 8
اَفَمَنْ زُیِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَنًا١ؕ فَاِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ۖ٘ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا جس زُيِّنَ : آراستہ کیا گیا لَهٗ : اس کے لیے سُوْٓءُ عَمَلِهٖ : اس کا برا عمل فَرَاٰهُ : پھر اس نے دیکھا اسے حَسَنًا ۭ : اچھا فَاِنَّ اللّٰهَ : پس بیشک اللہ يُضِلُّ : گمراہ ٹھہراتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَيَهْدِيْ : اور ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ ڮ : جس کو وہ چاہتا ہے فَلَا تَذْهَبْ : پس نہ جاتی رہے نَفْسُكَ : تمہاری جان عَلَيْهِمْ : ان پر حَسَرٰتٍ ۭ : حسرت کر کے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلِيْمٌۢ : جاننے والا بِمَا : اسے جو يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے ہیں
بھلا (اس شخص کی محرومی اور بدبختی کا کوئی ٹھکانا ہوسکتا ہے ؟ ) جس کیلئے خوشنما بنادیا گیا ہو اس کے برے عمل کو (اس کی اپنی بدنیتی اور سوء اختیار کی بناء پر) جس سے وہ اس کو اچھا ہی سمجھے جا رہا ہو ؟ سو اللہ گمراہی (کے گڑھے) میں ڈالتا ہے جس کو چاہتا ہے اور (نور حق و) ہدایت سے نوازتا ہے جس کو چاہتا ہے پس گھلنے نہ پائے آپ کی جان (عزیز اے پیغمبر ! ) ان (بدبختوں کی حرمان نصیبی) پر افسوس کرتے ہوئے بیشک اللہ پوری طرح جانتا ہے ان سب کاموں کو جو یہ لوگ کر رہے ہیں
19 برائی کو اچھائی سمجھنا ہلاکتوں کی ہلاکت اور خرابی کی جڑ بنیاد ہے ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " بھلا اس شخص کی محرومی اور بدبختی کا کوئی ٹھکانا ہوسکتا ہے جس کے لیے خوشنما بنادیا گیا ہو اس کے برے عمل کو " ۔ اس کی بدنیتی اور سوئِ اختیار کی بنا پر ۔ جس سے وہ اپنے اس برے عمل کو ہی اچھا سمجھتا ہو۔ اور استفہام ظاہر ہے کہ انکاری ہے۔ یعنی ایسے شخص کی بدبختی کا کوئی ٹھکانا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ایسا شخص جب اپنے برے عمل کو اچھا سمجھتا ہوگا تو پھر وہ اس کو چھوڑے گا کیوں ؟ سو برائی کا یہ درجہ بڑا ہی خطرناک ہے اور یہی وجہ ہے کہ بدعتی شخص کے لئے توبہ نہیں۔ یعنی اس کو توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ وہ اپنی بدعت کو نیکی اور ثواب سمجھتا ہے۔ تو پھر توبہ کس طرح اور کیونکر ہو ؟ اسی لئے علماء کہتے ہیں کہ بدعت ہر کبیرہ سے بڑھ کر کبیرہ گناہ ہے۔ کیونکہ اس سے ایک طرف تو دین کا حلیہ بگاڑنے کی راہ کھلتی ہے جو کہ آگے کئی گناہوں اور خرابیوں کی جڑ بنیاد ہے اور دوسرے اس لئے کہ بدعتی شخص چونکہ اس کو نیکی سمجھتے ہوئے کرتا ہے اس لئے وہ اس سے کبھی توبہ نہیں کرتا بخلاف مرتکب کبیرہ کے کہ وہ بہرحال اس کو گناہ اور جرم سمجھتا ہے۔ اس لئے وہ کبھی نہ کبھی اس سے توبہ کرلے گا۔ اور بدعت کی اس خطورت و شناعت کے بارے میں راقم آثم نے اپنی کتاب " تحفہ علم و حکمت " میں حدیث ۔ " مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ " ۔ کے ذیل میں کافی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اور جو کم و بیش کوئی پچیس سال قبل چھپ بھی گئی تھی اور اب تک کئی ہزار تک چھپ کر تقسیم بھی ہوچکی ہے ۔ والحمد للہ ۔ اللہ پاک قبول فرمائے ۔ آمین۔ اور راقم کا اس موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھنے کا بھی ارادہ ہے ۔ وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ وَالْمُعِیْنُ وَعَلَیْہِ نَتَوَکَّلُ وَ بِہٖ نَسْتَعِیْنُ ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح ہوجاتا ہے کہ برائی کو اچھائی سمجھنا ہلاکتوں کی ہلاکت اور تمام تر خرابی و فساد کی جڑ بنیاد ہے کہ ایسے لوگ پھر برائی کے چنگل سے کبھی نکل نہیں سکتے۔ یہاں تک کہ وہ ہلاکت و تباہی کے دائمی گڑھے اور ہولناک ہاویے میں جاگرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ یہی وجہ ہے کہ کافر اپنے کفر کو، مشرک اپنے شرک کو، ملحد اپنے الحاد کو، بت پرست اپنی بت پرستی کو، تعزیہ پرست اپنی تعزیہ پرستی کو اور قبر پرست اپنی قبر پرستی کو صحیح سمجھتا ہے اور اس کیلئے وہ اپنے طور پر طرح طرح کے من گھڑت دلائل پیش کرتا اور فلسفے بھگارتا ہے۔ اور بدعتی شخص طرح طرح کی بدعات میں مبتلا و ملوث ہونے کے باوجود اپنے آپ کو سنّی کہتا اور اپنی بدعت پرستی کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو پھر ایسوں کو نور حق و ہدایت ملے تو کیسے اور کیونکر ؟ سو ایسا شخص حق و ہدایت کے نور سے محروم ہی ہوتا جاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 20 ہدایت و ضلالت کے بارے میں سنت الہی کی طرف اشارہ : سو ہدایت و ضلالت کے بارے میں سنت الہی اور دستور خداوندی کی طرف اشارہ ہے کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ گمراہی میں ڈالتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ہدایت سے نوازتا ہے جس کو چاہتا ہے "۔ کیونکہ اس کے یہاں سے ہدایت کی یہ دولت اسی کو ملتی ہے جو اس کے لئے طلب صادق رکھتا ہو۔ اور یہ جستجو اس قسم کے برخود غلط اور بدعتی لوگوں میں ہوتی نہیں۔ تو پھر ان کو ہدایت ملے تو کیونکر ؟ اور وہ وحدہ لاشریک دلوں کی دنیا کو پوری طرح جانتا ہے۔ اور وہی جانتا ہے کہ کس کے دل کی کیفیت کیا ہے۔ اسی کے مطابق وہ ہر ایک سے معاملہ فرماتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بہرکیف اس ارشاد سے ہدایت اور ضلالت کے بارے میں اس سنت الہی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس باب میں مقرر فرما رکھی ہے جس کا ذکر کتاب حکیم میں مختلف مقامات پر فرمایا گیا ہے جس کی وضاحت ہم بھی کئی جگہ کرچکے ہیں اور اسی سورة کریمہ میں اس کی مزید وضاحت آگے بھی آرہی ہے۔ 21 معاندین کا معاملہ اللہ کے حوالے کرنے کی ہدایت : سو پیغمبر کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ آپ کو ایسے لوگوں کے غم میں ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کردیں۔ بیشک اللہ پوری طرح جانتا ہے ان تمام کاموں کو جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ پس وہ ان کی خبر خود ہی لے لے گا۔ اور یہ لوگ اپنے کئے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگت کر رہیں گے۔ آپ ﷺ کا کام تو صرف پیغام حق پہنچا دینا ہے اور بس۔ اور وہ آپ ﷺ نے پورا کردیا۔ اس میں آپ ﷺ نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اب آپ کا ذمہ فارغ ہے۔ اب اللہ ان سے خود نپٹ لے گا۔ لہذا آپ ﷺ انکے بارے میں کوئی افسوس نہ کریں کہ یہ بدبخت اپنی ہلاکت اور تباہی کے ذمہ دار خود ہیں۔ انہوں نے خود عقلی اور روحانی خود کشی کو اختیار کر کے اپنے آپ کو ہلاکت و تباہی کے اس ہولناک گھاٹ پر اتارا ہے۔ سو یہ اگر ایمان نہیں لا رہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ آپ کی دعوت میں کوئی کسر ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دلوں پر ان کے عناد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر مہر لگ چکی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top