Tafseer-e-Baghwi - Faatir : 8
اَفَمَنْ زُیِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَنًا١ؕ فَاِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ۖ٘ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا جس زُيِّنَ : آراستہ کیا گیا لَهٗ : اس کے لیے سُوْٓءُ عَمَلِهٖ : اس کا برا عمل فَرَاٰهُ : پھر اس نے دیکھا اسے حَسَنًا ۭ : اچھا فَاِنَّ اللّٰهَ : پس بیشک اللہ يُضِلُّ : گمراہ ٹھہراتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَيَهْدِيْ : اور ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ ڮ : جس کو وہ چاہتا ہے فَلَا تَذْهَبْ : پس نہ جاتی رہے نَفْسُكَ : تمہاری جان عَلَيْهِمْ : ان پر حَسَرٰتٍ ۭ : حسرت کر کے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلِيْمٌۢ : جاننے والا بِمَا : اسے جو يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے ہیں
بھلا جس شخص کو اس کے اعمال بد آراستہ کر کے دکھائے جائیں اور وہ ان کو عمدہ سمجھنے لگے تو (کیا وہ نیکو کار آدمی جیسا ہوسکتا ہے ؟ ) بیشک خدا جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے تو ان لوگوں پر افسوس کر کے تمہارا دم نہ نکل جائے یہ جو کچھ کرتے ہیں خدا اس سے واقف ہے
8، افمن زین لہ سوء عملہ ، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا یہ آیت ابو جہل اور دوسرے مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی۔ سعید بن جبیر (رح) نے کہا کہ یہ آیت اہل بدعت اور پرستاران ہواوہوس کے حق میں نازل ہوئی۔ قتادہ کا قول ہے کہ انہی میں سے خارجیوں کا گروہ تھا جو مسلمانوں کا خون بہانا اور مال لوٹنا حلال سمجھتے تھے۔ دوسرے اہل کبائر اس میں شامل نہیں ہیں۔ ، افمن زین، جس کو اس کا عمل مزین کرکے دکھایا گیا ہو۔ ، علیہ لہ سوء عملہ، اس کا براعمل ۔ ، فراہ، حسنا، شیطان اس کے اس برے عمل کو خوبصورت کرکے پیش کرتا ہے وساوس سے ۔ اس آیت میں حذف مضاف ہے۔ کیا وہ اپنے برے عمل کو مزین کرکے پیش کرتا ہے حالانکہ وہ باطل ہے پھر بھی اس کو حق سمجھتا ہے جیسے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نواز ہو۔ اللہ اس کو حق کی راہ دکھلادیتا ہے اور باطل کو باطل دکھا دیتا ہے۔ ، افان اللہ یضل من یشاء ویھدی من یشاء ، بعض نے کہا کہ اس کا جواب اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے :، فلا تذھب نفسک علیھم حسرات، کہ جب گمراہ کا فروں کے احوال پر رسول اللہ ﷺ وسلم کو بکثرت افسوس ہوتا تھا۔ بعض حضرات نے کہا کہ حسرات مفعول لہ ہے یعنی افسوس کرنے کی وجہ سے کہیں آپ کی جان نہ جاتی رہے۔ حسن بن فضل نے فرمایا کہ اس میں تقد یم وتا خیر ہے۔ مطلب یہ ہوگا کہ کیا ایسا شخص جس کو اس کا عمل بداچھا کرکے دکھایا گیا ہو، پھر وہ اس کو اچھا سمجھنے لگاہو، آپ اس کو دیکھ کر افسوس نہ کریں کیونکہ جب کوئی کام فوت ہوجائے۔ آیت کا معنی یہ ہوگا کہ ان کے کفر کی وجہ سے آپ اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچائیں ، اگر وہ ایمان نہیں لاتے ۔ ابو جعفر نے، فلاتذھب ، میں تاء کو مضموم پڑھا ہے اور ھا کے کسرہ کے ساتھ اور، نفسک ، کو منصوب پڑھا ہے۔ ، ان اللہ علیم بما یصنعون،
Top