Kashf-ur-Rahman - Faatir : 8
اَفَمَنْ زُیِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَنًا١ؕ فَاِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ۖ٘ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا جس زُيِّنَ : آراستہ کیا گیا لَهٗ : اس کے لیے سُوْٓءُ عَمَلِهٖ : اس کا برا عمل فَرَاٰهُ : پھر اس نے دیکھا اسے حَسَنًا ۭ : اچھا فَاِنَّ اللّٰهَ : پس بیشک اللہ يُضِلُّ : گمراہ ٹھہراتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَيَهْدِيْ : اور ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ ڮ : جس کو وہ چاہتا ہے فَلَا تَذْهَبْ : پس نہ جاتی رہے نَفْسُكَ : تمہاری جان عَلَيْهِمْ : ان پر حَسَرٰتٍ ۭ : حسرت کر کے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلِيْمٌۢ : جاننے والا بِمَا : اسے جو يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے ہیں
بھلا وہ شخص جس کی نگاہ میں اس کے عمل کی برائی خوشنما کردی گئی ہو اور وہ اس برے عمل کو اچھا سمجھتا ہو تو کیا یہ اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو ایسا نہ ہو یقین جانو اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ رکھتا ہے اور جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے سو اے پیغمبران کافروں پر افسوس کرتے کرتے کہیں آپ کی جان نہ جاتی رہے۔ بلاشبہ جو کچھ یہ کر رہے ہیں خدا کو اس سب کا علم ہے
(8) بھلا کیا وہ شخص جس کا برا عمل اس کے لئے خوش نما اور آراستہ و مزین کردیا گیا ہو پھر وہ اس عمل بد کو اچھا سمجھ رہا ہو تو کیا یہ شخص اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو برے کو برا سمجھتا اور دیکھتا ہو کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بےراہ اور گمراہ رکھتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس کی رہنمائی فرماتا ہے اور اے پیغمبر ان منکرین دین حق پر حسرت اور افسوس کرتے کرتے کہیں آپ کی جان نہ جاتی رہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ کو ان کے کاموں کی جو وہ کرتے ہیں سب خبر ہے۔ یعنی دین حق کے منکروں کو ان کے برے اعمال کفروشرک وغیرہ اچھے دکھائی دیتے ہیں ان برے اعمال کو ان کی نگاہ میں شیطان آراستہ و پیراستہ کر کے اور مزین کر کے دکھاتا ہے۔ شاید یہ آیت ابوجہل کے حق میں نازل ہوئی یا اہل بدعت اور خوارج کے حق میں نازل ہوئی ہو پھر جو برے عمل کو اچھا اور بدنما کو حسین سمجھے وہ شخص اس حقیقت آشنا کے برابر کیسے ہوسکتا ہے جو توحید اسلامی کو اچھا اور شرک کو برا جان کر اس سے بیزار ہے۔ اس سوال کا جواب یہی ہوسکتا ہے کہ مومن اور کافر برابر نہیں ہے اس پر یہ شبہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص برے فعل کو اچھا کس طرح سمجھ سکتا ہے۔ اس کا جواب ہے کہ حضرت حق تعالیٰ جس بدنصیب سے چاہیں اپنے دامن ہدایت کو سمیٹ لیں اور اپنی رہنمائی سے اس کو محروم کردیں اور جس خوش نصیب کے لیے اپنی رہنمائی کے دامن وسیع کردیں اور اس کی رہنمائی فرما دیں اور ان کی رہنمائی کرنے کا یہ اثر ہے کہ اچھے کو اچھا اور برے کو برا سمجھتا ہے اور ان کا اپنی رہنمائی کے دامنوں کو سمیٹ لینے کا اثر یہ ہے کہ انسان برے کاموں کو اچھا سمجھنے لگتا ہے۔ پس اے پیغمبر ایسے عقل کے دشمنوں اور شیطان کے فریب خوردہ لوگوں پر غم نہ کیجئے اور پچتا پچتا کر اپنی جان نہ کھو بیٹھئے ان کی تمام کارروائیوں سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے اور واقف حال ہے۔ آگے دلائل توحید اور قیامت کا پھر ذکر ہے۔
Top